Saturday, June 19, 2010

عشق نہیں محتاج کسی عہد و پیماں

0 comments
عشق نہیں محتاج کسی عہد و پیماں
مشک کے پھیلنے کو نہیں پابندیء گلستاں

جب آفتاب و مہتاب ہی نہیں کرتے تفریق ِزیاں
نہیں ہے کوئی خدا اور بندے کے درمیاں

کبھی تو ہے باغباں اور کبھی بیاباں
آدمی کو میسر نہیں کہ وہ ہے کیا انساں

تیر تو چلتے ہیں اپنی ہی کماں
بے جا اسراف لے لیتے ہیں جاں

تکلف برطرف جنبشِ نیناں
نہیں یہ طوطا کی مینا جانِ جاناں

خونِ آنسو اور خوابِ حقیقت کا بیاں
کیسے بدل جاتا ہے کمیں کا عزتِ جہاں

اسی کے ہیں یہ سب ارض و سماں
وہی ہے یہاں اور وہی ہے وہاں

تڑپ دکھا چاہت کو پانے کی جاوداں
اتر آئے گا تیرے لیے فرشِ آسماں

نہیں ہے یہ کسی لیلی مجنوں کی داستاں
یہ تو ہے سچے عاشق کی تعظیمِ محبوبِ بیاں

پانے اور لوٹ جانے کا ہے تجھے گماں
یہ کچھ بھی نہیں بہت آگے ہیں وہ جہاں

الف اقرا ہی سے میرا علم وجود مہرباں
تیری رضا ہی سے رنگیں صحرا و ریگستاں


موسل بار / محمودالحق

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔