Wednesday, December 24, 2014

بنجر زمین فصل نو بہار

0 comments

جو زندگی کے سفر میں تنہا رہتے ہیں ۔ہجوم غافل میں سسکتی آہوںکو آنکھوں سے کھوجتے تو کانوں سے ٹٹولتے ہیں۔بلند و بالا پہاڑوں کے بیچ اندھیری کھائیوں سے گونجنے والی آوازیں قوت سماعت سے ٹکرا کر قوت احساس کا امتحان بن جاتی ہیں۔
زندگی سفر میں آسان ہوتی ہے، آزمائش میں امتحان۔جس میں پورا اترنے کی کوشش میں راستے کی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے خوف کی گانٹھیں ایسی سختی سے لگاتے جاتے ہیں کہ جب کھولنے کا وقت آتا ہے تو دانتوں سے بھی کھل نہیں پاتیں۔یہ ایسی آندھی ہےجو رفتار بڑھنے پر ہر شے تہس نہس کر دیتی ہے۔جو مان کر بیٹھ جاتے ہیں ،جان کر جان سے چلے جاتے ہیں۔پاس آنے سے جو سکون پاتے ہیں، دور جانے سے کھونے کے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔زندگی انہیں راستہ دکھاتی ہے جو منزل کی تلاش میں بے خود ہو جاتے ہیں، بے خوفی انہیں مقام تلاش سے آگے دھکیل دیتے ہیں۔پھونک پھونک کر قدم اُٹھانے والے قدموں کی چاپ کے احساس سے واپس پلٹنے پر بضد رہتے ہیں۔
اندھیری گلیوں سے گزرتے ہوئے چاندنی راتوں کے انتظار کی سولی پر جو لٹکے رہتے ہیں، وقت گزرنے پر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔یہ محبوب کی گلی نہیں کہ جس میں راستے پھولوں سے سجائے جاتے ہیں۔عاشقوں کے راستے کانٹوں سے لبریز برہنہ پا عشقِ لہو سے سرخ ہوتے ہیں۔یہ سردیوں کی رات نہیں کہ لحاف اوڑھ کر بسر کر لی جائے۔ یہ وہ پیراہن ہے جو کھلے آسمان تلے ٹھٹھرتی راتوں میں پیشانی پر پانی کے قطرہ سے نمودار ہو جائے۔
محبت کوئی پھول نہیں کہ آگے بڑھ جاؤ تو وہ مرجھا جائے۔ یہ تو وہ کانٹے ہیں جو دامن سے اُلجھ کر تار تار کر دیتے ہیں۔آگے بڑھنا جنہیں محال ہے، اظہار کی نہیں انہیں کوئی مجال ہے۔یہ بھیک نہیں جو خیرات پر ختم ہو۔یہ منزل نہیں جو جستجو پر ختم ہو۔یہ دل نہیں جو دھڑکن سے ختم ہو۔یہ اندھیرا نہیں جو روشنی سے ختم ہو۔یہ آس نہیں جو خیال سے ختم ہو۔یہ وجود نہیں جو چاہ سے ختم ہو۔
جو پا گیا وہ راز زندگی جان گیا۔جو کہنے سے رہ گیا وہ پھر ایک طویل سفر پر چلنے کے لئے تیار ہو گیا۔ایک پڑاؤ سے اُٹھ گئے تو سمجھو چل پڑےنئے پڑاؤ کی طرف نئی منزلوں کی طرف۔مسافر گزر جاتے ہیں منزلیں ٹھہری رہتی ہیں۔آگے بڑھ کر جو تھام لےوہی سفر کو روک لیتے ہیں۔ جو خود گزر جاتے ہیں وہ اُلجھ جاتے ہیں۔یہ ایسا امتحان ہے جو دوسرا چانس نہیں دیتا۔جو گزر گیا سو بھول گیا۔یاد صرف وہی رکھا جاتا ہے جسے مکمل تسخیر کر لیا جاتا ہے۔جو مسخر نہ ہو اسے ریاست تخیل سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔خط و کتابت میں حال واحوال جانا جاتا ہے۔ کیفیت اظہار میں ہاں نا سے فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔جب کوئی خود کے بس میں نہیں تو کسی اور کے خیال سے حقیقت کیسے ہو گا۔
پرانے کپڑے رفو گری کے کمال ہنر مندی کے محتاج ہوتے ہیں ۔ نئے تعلق آداب تخیل سے بے پرواہ ہوتے ہیں۔دو راستے نقطہ آغاز سے سمت مخالف بڑھنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔آگے بڑھنے والے پلٹ سکتے ہیں مگر پلٹ کر بڑھنا جان جوکھوں کا کام ہے۔کیفیت اظہار کی مرہون منت ہے۔احساس محرومی اور تشکر ارمان میں چشم تر  سے نہ گزرے تو آرزوئے انجان سے نہ لپٹے۔
کھلی کتاب میں بند سوال صفحات در صفحات آگے نہیں بڑھتے۔بعض اوقات ایک لفظ سے ہی مفہوم کی وضاحت کر دیتے ہیں۔اظہار کیفیت کا حال بیان کرتا ہے۔خاموشی پردہ پوشی کرتی ہے۔بتانے والے سنا کر گزر جاتے ہیں۔سننے والے سمجھ کر ٹھہر جاتے ہیں۔حالانکہ مسافتیں ہمسفر چاہتی ہیں نہ کہ ہمراز۔ایک ساتھ چلنے والے ، ایک ٹھہرنے والے۔نا سمجھی میں چلنا ،سمجھ کر ٹھہرنے سے بدرجہا بہتر ہےکہ آگے بڑھنا ہی زندگی کا مقصد ہے۔پھولوں کی رنگت اور مہک سے بے خود ہو کررکنے والے ایک نئی بہار کے انتظار تک جامد و ساکت ہو جاتے ہیں۔زندگی ایک ایسا تسلسل ہے جو مسلسل ہے مگر متصل نہیں۔ہجر ہے فکر ہے مگر قدر کے بغیر صرف جبر ہے۔جنوں ہے تو سکون ہے۔زندگی چار دیواری کے اندر پروان چڑھتی ہےتو محبت سوچ وخیال کے بند کواڑ سے باہر جھانکتی ہے۔بند کواڑ کھل جائے تو پرواز کر جاتی ہے وگرنہ وہیں دم توڑ دیتی ہے۔
ان گنت بال جسم کو احساس دلائے بنا بڑھتے رہتے ہیں۔جب ان میں سے کسی ایک کو الگ کرنے کی کوشش کی جائے تو جسم ایک بال کی جدائی کو پورے وجود میں محسوس کرتا ہے۔محبت ایسے ہی جسم و جاں پر نچھاور ہو کر پروان چڑھتی ہےکسی احساس کے بغیر، مگر الگ ہونے کی کوشش پر جسم قلب کے زیر عتاب آ جاتا ہے۔

تحریر! محمودالحق