Tuesday, September 15, 2015

عشقِ بیکراں

0 comments
اللہ کی محبت کا دم بھریں تو دو گھونٹ پانی حلق سے نیچے نہ اترے۔ قلب سنبھالے نہ سنبھلے۔سجدہ میں سر اترے تو عرش سے رحمتوں کی سوغات برسے۔ دروازے  وکھڑکی پہ متوالے دستک سے  محبت پانے کو محفل میں جھکتے عشقِ ہوا بن کر بے خود ہو جائیں۔دستکِ ہاتھ کا وہ جنون کبھی دستکِ ہوا  کی ہمسری نہیں کر سکا۔نظروں کے سامنے رہنے والوں میں وہ احساس اتنا کمزور تھا کہ دروازے سے نکلنے والی  ایک دھمک طوفانِ انتظار کی عکاس تھی۔ انہونی باتوں کے لئے انجانی کہانیاں نادانی کی تصویر دکھائی دیتی ہیں۔جس کو ہاتھ چھو سکیں اسی کا دم بھرتے ہیں۔
زندگی کے راستے جنوں کے طلبگار نہیں ہوتے۔بہتے پانی اور ہوا کے رخ چلنا آسان بھی ہوتا ہے اور فائدہ مند بھی۔ تقلید اور پیروی سب سے آسان راستہ ہوتا ہے جہاں راستوں کی نشاندہی پچھلی رو سے آگے والے کر چکے ہوتے ہیں۔صرف قدموں کی جگہ پر قدم رکھنے ہوتے ہیں جو ان کی حفاظت کے ضامن ہوتے ہیں۔ نئے راستوں کی تلاش و جستجو ان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔وہ آسان راستہ اختیار کرتے ہیں جس کی نشاندہی پہلے ان راستوں پر جانے والے کر چکے ہوتے ہیں۔پہاڑوں کے ایک طرف رہنے والے دوسری طرف بسنے والوں سے بے خبر رہتے ہیں مگر بلندیوں پر بسنے والے نیچے وادیوں میں ہر حرکت کرتی شے سے با خبر رہتے ہیں۔زمین پر رینگنے اور چلنے سے زندہ رہنے والوں سے عقل و شعور سے بسنے والے محترم اور معزز  ہو کر اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہیں۔ 
جنگلوں میں شکار ہونے والے لاکھوں چند شکار کرنے والوں کی دھاک سے کبھی شمال کی طرف بھاگتے ہیں تو کبھی جنوب کی طرف۔جو بچھڑ جاتے ہیں وہ خوف سے بے حال ہو جاتے ہیں۔ریوڑ میں واپس پہنچنے سے ان کی سانس میں   سانس واپس آتی ہے۔ چند ایک ٹولیوں میں رہنے والوں کے لئے ایسے بھولے بھٹکے مالِ غنیمت سے کم نہیں ہوتے۔ نہ ہی وہ خشکی پر محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی پانی میں۔ خطرہ چاروں طرف سے انہیں گھیرے رکھتا ہے۔ زمین سے پیدا ہونے والی  ہریالی جب خون بن کر رگوں میں دوڑنے لگتی ہے تو خون پینے والے پنجوں سے انگڑائیاں لے کر  دانتوں سے حملہ آور ہونے سے پہلے آنکھوں سے گردوپیش کے حالات سے موافقت پیدا کر لیتے ہیں۔ ریوڑ میں رہنے والے چاہے کروڑوں کی تعداد میں ہوں وہ تنکے تنکے سے بوند بوند خون بناتے ہیں۔اور ٹولیوں میں رہنے والے چند ایک ان کا خون چوس کر ہڈیوں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے کم طاقتور اپنا اپنا حصہ پانے کے لئے قریب ہی جھاڑیوں پہاڑیوں پر بچے کھچے پر نظریں گاڑیں براجمان ہوتے ہیں۔
حقیقت اور فریب میں وہی امتیاز ہے جو سیراب اور سراب میں ہے۔ بیرونی دنیا سے ملک میں ، شہر سے محلے میں،وہاں سے گھر میں داخل ہوں تو یہ جاننا اتنا مشکل نہیں ہوتا کہ وجود کی حدود کیا ہیں۔چلنے سے لے کر اونگھنے تک کھانے سے لے کر ہضم کرنے تک بچے سے بوڑھے تک اپنی حدود پہچانتے ہیں۔ اجسام انسانی میں سٹوریج کی گنجائش نہیں ہوتی۔ایک ہاتھ دو ایک ہاتھ لو کے فارمولہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ وجود کا ایک حصہ دوسرے کو قرض حسنہ عطا کرتا ہے۔ قانون کی لاٹھی سے ہانکے جانے والے رنگ و نسل، زبان و بیان  سے قدر مشترک نہ  رکھ کر بھی  وحدت میں پروئے رہتے ہیں۔ مگر قانون فطرت پر عمل پیرا رہنے والے ہم نسل و نسب ہونے کے باوجود کروڑوں کی بھیڑ میں چکاچوند روشنیوں میں رہنے والوں سے الگ اپنے جلتے دیئے سے حاصل روشنی کو زندگی کے منور ہونے کے لئے کافی سمجھتے ہیں۔ 
ایک ہی سائز رکھنے والے کروڑوں افراد رنگ و ڈیزائین میں الگ الگ پسند رکھتے ہیں مگر ماپ یعنی سائز انہیں اپنے گروپ سے الگ ہونے کی تحریک پیدا نہیں ہونے دیتے۔ ایک ملک کے باسی لکڑی کے گھروں میں رہنے سے قاصر ہیں تو کسی دوسرے ملک  کے لوگ اینٹوں سے بنے گھر میں رہائش اختیار کرنے سے۔ جو جہاں جس نظام اور قانون کی پاسداری کا پابند ہے وہ وہیں ویسی ہی زندگی گزارنے کا اختیار رکھتا ہے۔ جس میں تبدیلی اس کے اختیار سے باہر ہوتی ہے۔ جس سفر کے طے کرنے میں گھنٹے درکار ہوں وہ منٹوں میں نہیں ہو سکتا، جو کام منٹوں میں ہو سکتا ہو وہ سیکنڈز میں ممکن نہیں اور جو سوچ سیکنڈ تک محدود ہو وہ ملی سیکنڈز میں خیالات کو گرفت نہیں کر سکتی۔ چولہے پر ہانڈی چڑھانا  اورتندور پر روٹی لگانا،پانی میں اترنا اور پہاڑ پر چڑھنا ہر دو صورت فن کی محتاجی رکھتا ہے۔ لیکن زندگی کی چکی میں گہیوں پیسنے سے جو آٹا حاصل ہوتا ہے وہ بہت خالص اور مقوی ہوتا ہے۔اربوں روپوں کی لاگت سے بنائی گئی شوگر ملز میں تیار کی گئی چینی ،ایک شہد کی مکھی کی پنتالیس دن کی زندگی میں  چائے کے چمچ کےبارہویں حصہ کے برابر بنائے گئے شہد جیسا ذائقہ ،لذت اور شفاء نہیں رکھتی۔ شہد کی مکھیوں کی ایک کالونی کا بیس لاکھ پھولوں سے کشید کیے گئے رس سےبنایا گیاصرف ایک پاؤنڈ شہد دنیا کی تمام شوگر ملز سے زیادہ افادیت اور تاثیر رکھتا ہے۔
خیالات کی کشید کاری سے لفظوں کا شہد بنانے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور الفاظ کے سمندر میں ناؤ  بہانے والے شوگر ملز میں تیار کی جانی والی چینی کی مانند ہزاروں لاکھوں اپنے اپنے لیبل سے پہچان رکھتے ہیں ۔
مولانا جلال الدین بلخی رومی،اسداللہ خاں غالب اور علامہ  ڈاکٹرمحمد اقبال  جیسے لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
تحریر : محمودالحق          

Saturday, August 22, 2015

برقی پیغامات

1 comments
رات کے پچھلے پہر جب انسان دنیا و مافیا سے بے نیاز خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہوتا ہےتو بعض اوقات شدید پیاس کا احساس بند آنکھ کھول کر پانی تک رسائی کا راستہ دکھاتا ہے۔ ہاتھ لمبا کر کے گلاس اُٹھایا جاتا ہے  اور ہونٹوں سے لگا کر غٹا غت حلق سے نیچے اُتار لیا جاتا ہے۔ مشن مکمل ہونے پر آنکھیں پھر سے بند ہونے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔اسی طرح کے کئی مواقع سے ہمیں روز انہ صبح سے شام تک گزرنا ہوتا ہے۔ ہمارے لئے یہ معمولات زندگی ہوتے ہیں سائنس اس کی کئی توجیحات پیش کرتی ہے۔ ہمارے ایکشن اور رویوں میں برین کا موٹر فنکشن شامل ہوتا ہے۔

پانی کا سادہ گلاس اُٹھانے کے لئے کن پٹھوں کو  استعمال میں لایا جائے کافی نہیں ہوتا، بلکہ گلاس کو کہاں سے پکڑا جائے،  اُٹھانے کے لئےکتنی قوت بروئے کار لائی جائے، گلاس میں کتنا پانی ہے ،گلاس کس میٹیریل کا بنا ہوا ہے بلکہ اس کی جزئیات کے بارے میں بھی برین مکمل چھان پھٹک کرتا ہے۔ برین کاوہ حصہ  موٹر کورٹکس کہلاتا ہے۔جہاں سے سگنل اعضاء تک پہنچائے جاتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔


سائنس میرا موضوع نہیں اور نہ ہی آج کی تحریر برین کے کام کرنے کے طریقہ کار کو وضع کرنے کے لئے ہے۔ صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ ہم اپنے ظاہر کے ہر عمل سے واقف اور با خبر ہوتے ہیں مگر پس پردہ ہونے والےایکشن اور مشن سے مکمل طور پر بے خبر اور لا علم رہتے ہیں۔یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سکن کے نیچے کی دنیا ہمیں اپنے ہونے کے احساس سے  لا علم رکھتی ہے۔چمڑی سے باہر کی دنیا کا ہر فعل مکمل  دکھائی دیتا ہے ۔ بھاگتے ہوئے توازن کیسے قائم رکھا جاتا ہے ، ایک ایک اعضاء دوسرے اعضاء کو سہارا دے کر یکجہتی کا کمال مظاہرہ کرتے ہیں۔ اجسام دو برابر حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں جہاں دماغ کا بایاں حصہ جسم کے دائیں حصہ کو اور دماغ کا دائیاں حصہ جسم کے بائیں حصہ کو کنٹرول کرتا ہے۔ لیکن انسان پیدائش سے لے کر موت تک ان بھول بھلیوں سے لا تعلقی اختیار کئے رکھتا ہے کیونکہ مشن میں ایکشن بھی ہوتا ہے ری ایکشن بھی۔تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کام اپنے وقت مقررہ پر پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ 
اگر کہیں بہت تھوڑی  گڑ بڑ مشن کی تکمیل کے راستے میں حائل ہو تو جسم ہاسپٹل کے بستر پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں ڈاکٹر دوائی سے علاج معالجہ کرتے ہیں اور مزاج پرسی کے لئے آنے والے دعاؤں سےجو کہ مریض کی قوت مدافعت بڑھانے میں مددگار ہوتی ہے۔ مساجد میں با جماعت نماز کے بعد امام مساجد  سے بیماری سے شفا کے لئے خصوصی دعاؤں کے  لئےکہا جاتا ہے۔ مزاروں پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں ،غرباء میں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ صدقہ و خیرات کیا جاتا ہے۔ ہمت و حوصلہ سے  لڑنے والے  بیماریوں سےجلد چھٹکارہ پا لیتے ہیں۔ دعاؤں کو جو طاقت بنا لیتے ہیں وہ دواؤں سے فوری نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔جو صرف دواؤں ہی سے مسیحائی چاہتے ہیں ایک سے چھوٹ نہیں پاتے کہ دوسرے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 
دین و دنیا ہماری زندگیوں میں برین اور اجسام کی طرح ایکٹ کرتی ہے اور نتائج فراہم کرتی ہے۔مرئی اور غیر مرئی قوتیں بر سر پیکار ہوتی ہیں۔ظاہر یقین سے ربط رکھتا ہے باطن ایمان سے ، دنیا سبب سے منسلک ہے دین اعتبار سے۔پانچ وقت کی نمازیں رمضان کے روزے نماز عیدین اور قربانی کے فرائض کی ادائیگی کے تہوار و عادات اجسام کو چمڑی سے نیچے کے سفر پر گامزن کرتے ہیں۔ دنیا ایک جسم کی مانند دکھائی دیتی ہے جس کا برین دین اسلام ہے جو تا قیامت زندگیوں کی چھان پھٹک کرتا ہے۔تواز ن کو بگڑنے نہیں دیتا۔بدی کو پھیلنے سے روکتا ہے نیکی کو طاقت عطا کرتا ہے۔ ہزار جھوٹ کے مقابلے میں ایک سچ کو قوت دیتا ہے۔مغرور ، گھمنڈی اور متکبر امارت کے زعم میں عقل سے اندھے ہو جاتے ہیں۔جن کا وجود کے خاتمے کے ساتھ نام لیوا کوئی نہیں رہ جاتا۔ 
کلام مجید کا ایک ایک حرف اس کائنات کے چھپے رازوں کےبند قفل کی چابی ہے۔ جو دوا اور دعا دونوں کا کام کرتی ہے۔جو بیمار اجسام دواؤں کی تھوڑی مقدار سے ٹھیک ہو جائیں وہ دعاؤں کے طالب نہیں رہتے۔جنہوں نے دعاؤں سے شفاء پائی ہو وہ باآسانی جان جاتے ہیں کہ جس دنیا کے وہ باسی ہیں اس کا برین صرف قرآن ہے۔جو ہر فعل و عمل کی جزئیات تک رہنمائی فراہم کرتا ہےاور قوت مدافعت بڑھانے کے لئے  مددومددگار فراہم کرتا ہے۔ جو علم خوبصورتی میں لپٹا دانش یزداں کی آمیزش سے لمحاتِ پھیلاؤ  میں وقت کو سمیٹ لے وہ حسنِ زوالجلال کی نعمتوں کا شکر بجا لاتا ہے۔      

محمودالحق

Sunday, August 2, 2015

عمل کی رسی

0 comments
سنبھل سنبھل کر پاؤں رکھنے سے لے کر ذہنی یکسوئی تک توازن کا رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔کشتی بنانے والا اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ پانی میں کشتی کا توازن قائم رہ سکے اور سفر کرنےوالے محفوظ بھی رہیں اور پار بھی لگ جائیں۔یہی سوچ اسے سفر کرنے والوں سے ممتاز رکھتی ہے۔کیونکہ وہ اپنے فن میں یکتا ہوتا ہے۔ تند وتیز لہروں  سے نبردآزما ہونے کے لئے انتہائی باریک سوراخ بھی در خوراعتنا نہیں سمجھے جاتے۔کیونکہ ناخدا  کشتی سے باہر کی لہروں کے تھپیڑوں سے باآسانی نپٹ لیتے ہیں مگر فرش  کے سوراخ سے اُبلتے پانی انہیں جلد ساحل پر اُترنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔کیونکہ لنگرانداز ہونا  ڈوبنے سے بحر صورت بہتر ہوتا ہے۔کہنے والے کہہ چکے جان ہے تو جہان ہے۔ایسی جان جو ہمیشہ فن شناس کی قدردان رہتی ہے۔بے بہا دولت کا حصول بہترین کشتیوں اور تجربہ کار نا خداؤں کی خدمات کے حصول کا مقصد ٹھہر جاتا ہے۔جھیلوں دریاؤں آبشاروں پر سخت رسے پر چل کر پار کرنے کا زمانہ گزر چکا جب ایک وقت میں ایک انسان جان جوکھوں میں ڈال کر منزل مقصود تک رسائی پانے کی جدوجہد کرتا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب کاغذی نوٹ اور علامتی سکے بننے اور ڈھلنے کے عمل سے شناسا نہیں تھے۔ 
وقت کے دھارے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ تن آسانی کی عادت پروان چڑھتی گئی اور انفرادی محنت و مشقت  سے توازن قائم رکھنے کی روایت کمزور پڑتی گئی۔فاصلوں کو قریب کرنے کے لئے  اوروقت کو بچانے کے لئے ضرورتوں کو پھیلا دیا تو طرز طرز کی ایجادات نے جنم لینا شروع کر دیا۔جو یکبارگی کے فن کی محتاج تھی۔یہی وہ دور ہے جب انسان نے بے جان چیزوں کی کلوننگ کا آغاز کیا  اور ایک ہی خدو خال ،اوصاف و صفات جیسی ان گنت ہمشکل اشیاء کو انسانی زندگانی کی بنیادی ضروریات کا حصہ بنایا گیا۔قدرتی حسن و جمال میں اضافہ کرتے اشجار خود روئی کی بدولت جنگلات کی شان و شوکت تھے۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ شجرکاری کی مہم کی بدولت انقلابات زمانے کے رحم و کرم پر ہیں۔
رات کی تاریکیوں میں جگمگاتے ستاروں کی روشنی سونے والوں کو بیدا رہنے پر مجبور رکھتی تھی۔جنہیں اندھیروں میں بھی  راستے صاف دکھائی دیتے تھے۔راہزن پہاڑوں غاروں کو اپنا مسکن بناتے تھے۔جہاں روشنیوں کا گزر نہ ہوتا ہو۔قافلے رات کھلے میدانوں میں پڑاؤ ڈالا کرتے تھے  شمعیں روشن رکھتے تھےاور دن میں سفر  کرتے تھے۔ ستاروں کی روشنیوں نے آبادیوں کو روشنی سے وابستہ کر دیا۔یہاں تک کہ آدھی رات کا پورا چاند بھی اپنی دلکشی و حسن کی رعنائیوں سے چاہنے والوں  کی نظر التفات سے محروم ہونے لگا۔ رنگ و نور کی برسات جو آنکھوں کو خیرہ کئے دیتی تھی وہ انہیں دائرے میں روشنی کے ہالے بن کر رہ گئے۔توانائی کے استعمال سے حرارت نے دھوئیں کے بادل کے روپ اختیار کر لئےجو نظر اور نور کے درمیان چلمنِ رقیب ہو گئے۔حسن کے جلوے نظروں سے اوجھل کیا ہوئے عشق نے محبوب کے خدو خال ہی بھلا دیئے۔ 
محبت بدن کی حرارت نہیں جو قریب آنے پر تشنگی مٹا دے یہ تو روح کی بلاغت ہے جو قربت کے خیال سے رنگ و نور  اور وجدانِ عشق کے درمیان  حائل حرارت کو مٹا دے۔ عشق میں جلنے والے محبوب سے لاتعلق ہو جاتے ہیں ۔ محبوب تک رسائی چاہنے والے کشتیوں میں بیٹھ کر نہیں رسیوں پر چل کر  آگ کے دریا پار کرتے ہیں کیونکہ یہ در نہیں جو دستک سےکھل جائیں۔ فطرت کا حسن جن کے اندر پہلی نظر کی محبت ،کونپل کی طرح کھلنے اور سخت تپتی جلتی ریت پر پانی کی گرتی بوندوں کی طرح ٹھنڈک کے احساس جیسا جاگزیں ہو، تو ہر رشتہ جو جسم و جاں سے نام و نسب کی منسوبیت رکھتا ہو بے معنی ہو جاتا ہے۔یہ میان سے نکلی دو دھاری تلوار کی مانند ہے جس کے سامنے مضبوط ڈھال کے ساتھ ساتھ مضبوط گرفت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سر پیش کرنے والے عاجزی کی مثال نہیں ہو سکتے ۔عشق زور کا طالب رہتا ہے۔جو کشش نہیں چاہت سے پروان چڑھتا ہے۔
مجازی محبت ایسی روشنی ہے جو آگ سلگانے سے پیدا ہوتی ہے جس کا اختتام جلنے پر ہوتا ہے۔عشق حقیقی قلب میں محبوب کے قرب و وصال کی باہم کشمکش سے پیدا ہوتا ہے جو روح کو منورکرتا ہے۔عمل کی مضبوط رسی ارتکاز کی کھائیوں سے باآسانی گزار دیتی ہے۔علم  سےعالم اور جاہل کا فرق نہیں جانا جا سکتا۔لفظ سوچ  کی شناخت ہوتے ہیں اور مفہوم علم و فکر کے۔ علم سوچ کی کشتی کی بجائے عمل کی رسی پر توازن قائم رکھنے کا عادی ہو تو سہارے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ 
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے والے پار لگ جاتے ہیں۔جو توازن برقرار رکھنے کی متقاضی ہوتی ہے۔ جو قدموں کو لڑکھڑاہٹ سے باز رکھتی تو ذہن و سوچ کو قرآن و سنت پر یکسوئی پر آمادہ رکھتی ہے۔ بات علم کی ہو یا عمل کی عدم توازن سے گمراہی کی کھائیاں خوف میں مبتلا رکھتی ہیں۔ایجادات کی کلوننگ نے وجدان کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا  سکھا دیا ہے ۔ جہاں حرارت کی غیر موجودگی ٹھنڈک اور روشنی کی عدم دستیابی اندھیرے کی تعریف ہے۔وہیں اچھائی نہ ہونے کو برائی ہی مانا جائے گا۔زندگی کے مفہوم اندورنی و بیرونی فلسفہ حیات سے اخذ نہیں کئے جا سکتے۔زمین اور چاند کا کیا تعلق ہے ۔سورج کا زمین سے کیا رشتہ ہے ۔ اندھیرے روشنی سے روشن ہیں یا روشنی اندھیرے سے بندھی ہے ۔نئے پتے کھلنے کا موسم پت جھڑ کے موسم سے الگ ۔سورج کے ایک حصہ کے قریب پہنچ کر  ہمیشہ سردی دوسرے حصہ کے قریب  ہمیشہ گرمی کی شدت۔
سورۃ الانعام 
اور اسی نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس سے ہر چیز اگنے والی نکالی پھر ہم نے اس سے سبز کھیتی نکالی جس سے ہم ایک دوسرے پرچڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے شگوفوں میں سے پھل کے جھکے ہوئے گچھے اور انگور اور زیتون اور انار کے باغ آپس میں ملتے جلتے اور جدا جدا بھی ہر ایک درخت کے پھل کو دیکھو جب وہ پھل لاتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو ان چیزوں میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔۔۹۹       

محمودالحق   

Thursday, July 16, 2015

چار حروف سے چکا چوند روشنی

0 comments
جب دھوپ کی شدت بڑھتی ہے تو بادلوں کے برسنے کے انتظار میں آنکھیں بار بار آسمان کی طرف اُٹھتی ہیں۔ جب بادل برسنا شروع کریں اور پانی ٹخنوں سے اوپر بہنا شروع کر دے تو دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ جاتے ہیں۔جب سردی بدن کو کپکپانے لگے تو گرم لحاف ہو یا ہوا  بدن کو راحت پہنچاتے ہیں۔ سخت گرم مرطوب ہواچلنے لگے تو برف کا ایک ٹکڑا ہتھیلی پر رکھنے سے وجود میں ٹھنڈک کا احساس بھر جاتا ہے۔ موسمی تغیرات کے اثرات تو اجسام پر تقریبا ایک جیسے احساس ہی پیدا کرتے ہیں۔ برس ہا برس کی زندگی بار بار موسموں کے آنے جانے کے احساس سے لبریز ہوتی ہے۔اُکتاہٹ کا شکار اس لئے نہیں ہوتے کہ تبدیلی  کی اُمید واثق ہوتی ہے۔ کامل یقین ہوتا ہے کہ سدا اسی کیفیت میں زندگی نہیں گزرے گی۔شائد اجسام کی طاقت اتنی ہی برداشت رکھتی ہے۔
ہر گزرتا لمحہ نیا احساس دلاتا ہے۔ ہر پل اجسام کائنات میں گردش مدار میں ہر روز آگے بڑھتے ہیں۔ یہاں تک کہ 365.25 دن کے بعد پھر 1سے تبدیلی کے سفر پر چل پڑتے ہیں۔ انتہائی خاموشی اور گہرے سکوت کے ساتھ تواتر سے سفر میں رہتے ہیں۔جس میں نہ ہی پڑاؤ ہوتے ہیں اور نہ ہی منزل۔ بس ایک سفر ہے اور ہمسفر جو ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جنہیں منزل سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہاں صرف اِن اور آؤٹ ہے۔ جو خود گردش میں ہے وہ ٹھہرنے کا انتظام نہیں رکھتا۔ 
جو اجسام خواہشات کی بدولت منزل کے نشان ڈھونڈنے پر کمر بستہ ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے پر تولنے لگتے ہیں۔ شب و روز آگے بڑھنے کی بجائے رکنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ نظام کائنات کی طرح نظام حیات میں بھی بریک نہیں ہے۔ رکنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ نئے اجسام داخل ہو رہے ہوتے ہیں ، سفر مکمل کرنے والے باہر نکل رہے ہوتے ہیں۔منزل کی طرف بڑھنے والی ہر روح سفر کی تھکاوٹ سے چور بدن کو منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیتی ہے۔ روح زندہ رہنے کے لئے ایمان کی سیرابی کی متمنی ہوتی ہے۔ اجسام جنگلی جڑی بوٹیوں کی طرح پہاڑوں ، ریگستانوں میں بھی خود روئی کی طاقت سے کمزور جڑیں پکڑ لیتے ہیں۔ جو خشک زمین سے لپٹ کر ساکت و جامد موسمی تغیرات سے بے پرواہ رہتے ہیں۔
نئے کپڑوں میں سویا نہیں جاتا ، پرانے کفن میں دفنایا نہیں جاتا۔ کھانا چھوٹ جائے تو اجسام سوکھ جاتے ہیں ، سانس رک جائے تو پھول جاتے ہیں۔ جو آنکھ کے پردے سے باہر دیکھتے ہیں ۔ جو دیکھتے ہیں وہی سوچتے ہیں۔ وہی چاہتے ہیں وہی اپناتے ہیں۔ ہر روز نئے اجسام کی منظر کشی ہوتی ہے۔ مگر انداز ایک ہی رہتا ہے۔ نظروں سے چھپنے کے لئے جسم ڈھانپے جاتے ہیں۔ وہ انہی راستوں پر سفر کرتے ہیں جن پر جانے کی انہیں خواہش ہوتی ہے یا ضرورت۔ جن کی آنکھ اندر کے رُخ دیکھتی ہے، جو محسوس کرتے ہیں وہی سوچتے ہیں۔ وہی چاہتے ہیں وہی اپناتے ہیں۔ ہر پل نئے نظام کی جستجو و تلاش ہوتی ہے۔ جو اجسام کے اختیار و دسترس سے باہر ہوتی ہے۔ اجسام کی قید میں رہنے والے خواہش اور ضرورت سے آزادی پانے کی تگ ودو کرتے ہیں۔ روح کی قید میں رہنے والے  عشق جنوں میں تشنگی مٹانے کے لئے تگ ودو کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض بہت قریب آ کر پھر پلٹ جاتے ہیں۔کوتوال اجسام خواہشات کی بیڑیوں سے باندھ کر رکھتے ہیں۔ جہاں چھوٹ تو مل جاتی ہے چھٹی نہیں۔ 
جب دکھاوا نہیں تو پہناوا کیسا۔ جب محنت نہیں تو ترقی کیسی۔ جب شوق نہیں تو پڑھنا کیسا۔ جب خواہش نہیں  تو ضرورت کیسی۔ جب چاہت نہیں تو ارمان کیسے۔ جب جستجو نہیں تو تسلی کیسی۔ جب علم نہیں تو دعوی کیسا۔ جب محبت نہیں تو ندامت کیسی۔ جب حسن نہیں تو جلوہ کیسا۔
زندگی عہد نہیں جو تین لفظوں سے جڑے تو تین سے ہی ٹوٹے۔ چار دن کی زندگی چار حروف  کے مجموعےسے ہی مکمل ہو سکتی ہے۔ اسے چار چاند تبھی لگیں گے جب وہ چار حروف ہماری روح کو چکا چوند روشنی سے منور کر دیں۔
جب چار حروف ملتے ہیں تو وہ بنتے ہیں اللہ ، محمدﷺ اور قرآن۔

محمودالحق 

Thursday, May 21, 2015

غُبارے

0 comments

  کیش رجسٹر پر بل ادا کرنے کے بعد کیشئیرنے مسکرا کر مجھے الوداع کہا تاکہ میں شاپنگ کے لئے یہاں کا رخ بار بار کر وں اور میں اس ارادے کے ساتھ سامان سے بھری ٹرالی کو گھسیٹتا کار تک پہنچاکہ آئندہ یہیں سے ضروریات زندگی کی اشیا خریدوں گا۔میرے چہرے پر ایک دبی سی مسکراہٹ کافی دیر تک رہی۔یہ اس خوبصورت نوجوان کیشئیر لڑکی کےالوداعی دلکش اور نرالے انداز کی وجہ سے تھی یا شائد شاپنگ مال جیسے بڑے سٹور کے  انتہائی ترتیب اور جازب نظر ماحول کی وجہ سے ۔ لیکن ذہن ایک جھٹکے سے ناں ناں کرتا وہاں سے نکل آیا۔اچانک خوبصورت رنگوں کے حسین امتزاج کا ہیولا آنکھوں میں رقص کرنے لگا۔ جیسے ہی وہ منظر یاد آنے لگا ،سکون اور احساس کا ایک چشمہ جسم کے انگ انگ میں بہنے لگا۔کیشئیر لڑکی جب تک سامان پر لگے پرائس بار کوڈ کو سکین کرتی رہی۔ رجسٹر کے ساتھ بندھے ہوا میں تیرتے گیس بھرے غبارےمیری نظروں کو اپنی طرف جمائے رکھنے پر مجبور کرتے رہے۔بچے ، بچی کی پیدائش پر مبارکباد،سالگرہ پر مبارکباد،شادی کی مبارکباد،گریجوایشن کی مبارکباد،اور  بستر علالت سے اٹھنے کی دعا۔ایک ہی ساعت میں میں نے ان غباروں سے سالوں کی مسافت ایک پل میں طے کر لی۔زندگی کے سفر میں ہر پڑاؤ پرپیش آنے والے خوشگوار لمحات تسلسل سے ایک کے بعد ایک منظر یاد داشت کی سکرین پرنمودار ہونے لگے۔ہوا میں اڑتے  غبارےمجھے اپنی زندگی کی کہانی سنانے لگے تھے۔ شائد ہماری خوشیوں سے وابستہ لوگ اور تعلق ان غباروں کی مانند زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔جو خوشیوں کے لمحات کے گزرنے کے چند لمحوں بعد ہی  غباروں کی طرح چھت کے ایک کونے میں دھکیل دئیے جاتے ہیں۔پھر آہستہ آہستہ نیچے آتے آتے پاؤں کی ٹھوکروں پہ آ جاتے ہیں۔ان غباروں کے مقدر میں صرف ایک بار کی ایک خوشی ہی لکھی ہوتی ہے۔وہ دوسری بار استعمال کے قابل نہیں رہتے۔
گھروں میں خوشیوں کی مبارکباد دینے آنے والے اور جانے والےجو احساس چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ دوسری بار اپنے ہونے کا احساس نہیں دلا پاتے۔ہر نئے موقع کے لئے نیا احساس غبارے کی طرح پُھلایا جاتا ہے۔ لینے والے اسے محسوس کی چھت پر چپکا لیتے ہیں جو رفتہ رفتہ یادداشت کی رسی پر ڈھیلا ہوتے ہوتے اپنا وجود کھونا شروع کر دیتاہے۔
آج کے دور کا انسان پتھر کے دور کے انسان سے بہت آگے جا چکا ہے اور اس کا یہ سفر بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔جس کی انتہا کے متعلق جاننا یا مزید کچھ کہنا قبل از وقت کی طرح ہے۔گلوب سے گلوبل ویلج اور پھر گلوبل سرکل تک یہ سفر چٹکیوں میں طے ہو چکا ہے۔وہ دن شائد دور نہیں جب یونیورسل ویلج اور سرکل کی باتیں زبان زد عام ہوں۔ مگر اس وقت بھی شائدایک کسٹمر خوبصورت کیشئیر کے سامنےکھڑا ہوا میں جھومتے گیسی غباروں کو ایک دبی سی مسکراہٹ سے زندگی میں بیتے خوشیوں کے دنوں کو یاد کر رہا ہو گا۔
گھروں تک سامان لے جانے کا طریقہ شائد بدل چکا ہو گا۔عین ممکن ہے معیار زندگی بدل جانے سے ضروریات زندگی ویسی نہ رہیں۔مگر غبارے ہمیشہ کی طرح چھت کے ایک کونے میں اداس لٹکتے رہیں گے۔وہ اپنے انجام سے کبھی بے خبر نہیں رہتے۔چہکتے آتے ہیں مرجھاتے مر جاتے ہیں۔
یہ آج کے زمانے کی وہ خوشی کہانی ہےجو جس گھر میں جنم لیتی ہے ۔ کچھ عرصہ بعد وہیں دم توڑ دیتی ہے۔جیسے کہ لفظوں کو خوشخطی میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ  کاغذوں میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ 
شائد کاغذ پہ لکھے الفاظ اور  احساس کے غبارے ایک ہی قسمت رکھتے ہیں۔چند لمحوں کے بعد اپنے وجود کے مٹنے کے احساس میں یادداشت کی رسی پر جھولنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب تک کہ وہ بھولنا شروع نہ ہو جائیں۔

محمودالحق 

Friday, May 15, 2015

دائرے

2 comments
زندگی بھر ہم سینکڑوں دائرے اپنے ارد گرد بناتے ہیں۔کہیں رشتوں کے، کہیں تعلقات کےاور کہیں روٹی روزی کے چکر۔ان میں حسبِ ضرورت داخل ہوتے ہیں۔جب چاہا باہر نکل آتے ہیں۔اتنے مختصر اور قلیل مدتی دائرے ایک دوسرے میں ایسے پیوست ہوتے ہیں کہ دیکھنے میں ایک جگہ پر ہی جامد نظر آتے ہیں۔مگر جب انہیں الگ الگ کیا جائےتو پیاز کی پرتوں کی مانند اترتے چلے جاتے ہیں۔دیکھنے میں وہ دائرے ایک دوسرے میں ضم نظر آتے ہیں مگر گردش اپنے اپنے مدار میں کرتے ہیں۔
ہم جس کے قریب ہوتے ہیں وہی ہمیں بڑا نظر آتا ہے۔کنالوں پر محیط گھرسامنے کھڑی سو منزلہ عمارت کی آخری منزل سے دیکھنے پرایک نقطہ میں بدل جاتا ہے۔ آسمان پر چمکتے جگمگاتے ستارے آنکھوں کےقریب جلتے دئیے سے بھی معمولی دکھائی دیتے ہیں۔ وجود سے باہر کائنات کا آخری ستارہ اور وجود کے اندر سیل کا آخری جز ہمیں کم مائیگی کا احساس نہیں دلا پاتا۔کیونکہ اسے علم و معلومات کا شاخسانہ قرار دے دیا جاتا ہے۔اس خودکار نظام کو جانچنے پرکھنے کی جستجو علم کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔لاکھوں تجربات پر مبنی کتب انبار انسان کی سوچ کو دنگ کرنے پر اکتفا کرتی ہے۔
دنیا میں آنکھ کھولنے والے پہلے انسان سے لیکر آنکھ بند کرنے والے آخری انسان تک وجود کے اندر اور باہر کے دائرے ایسے ہی رقصاں رہیں گے۔مگر احساسات و محسوسات کے دائرے انسانی کردار و افکار سے بنتے اور مٹتے رہیں گے۔سینکڑوں ہزاروں تجربات کے بعد یہ دائرے ہر انسان کے اندر خود بخود بنتے ہیں ۔ کچھ چھوٹے کچھ بہت بڑے۔جن میں داخل ہونا یا باہر نکلنا جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں ہوتا۔یہ وہ حقیقت ہے جس کی عکاسی افسانوں ،  ناولوں اور ڈراموں تک ہی محدود رہتی ہے۔ شائد اسی لئے انسان اپنے خیال سے ڈرامہ نگار ہوتا ہے اور اس میں افسانوی رنگ بھر دیتا ہے۔
وجود رویوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا کیونکہ سالہاسال قربت میں رہ کر بھی محبت کے مفہوم سے نا بلد رہتا ہے۔زندگی صرف مانگنے یا پانے کا نام نہیں ہے۔ بانٹنا بھی نشہ کے خمار میں مبتلا کر دیتا ہے۔رویوں کی  کانچ سے آئینے بنتے ہیں۔ جو ہمیں  اپنے آپ میں معزز، معتبراور سچ کا عَلم تھماتے ہیں۔زندگی کے خارزار میدان میں مرتے مر جاتے ہیں مگر عَلم ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے۔ آئینے ٹوٹ جائیں تو عکس کرچیوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ پھر ایک نئے آئینہ کے سامنے جڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
افکار و خیالات کی بھٹی میں رویوں کو پکایا جاتا ہے۔ پھر انہیں شخصیت کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ٹوٹنے جڑنے اور پگھلنے ڈھلنے کے عمل سے بار بار شخصیت کو ادھیڑا اور  بُنا جاتا ہے۔کوئل کوے کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے۔مگر  پھر بھی کوئل کے بچے کوے کی طرح کاں کاں نہیں کرتے بلکہ اپنی دلکش اور خوبصورت آواز میں کو کو کرتے ہیں۔ مگر انسان نیک فطرت پر جنم لینے کے باوجود برائی کی کاں کاں اختیار کر لیتا ہے۔

محمودالحق   

Thursday, April 9, 2015

بند کلیاں کھلتے گلاب

0 comments
گلشن میں جب بہار آئے ۔آسمان سے چھم چھم  بادل برستا جائے ۔ہوائے گردو غبار تمازت آفتاب سے سمٹتی جائے۔آنکھوں میں بنتے موتی آنسو بن چھلکتے جائیں۔لفظ اپنی ہی زباں میں اجنبیت کا رنگ پائیں تو کہکشاں سے روشنیاں کھلی نگاہوں سے نہ نظریں چار کر پائیں۔
کون کس سے مخاطب ہے ؟لفظ  کس سے آشنا ہیں؟قلم تو ندی ہے جس کے راستوں پر تحریر کی روانی میں خیالات کا پانی بہتا ہے۔چند پلوں پر کھڑے تکتے رہتے ہیں۔چند کشتیوں میں یہاں سے وہاں اتر جاتے ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ہیں کہ یہاں ڈوبے تو وہاں نکلے وہاں ڈوبے تو یہاں نکلے۔
آبشاریں ندی نالے دریا و سمندر ایک قطرہ سے ہی موج و طلاطم برپا کرتے ہیں اور قلم سیاہی ایک نقطہ سے ہی علم و دانش کے گراں قدر کتب انبار میں ڈھل جاتے ہیں۔حسن عشق کے انتظار میں ڈھلنے سے پہلے سہما رہتا ہے۔ جوانی طاقت کے نشہ میں بڑھاپے کے خوف کے انتظار میں ڈری رہتی ہے۔علم بڑائی کے نشہ میں ناموری کی خواہش پر اٹکا رہتا ہے۔غربت امارت پانے کی تگ و دو میں بہکتی رہتی ہے۔امارت تکبر کے مینار پر جھکنے سے لرزاں رہتی ہے۔انسان قول و فعل کے تضادات کی گھتیاں سلجھاتے راہ حق و باطل کی پگڈنڈیوں پر پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے۔ کسی کو نظریں اپنا بنا لیتی ہیں۔کوئی نظر میں گر جاتا ہے۔کوئی سیدھا دل میں اُتر جاتا ہے تو کوئی وہاں انگار بھر دیتا ہے۔کوئی بندھن کے دھاگوں میں جکڑا ہے تو کوئی بندش کے رشتوں میں۔دیکھنے والے محرم ہو جاتے ہیں چھپنے والے بیگانے۔چیختی سسکیوں پر رنجیدہ ہو جاتے ہیں تو چنگھاڑتی آوازوں سے خوفزدہ۔دولت کے دیوتا پجاریوں کی تسکین انا سے اکڑ کر رہتے ہیں۔جو غلافوں میں لپٹے  چڑھاوے پا کر من کے مندر کی گھنٹیاں بجاتے ہیں۔جہاں رعونت کے پہاڑوں کے نیچے سرفروشی کے کفن میں لپٹی اُمنگیں دفن ملتی ہیں۔
یہ پیاروں کی دنیا ہے جہاں صرف چاہت اقرار کافی نہیں۔لفظ کہنے سے نہیں مفہوم واضح ہونا شرط ہے۔سو صفحات پر دس ہزار س چ لکھنے سے کوئی سچ لکھنے والا نہیں کہلا سکتا۔

محمودالحق 

حسنِ تخلیق

0 comments

وقت کی سوئیاں ساکت ہو جائیں تو کیا زندگی رک جائے گی،سانسیں تھم جائیں گی، خواب بکھر جائیں گے،خواہشیں مٹ جائیں گی،آرزوئیں دم توڑ دیں گی یا رشتے ناطے ٹوٹ جائیں گے۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں بدلے گا۔آنکھیں اندھیرا چھا جانے پرکالی چادر اوڑھ لیتی ہیں مگر ہاتھ ٹٹول ٹٹول کر اپنے لئے راستہ تلاش کر لیتے ہیں۔ چاہے پاؤں کتنی ہی ٹھوکروں سے سنبھل پائیں۔
زندگی ہاتھ پاؤں کی مانند لگے بندھے اختیار تک محدود نہیں ہوتی۔یہ تو تخیل پرواز رکھتی ہے۔پرندوں کی طرح فضاؤں میں اُڑان بھر کر ایک منزل سے کہیں دور دوسری منزل تک سفر طے کر لیتی ہے۔آسمان پر چمکتے تارے جو صرف گنتی میں رہتے تھے وہ اپنی ساخت ہیت اور گردش مدار کا اتہ پتہ دینے لگے ہیں۔
عقلِ انسان نے آنکھ کو دو انتہاؤں کے وہ مناظر دکھا دئیے کہ عقل پر ماتم کرتے کرتے تخلیق یزداں تک جا پہنچے۔ خوردبین نے انہیں امیبا اور ہبل نے گلیکسیوں کی جگمگاتی دنیا کے در وا کر دیئے۔ قانون قدرت کے طلسماتی کرشماتی کائنات کے بھید کھول دیئے۔ جس کی وسعتوں میں عقل انسان دھنستی چلی جا رہی ہے۔خاص طور پر وہ نشانیاں جو عقل والوں کے لئے ہیں۔انسان عجائبات کی دنیا کا باسی ہے۔ جس میں عجوبے سجا سجا کر رکھے جاتے ہیں۔نباتات کی دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بیج تناور درخت نہیں بنتا۔ وقت کی دھوپ چھاؤں انہیں بانجھ بنا دیتی ہے تو کبھی زمین کو بنجر۔آنکھوں سے پڑھے گئے الفاظ اور کانوں سے سنے گئے فقرےیاد داشت کے الگ الگ فولڈرز میں محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔مگر بعض اوقات کچھ  کہی ان کہی کہانیاں  خود سے جنم لے لیتی ہیں۔
دعوؤں سے درماندگی دور ہوتی ہے۔خامیوں سے درستگی کی جانب سفر ہوتا ہے۔مگر درحقیقت حقیقت جاننے کی جستجو  میں بعض اوقات سچ دور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ملنا اور پانا تب بیکار ہوتا ہے جب اسے سنبھالا نہ جا سکے۔
بچپن معصومیت سے جانا جاتا ہے، جوانی حسن سے تو بڑھاپا لاغرپن سے۔قید و بند کو صعوبت جانا جاتا ہے،آزادی کو نعمت۔اگر زمین چاند سورج آزادی پالیں تو تصویر کا دوسرا رخ کیا ہو گا۔آنکھ ایک بار جس منظر کو ایک بار موہ لے لبھا لے۔ پھر بند آنکھ میں وہی منظر خواب سہانے بن کر واویلا مچاتے ہیں۔
حرکت کرنے والی ہر شے جاندار و بے جان آگے بڑھنے پر ہی رفتار بڑھا پاتی ہے۔پیچھے ہٹنا  ایک حد تک ہی ممکن ہے کہ جس سے صحیح سمت اختیار کی جا سکے۔بہت زیادہ تنہا رہنے والے اور بہت زیادہ بھیڑ میں پھنسے لوگ ہی خود فراموشی کے سوالات کی بوچھاڑ کا شکار رہتے ہیں۔ کبھی کبھار ٹھنڈے میٹھے چشموں سے چند قطرے سیرابی سے تسکین پا لیتے ہیں۔چشموں سے پھوٹتا میٹھا پانی کئی آبادیوں سے گزر کر مینڈکوں کی آفزائش گاہ اور مگر مچھوں کی کمین گاہ بن جاتا ہے۔پانی کے ریلے تو گزر جاتے ہیں مگر مٹھاس پانے والےچشموں تک رسائی کی کوشش کرتے رہتے ہیں کیونکہ بہتے پانی ہر بستی میں اپنا پتہ چھوڑ جاتے ہیں۔
منہ سے نکلے اور قلم سے لکھے الفاظ اس حقیقت کے آئینہ دار ہوتے ہیں جن سے ان کے میٹھے یا کڑوے پن کے آغاز سفر کی روئیداد بیان ہوتی ہے۔فلسفہ حیات میں طےشدہ ترجیحات پر ڈگری عطا ہوتی ہے جو کبھی نمبروں تو کبھی اے بی سی ڈی سے تولی جاتی ہے۔جو تعبیری لحاظ سے خاکی ہے ابدی اور دائمی نہیں۔
پہناوا ہیرے جواہرات سے مزین ہے تو حسن اداؤں سے۔ یہ سب ایسے ہی ہے جیسے کہ بھوک آنکھ بھر کر دیکھنے سے مٹتی ہو۔جلوے اور دکھاوے کا اختیار تو قدرت کا ہے جو اپنی بڑائی اور طاقت کی سند رکھتا ہے۔ہر تخلیق کا اپنا حسن ہے جو اسے اپنی ذات میں ممتاز رکھتا ہے۔ بھاؤ تاؤ تو دوکاندار اور خریدار کا پتہ دیتے ہیں، بڑائی اور طاقت کا نہیں۔مہنگا سودا بیچ کر دوکاندار ممتاز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی مہنگی شے پہن کر خریدار۔

محمودالحق