Sunday, December 5, 2021

Sunday, October 31, 2021

ادھوری عشق کہانی

0 comments
دل تو ہمیشہ چاہا کہ وہ بات کروں جو دل پہ اثر رکھے ، دل سے نکلے لفظ روح تک پہنچیں۔ آج صرف اپنے لئے لکھ رہا ہوں  کیونکہ جو سفر اکیلے طے کیا ہو اس کی داستان سناتے سناتے ایک دہائی سے اوپر ہو گیا   اور مسافر کی عمر پانچ دہائیوں سے اوپر۔سولہ سائز کے کالر میں تیرہ سائز پہن کر بدن و گردن پر ایک مضبوط گرفت کے احساس سے نکلنے میں ایک لمحہ درکار ہوتا ہے۔ کہنے سننے کا وقت گزر جائے تو  تلاش رک جاتی ہے ۔ جاننے کی جستجو نہ رہے تو منزل رک جاتی ہے۔
جنہیں زندگی سے عشق  ہوتا ہے وہ آسائش و آرام کی گنتی کرتے ہیں ۔ آزمائشوں کے ذکر  صبر و تحمل سے بیگانہ ہوتے ہیں۔  چھوٹی گاڑیوں میں اپناسر چھت سے لگےتو پچھلی سواری کے گھٹنے کے لئے جگہ تنگ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ  آگے پھیلتے ہیں اور پیچھے سکڑتے ہیں۔ زندگی اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کرتی، گنجائش پیدا کر دیتی ہے۔ انسان جب پھیلتا ہے تو دوسروں کو سکڑنے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ چاہ کر بھی سیکھنے والے نہیں ملتے، صرف وہ ملتے ہیں جو صرف پانے کی چاہت رکھتے ہیں اور وہ  بھی اتنا کہ چند لمحات میں وہ اپنا اثر زائل کر دے ۔ زندگی جتنی مختصر ہے خواہشات کی زندگی بھی اتنی ہی محدود۔
گردش خون کی نالیاں جلد پر ابھر جاتی ہیں ،سخت زمین پر سونے سے بھی دل تک خون پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں کیونکہ قلب صرف اپنا خیال نہیں  رکھتا بلکہ پورے وجود کو فعال رکھنے کے لئے  متحرک رہتا ہے۔ جس کا کہا مانا جاتا ہے وہ دو تہائی مشقت سے چور ہو جاتا ہے اور  ایک تہائی وقت زندگی بھر استعمال کرتا ہے۔ پھر بھی تکبر کا مادہ پیدا کرنے سے باز نہیں رہتا۔  انسان اس کے زیر اثر اپنے زندگی بھر کے تجربات کی روشنی میں اندھیروں کی گہرائیوں میں جا اترتا ہے۔
فن پارہ ہو یا بت عاشق نامراد اپنے تخیل سے کینوس پر رنگ بکھیر دیتا ہے  لیکن اس میں احساس کی خوشبو سے محروم رکھتا ہے۔ خالق اپنی مخلوق کو تخلیق کے حسن سے احساس کی دعوت دیتا ہے۔لیکن انسان چولہے پر جلے  اور مشین پر ڈھلے لباس سے اپنی بقائے حیات کی جنگ لڑتا ہے۔ وہیں رہ کر دستارِ وفا کی منزلت و کبریائی چاہتا ہے۔
بوڑھے کی لاٹھی مضبوط ہو تو بڑھاپے سنبھل جاتے ہیں۔ کمر پر بوجھ بڑھ بھی جائے تو کمزور رگوں سے قلب خون کھینچ لیتا ہے ۔ بڑھاپے سپردِ لحد ہونے پر لاٹھی ٹوٹ نہیں جاتی بلکہ زمین پر ڈال دینے سے ہر مشکل اور کڑی آزمائش میں رکنے، ٹوٹنے، جھکنے اور گرنے سے بچائے رکھتی ہے۔ اپنے اپنے سفر کی کہانی ہے ، اپنی اپنی منزل کی راہ ہے، اپنے اپنے عمل کی جزاہے، جسے جو جاننا ہے وہ خود کو کریدے ، جسے جو پانا ہے وہ خود سے چاہے۔ جب سفر ایک نہیں تو نتیجہ ایک کیسے ہو گا۔ اپنی اپنی راہ ہے اپنا اپنا سفر۔ سوچ کے دھارے میں نفع و نقصان تولے جاتے ہیں۔ قلب کے استعارے خالق و مخلوق کے درمیان جزا  و رضا سے جڑے ہیں۔ راہوں سے راہیں جدا ہیں، سوچ سے سوچ بیگانہ ہے، خواہش  کے انتخاب سے آزمائش کی برداشت  حاصل اور لا حاصل کی  جنگ ِافکار ہے۔
پانے کے لئے بھاگ دوڑ ہے جینے کے لئے عیش و آرام ہے۔ کمپیوٹر کی یاد داشت کروڑوں اربوں انسانوں سے بڑھ کر ہے لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر اس میں احساس  نہیں ہے۔ ایک سبق ہے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کا جب دوسرے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کامیابی و کامرانی کے لئے ایک نسل دوسری نسل سے بہتر پلاننگ کر کے آگے بڑھ جاتی ہے۔ کامیابی و ترقی کا یہ سفر زمین کے لپیٹ دئیے جانے تک جاری رہے گا۔ اور انسان کفن میں لپٹے خالی ہاتھوں کو سپردِ لحد کرتے رہیں گے کیونکہ زندگی کی اصل حقیقت یہی ہے۔
تخلیق اپنے راستے خود اختیار کرتی ہے مخلوق سے اجازت کی طالب نہیں ہوتی۔ خشکی، تری اور ہوا میں رہنے والے اپنی جنس کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ رہتے ہیں ملتے ہیں پالتے ہیں پھر رخت سفر باندھ کر آنے والوں کو یہی موقع فراہم کرتے ہیں۔  انسان اپنے ہاں اولاد پیدا کرنے ، لڑکا یا لڑکی کی صورت بنانے کی اہلیت و اختیار سے محروم ہے۔ پھر دعوی ترقی و عروج کا کیا رہ جاتا ہے۔  پیچھے بچ جانے والے کس نئے نظام کی اصلاح و فلاح کے لئے کمربستہ رہتے ہیں؟
نیا نظام کچھ نہیں ، صرف ایک نظام ہے خالق کا تخلیق کردہ ، جس کی حقانیت قرآن سے ثابت ہے، جو سچ ہے، حقیقتِ عالم ہےجو وجود کائنات کے دائرہ اختیار پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔ یقین کے ساتھ جینے میں  صبر و تحمل اور سیر و شکر کی جو رضا ہے  وہ  مٹی سے پیدا ہوئی ہر شے کو خون میں ڈھالنے جیسی ہے۔ کیونکہ زمین میں خون نہیں بنتا اور بدن میں خوشبو نہیں پیدا ہوتی۔ جس ہستی کے بدن کے بہتے پسینے میں خوشبو و مہک کا جلوہ تھا وہ خالقِ کائنات ربِ زوالجلال مالکِ دو جہان نے اپنے محبوب رسول مقبول محمد مصطفی ؑ رحمتہ للعالین کی صورت میں اس زمین پر پھیلایا۔ جن کی بدولت آج ہم اللہ سبحان و تعالی کے فرمان کی  حکم عدولی اور نافرمانی کے باوجود  اس امید کے ساتھ زندہ رہتے ہیں کہ ہم امت محمد صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہیں جو ہماری بخشش کے لیے ایک زریعہ ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
ترجمہ:
"آسمانوں اور زمین  اور ان کے درمیان سلطنت اللہ کی ہے"۔ سورۃ المائدہ ۔آیت 18
"اور اس سے بہتر کس کا قول جو بلائے اللہ کی طرف اور اچھے عمل کرے اور وہ کہے بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں"۔ سورۃ فصلت ۔آیت 33
 
تحریر: محمودالحق

اَللّٰہُ لَہ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ لَہُ الاَسمَآءُالحُسنٰی

0 comments

ترجمہ :

"وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بہترین نام اسی کے ہیں"

 گھروں میں آرٹ کے نمونوں سے سجاوٹ کی جاتی ہے اور میں اللہ سبحان و تعالی کے ناموں کو خوبصورت رنگوں کے امتزاج سےگرافکس میں ڈھال کر اللہ کے ننانوے ناموں سے گھر کو برکت بھری روشنی سے منور کرنا چاہتا تھا جسے میں نے بالآخر  کامیابی سے مکمل کر لیا جو کہ 33 کے میجک سکوئر میں تین حصوں پر مشتمل ہیں۔ جس میں ہر ایک تصویر میں  ہر رو، ہر کالم اور ہر رنگ میں اللہ کے تینتیس نام موجود ہیں اور مزید یہ کہ  تینوں تصاویر ایک ترتیب سے ساتھ لگانے پرہر رو میں اور ہررنگ کے ایک ہی پیٹرن میں ننانوے ٩٩ نام موجود ہیں۔ جب کہ پہلی رو میں دائیں رُخ سے بائیں رُخ  اللہ سبحان و تعالی کے نناوے نام اپنی اصل ترتیب کے ساتھ موجود ہیں۔







 

Friday, April 30, 2021

ذات کا بلیک ہول

0 comments

 روح روحانیت کے زیر اثر بدنی ضرورتوں سے بے خبری کی کیفیت میں ایک سسٹم کے تابع ہوتی چلی جاتی ہے۔ جسے سمجھنا انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار کر دیتا ہے۔ انسان حالات کی گتھیاں سلجھانے کی فکر میں اپنی ذات کے اندر گھٹا گھوپ اندھیروں میں روشنی کی تلاش میں ایسی گہرائیوں میں جا اترتا ہے جہاں سے نکلنے میں زندگی بھر کی جمع توانائی صرف ہو جاتی ہے لیکن دلدل سےنکلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ٹوٹے وجود میں ایک ایسا بلیک ہول تشکیل پا جاتا ہے جو ادھوری خواہشات ، ناکام محبت، احساس محرومی اور وقت سے پہلے ہاتھوں سے پھسلتے رشتوں کے درد سے اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ بڑی سے بڑی خوشی اور کامیابی حاصل ہونے کے بعد چند لمحوں میں وجود میں بلیک ہول کے اندر غرق ہو جاتی ہے۔ انسان چند لمحوں کی تسکین کے بعد پھر اسی درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ جان ہی نہیں پاتا کہ زندگی بھر کی خواہشیں اور کامیابیاں لمحوں میں اپنا اثر کیوں کھو دیتی ہیں۔ کیونکہ بلیک ہول کے بننے کا عمل سوچ، غور و فکر کی ارتقائی صورت انتہائی پوشیدہ اور سست رو ہوتی ہے۔ یہ ایک سفر کی داستان ہے جہاں منزل نہیں ہوتی راستہ ہوتا ہے ،مسافر ہوتے ہیں اورایک قطب ستارہ ہوتا ہے جو اس راستے کی نشاندہی کرنے کے لئے اسی سمت میں موجود ہوتا ہے۔ انسان حالات کی ستم ظریفی کی شکایات سے خوشیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے لیکن وہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے جن راستوں پر چلنے کو منزل سمجھ بیٹھا ہے وہ تو ان راستوں کا مسافر ہی نہیں ہوتا۔اللہ سبحان و تعالی کے نزدیک وہ خاص ہوتے ہیں اور  جو اللہ کی محبت کا رس رکھنے والےانسانوں تک پہنچ کر محبت سے محبت کا غلاف عشق بناتے ہیں۔جنہوں نے اللہ کےعشق کی چوٹ نہ سہی ہو ، آزمائشوں کی چکی میں پسنے کے عمل سے نہ گزرے ہوں، ان کے لئے زندگی تندرستی اور بیماری سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کامیابی عقل و سمجھ کی معراج مانتے ہیں وہ اور ناکامی قسمت و تقدیر کا کھیل۔ لیکن یہ سفر ہے ،روح کا سفر ،روحانیت کا سفر اور انسان کے مقصد حیات کا سفر جس کے لئے اللہ سبحان و تعالی بار بار قرآن مجید میں فرماتے کہ تم غور کیوں نہیں کرتے۔ ہواہیں بادلوں کو کیسے لے کر وہاں پہنچتی ہیں جہاں مردہ بنجر زمین کو بارش سے زندہ کیا جاتا ہے اور زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ صدیوں کی کہانی نہیں جوآثارقدیمہ سے بیان ہو، یہ حال کی کہانی ہے جو حال دل سے بیان ہوتی ہے۔ جوسر اور بلینڈر کی کہانی جیسی، ایک میں پھل سے جوس نکلتا ہے اور ایک میں ملک شیک بنتا ہے۔ دو اور دو چار ہوتے ہیں گناہوں سے دوزخ اور نیکیوں سے جنت واجب ہوتی ہے لیکن الگ الگ اپنے اپنے دائرے میں رخت سفر باندھ کر چلنے والوں کے لئے۔ جن کے اندر بلیک ہول موجود نہیں وہ اپنے سفر پرگامزن رہتے ہیں اور جو ہر خوشی اور کامیابی پانے کے لمحوں بعد درد کی ٹیس محسوس کریں ان کے سفر روشنیوں کی طرف بڑھنے کےسفر ہیں کیونکہ وجود کا بلیک ہول صرف انہیں ختم کرتا ہے جو اس وجود کے لئے اہم نہیں ہوتے اور پاک پروردگار کی طرف جانےوالے راستوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بلانے کا سفر صدیوں سے جاری و ساری ہے لیکن سننے ماننے اور چلنے میں میَں، تکبر اورضد آڑے آ جاتی ہے۔ بلانے والے بلاتے رہیں گے کیونکہ وہ گونگے نہیں، سننے والے نہیں آتے کیونکہ وہ بہرے ہیں۔  ذات کابلیک ہول اللہ سبحان و تعالی کے حضور رات رات بھر گڑگڑانے کے بعد کہیں روشنیوں سے منور ہوتا ہے۔ 

اوکھے پینڈے لمیاں نیں راہواں عشق دیاں

حق اللہ ہو اللہ ہو اللہ اللہ  ہو اللہ 

تحریر: محمودالحق

Friday, April 23, 2021

سراب

0 comments

دنیا ایک ایسی آماجگاہ ہے جہاں غرض و مفاد کی خاطر نفرتیں پالی جاتی ہیں اور محبتیں دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔جینا آسان ہونا چاہئیے تھا جسےمشکل بنا دیا جاتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں ہم زندہ ہیں جہاںمشینوں سے سانس لیا جاتا ہے اور مسکرانے کے لئے انسان ڈھونڈنےپڑتے ہیں۔کبھی کبھار احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی بستی میں رہائش پزیر ہیں جہاں صرف دروازے ہیں داخل ہونے کے لئے ، کوئی کھڑکی نہیں باہر جھانکنے کے لئے۔ سیارچوں کی طرح انسان اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں جہاں پانا ہی زندگی کا مقصد ہے، اپنی خوشی سے بڑھکر کچھ نہیں۔ دوسروں کی تکلیف اور دکھ عارضی ہیں۔ جن کے بارے میں سوچنا اور ذکر کرنا بے فائدہ ہے۔ آگے بڑھنے کے راستے میں جو رکاوٹیں آئیں انہیں ہٹایا نہیں جاتا روندا جاتا ہے۔ ہر حال میں حالت جنگ میں رہتے ہیں لفظوں کے گولوں سے رشتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔زندگی کوجیتے نہیں ہیں صرف گزارتے ہیں۔رشتوں سے نبھا نہیں کرتے صرف تعلق بناتے ہیں جنہیں جب چاہیں جہاں چاہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں،پھر سے نئے تعلق بنانے کے لئے جن میں غمگساری نہیں ہوتی، درد کےاحساس کارشتہ نہیں ہوتا۔ بس ایک ایسی راہگزر پر چلتے رہنے کا سفر جوریگستان کے نشیب و فراز میں دور سے پیاسوں کے لئے سراب دکھائی دینے کی مانند ہوتی ہے۔ 


محمودالحق

Saturday, February 27, 2021

قوس و قزح

0 comments

قوس و قزح

سورج کی شعائیں جب آسمان پر موجود پانی کے قطروں سے گزرتی ہیں تو منعکس ہو کر ست رنگی رنگوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ ایسا ہونا تبھی ممکن ہوتا ہے اگر بادل برس کر جا چکے ہوں یا سورج کی شعاؤں کو اند ر آنے کا راستہ دے چکے ہوں۔ ریاضی دانوں نے  Mathematical derivationسے اس کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔  جس میں روشنی ،پانی کے قطروں میں ایک مخصوص angle  سے گزر کر شعاؤں کے منعکس  ہونے کے عمل سے  دھنک کے رنگ تشکیل پاتے ہیں۔

نظام کائنات کی یہی خوبی ہے کہ اس میں داخل ہونے والی روشنی اور خارج ہونے والی انرجی اپنا توازن برقرار رکھتی ہے۔ آکسیجن اگر جانداروں کی زندگی کی علامت ہے تو کاربن ڈائی اکسائیڈ درختوں کی خوراک۔ توازن بگڑ جائے تو او ۔زون میں سوراخ پیدا ہو جانے سے گرمی کی شدت میں اضافہ اور گلیشئیرز کے پگھلنے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے امکانات  روشن دکھائی دیتے ہیں۔

یہ باتیں چار انچ کے سیل فون کی سکرین پر قوس و قزح لکھنے سے  ہی حاصل ہو جاتے ہیں۔  تو اس کی تحقیق و جستجو سے لا حاصل بحث سے اصلاح معاشرہ یا فلاح آدمیت  کے لئے کچھ نیا جاننے کا عمل رک بھی جائے تو  کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ہماری زندگیوں میں لفظ مقرر مقرر کے نعرہ مستانہء  سے ایسے آشنا ہو جاتے ہیں کہ رنگوں کی برسات اپنی تجوریوں اور قلعوں میں محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی کو سمجھنے کے لئے جتنا دنیا کی ہستی میں بے حال ہوتے رہیں گے، حالات کی رسی میں جکڑے رہنے کے امکانات بھی بڑھتے رہیں گے۔انسان دنیا میں پیدا ہونے کے لئے اپنی مرضی و اختیار کا مالک نہیں ہوتا۔ نہ ہی زبان و بیان پر عبور عطائے رب العزت کی بدولت ہوتی ہے۔ زمانہ کا عجب دستور ہے کہ   ترقی کی رفتار سے حدود وقیود کی حدیں بھی پار کرنے کی ایسی لت کا شکار ہونے میں فکر حیات سے بیگانہ ہو چلے تھے، تب ہی ایک وائرس نے انسانی زندگیوں کو ایسے  جکڑ بند لگایا کہ ہاتھ منہ لپیٹ کر کھانسنے سے ڈر میں مبتلا ہو گئے۔ انسانی بستیوں میں  داخل ہونے والا ایک وائرس دنیا کی تاریخ سے نکل نہیں پاتا۔ صدیوں بعد بھی اس سے لڑنے اور شکست دینے کے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

روزگار میں کمی کا رونا دھونا زیادہ سننے میں رہتا ہے۔اللہ سبحان تعالی اپنے بندوں کو فلاح کی طرف بلاتا ہے پانچ وقت روزانہ۔ نماز کے ساتھ صبر کی تلقین کرتا ہے۔ مدد کرتا ہے اپنی رحمت اور فضل سے۔ لیکن شکر نظر آنا انتہائی دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں راستہ تلاش کرنے جیسا ہوتا ہے۔ اللہ سبحان تعالی  سےمحبت و عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ آزمائش آنے پر امتحان کے پر خطر راستے پر چلنے سے   صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ

ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۖ فِيْهِ ۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ             

"یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں، پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے"۔

جس میں پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے  تو گناہگاروں کے قلب پر قفل لگ جاتے ہیں۔ قفل بند قلب ہماری زندگیوں کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ انہیں اپنے راہنما بناتے ہیں۔ انہی کے نقش قدم پر چلنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ قرآن ہماری زندگیوں کے لئے راہ ہدایت ہے۔ حکم رب العزت مالک دوجہاں  خالق کل کائنات عظیم المرتبت  ارض وسماں  نے بار بار کہا کہ میں ہوں اور میں ہی ہوں جو فریاد سننے والا ہے ، رزق دینے والا ہے، عزت دینے والا ہے، گناہوں کو معاف کرنے والا ہے، زندگی کی حفاظت کرنے والا ہے، موت دینے والا ہے۔ کسی بشر کے  لئےممکن نہیں کہ وہ اللہ سبحان تعالی کے حکم کے بغیر مر جائے۔ 

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۴۲

"اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے"۔

انسان بنیادی طور پر خسارے میں رہنے والا ہے۔ اپنے لئے انہیں منزل راہ بناتا ہے جن کی منزل دنیا  کی زندگی  میں ہر آسائش و آرام  کےمقصود تک ہو۔  لیکن اللہ سبحان تعالی  سورۃ المائدہ میں فرماتے ہیں!

يَـهْدِىْ بِهِ اللّـٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٝ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَيَـهْدِيْـهِـمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ (16)

"اللہ سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اسے جو اس کی رضا کا تابع ہو، اور ایسے لوگوں کو اپنے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور انہیں سیدھی راہ پر چلاتا ہے"۔

اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کا اختیار صرف پاک پروردگار کو ہے جو اس کی رضا کے طالب ہوتے ہیں اور زندگیاں ان کی حکم اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہیں۔  اس آیت میں ہمارے لئے روشنی کی راہیں تلاش کرنے کا راستہ بتایا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے دیکھنے والی آنکھ چاہیئے  اور وہ آنکھ اس روشنی کی طالب ہو اور رضا کی تابع ہو۔

قوس و قزح کو انسانی آنکھ صدیوں سے دیکھتی آ رہی ہے اور صدیاں دیکھتی رہے گی۔ اگر روشنی پانی کو آسمان پر اپنا عکس دیتی ہے تو انسان زمین پر رہ کر مٹی کی محبت سے روشنی کی طلب رکھنے کی  جستجوئے تلاش میں مٹی کے کھلونوں  سے کھیلنا اور اس کے کاروبار سے منافع حاصل کرنے کی روش شتر بے مہار  کا شکار رہتا ہے۔

رات سونے سے پہلے قرآنی آیات کا ورد اور آیت الکرسی کے پڑھنے سے اپنی خواب آور زندگی کو اللہ شان زوالجلال کی رحمتوں کے سائے میں دیا جائے تو دنیا اور آخرت میں اپنے لئے بخشش کی راہیں کھولنے کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن دن کی روشنی میں گرد و غبار بن کر شعاؤں سے مڑ بھیڑ کر کے  قوس و قزح کے رنگ نہیں پائے جا سکتے۔ قوس و قزح کے رنگ پانے کے لئے بادل بن کر ایک سفر طے کر کے  زمین کی پیاس بجھا کر بچے کچھے قطروں سے رنگ جمائے جاتے ہیں۔ جس کے لئے رضا کی طلب اور تابع ہونا ضروری ہوتا ہے۔ قلب پر ہاتھ رکھ کر قرآن کھول کر جس آیت پر بھی انگلی رکھیں گے وہ اللہ سبحان تعالی کی حاکمیت اور بادشاہت کے اعلان میں اپنے قاری کو سجدہ ریزی کا حکم دیتی محسوس ہو گی۔ اللہ سبحان تعالی کا فرمان قرآن ہے جو ضابطہ حیات ہے جس میں دائرہ کار سے دائرہ اختیار تک ہر  موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

قرآن کھلے گا تو کائنات بھی کھلے گی کیونکہ اللہ سبحان تعالی سورۃ الطلاق میں فرماتے ہیں !

اَللَّـهُ الَّـذِىْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَّّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَـهُنَّۖ يَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَـهُنَّ لِتَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌۙ وَّاَنَّ اللّـٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمًا (12)

اللہ ہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمینیں بھی اتنی ہی، ان میں حکم نازل ہوا کرتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ نے ہر چیز کو علم سے احاطہ کر رکھا ہے۔

 

محمودالحق

Saturday, February 13, 2021

روح کی آبیاری

0 comments

زندگی جسم اور روح کا مرکب ہے۔ زمین پر ان دونوں کی موجودگی اسباب سے منسلک ہے ۔ جو کہ ہوا پانی روشنی سے وابستہ ہےجس کے لئے صبح اٹھتے ہیں اور رات گئے سوتے ہیں۔ روح جب تک جسم سے تشنگی لیتی ہے تو زمین سے جڑی رہتی ہے۔ جب وہ اسے قید محسوس کرے تو پھر وہ پرواز کرتی ہے۔ اس کی پرواز ہے کیا۔ سوچنے سمجھنے کے لئے وہ علم کے روائتی فلسفہ کی بجائےحقیقت شناسی کے راستے پر گامزن ہو جاتی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین سورج کے گرد 365.25 دنوں میں چکر مکمل کرتی ہے۔ چارموسم ہیں، ہر موسم کا الگ الگ پھل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آم گرمیوں میں صرف تیار نہیں ہوتا بلکہ سورج کے ایک مخصوص حصے میں پہنچنے پر پکتا ہے اور یہی حال دوسرے پھلوں اور چاول گندم کا بھی ہے۔ صرف سوچنے کا انداز تبدیل ہوتا ہےکیونکہ ہم اس جگہ موجود تو نہیں ہوتے ۔ لیکن ہم احساس سے جڑ جاتے ہیں۔ جب روح فطرت سے جڑ نے لگتی ہے تو زمین سےوابستگی کمزور پڑنے لگتی ہے۔ معجزات اور کرامات اسی وابستگی سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ اگر آسان انداز میں زمین پر رہتے ہوئےتجربہ کرنا چاہئیں تو بھی ممکن ہے۔ کسی بھی پھل کی دوکان سے سیب، آم، کیلا،امرود، ناشپاتی، انگور وغیرہ پانچ دس کلو  خرید کرگھر میں چھری کانٹے سے پلیٹ میں کاٹ کر کھائیں۔ پھر ان پھلوں کو باغات میں توڑ کر کھائیں۔ درخت سے توڑ کر کھایا جانے والاایک سیب دوکان سے ٹوکری بھرے سیب سے مختلف کیوں محسوس ہوتا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ  باغات میں لٹکے پھل ہمیں فطرت کے قریب لے کر جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ روح کی تشنگی فطرت سے مٹتی ہے۔ اور فطرت ایک سسٹم کا نام ہے۔ اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ تم دیکھتے نہیں کہ بادل کیسے ہوائیں لے کرجاتی ہیں اور مردہ زمین کو زندگی عطاکرتی ہیں۔ وہی بارش کا پانی ایک مخصوص درجہ حرارت پر برف باری میں بدل جاتا ہے۔ لیکن سورج کے ایک مخصوص حصہ میں زمین کے پہنچنے پر ایسا ہونا ممکن ہوتا ہے۔ روح جب دنیاوی بدنی ضرورتوں سے بے پرواہ ہو جائے، نظام حیات سے نظام کائنات سے منسلک ہو جائے تو خالق سے ایک رشتے میں جڑ جاتی ہے۔ اسی ناطے سے اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ اس کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتاہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اورقدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔

دنیا بھر میں ایک ہی دن پیدا ہونے والے ہر رنگ و نسل کے بچوں کو ایک ہی چھت تلے اکٹھا کریں تو ان سب میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ ان کے مسکرانے میں چہرے پر معصومیت ایک جیسی ہو گی۔جوں جوں بڑے ہوتے ہیں شعور، تربیت اور راہنمائی سےپروان چڑھتا ہے۔ اس وقت جو ہم سب ایک ہی رنگ و نسل سے موجود ہیں ہمارے مزاج، رویے ، افکار وسوچ ایک جیسے نہیں رہے۔ تو اس میں روح کا کیاعمل دخل ہے ۔ ہماری سوچ میں نظریات اور فلسفہء حیات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے کیونکہ معاشرت ہمیں گائیڈ کرتی ہے۔

مذہب ہمیں نفس کے متعلق آگاہی دیتا ہے کہ اس سے جنگ کرو کیونکہ یہ ہمارے سسٹم میں بلٹ ان نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے ہم ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اپنے ارد گرد سے جس کے نتیجے میں ہمارے اندر وائرس بھی داخل ہو جاتے ہیں۔ دین بنیادی طور پر ہمارےوجود میں اینٹی وائرس کا کردار ادا کرتا ہے جو کسی بھی غیر متعلقہ خیال اور فکر  کواندر گھس کر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا۔

روح کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنے نظام کو سمجھنا پڑے گا جو ہمیں درست سمت میں سفر کرنے کا پابند بناتا ہے۔چھوٹی سی مثال ہے کہ ہمارے گھروں اور کھیتوں میں سبزی پھل پھول اگائے جاتے ہیں اور کھیت ، کیاریوں میں گھاس پھونس تلف کی جاتی ہے جڑی بوٹیاں ختم کی جاتی ہیں۔ خالص روح پانے کے لئے سب سے پہلے اپنے وجود کو  خیال کی ان جنگلی  جڑی بوٹیوں سے محفوظ کرنا پڑے گا۔خیالات کی پنیری بار بار اگنے کی اہلیت رکھتی ہے کیونکہ اس کی جڑیں بہت اوپر یعنی سوچ تک محدود ہوتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی جڑ کرتنآور ہو جاتی ہیں۔ 


تحریر: محمودالحق

Sunday, February 7, 2021

رانجھا رانجھا کر دی میں آپے رانجھا ہوئی

0 comments

قرآن میرا مرشد اور قرآن ہی میری رہنمائی ۔ قرآن ہی میرا راستہ  اور قرآن ہی  بخشش کا ذریعہ۔ قرآن ہی میرا مقصد  اور قرآن ہی میرا مطلوب۔قرآن ہی میری نظر  اور قرآن ہی میری عنایت۔ قرآن ہی میری دنیا  اور قرآن ہی میری آخرت۔قرآن ہی میری رضا اور قرآن ہی میری جزا۔

جب آنکھیں بند کر کے سر جھکا دیا مالک کے حکم پر تو زندگی سے کیا اب بھیک مانگیں۔دنیا کے پاس دینے کے لئے  کیا،کتابوں سے اُٹھتا ہوا دُھواں جو خواہشات سے جلتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے دل کی طرف رجوع کر کے اللہ کو پکاریں تودل ذکر سے منور ہو۔  جنہوں نے عمل سے رضا پائی ہو، وہ رجوع سے طالب دعائے مرشد رہتے ہیں۔تلوار کمر پہ باندھنے سے جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ جنگ کے بھی دستور و روایت اور کچھ اصول و ضوابط ہیں۔حیرانگی کی انتہا ہے جب فجر سے عشاء تک پانچ بار دنیا کے کونے کونے سے حی الصلاح حی الفلاح پکارا جاتا ہے۔ تو آٹے میں نمک کے برابر مسلمان اپنی صفیں درست رکھتے ہیں اورقیام کرتے ہیں۔معاشرے میں پائے جانے والے عیبوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ  اللہ سے مدد کے طلبگار ہیں۔ اللہ سبحان و تعالی سیدھے راستہ پر چلنے کے لئے انعام و اکرام کی خوش خبری دیتا ہے۔ لیکن ایک شرط ہے کہ اپنے عمل  سےاس انعام کے لئے طالبِ سفر ہوں۔

اپنا راستہ سیدھا رکھنے کی بجائے  اپنی خواہشیں پوری کرتے ہیں۔ بے ایمانی اور دھوکہ سے رزق کے حصول کی کوشش میں اگر کوئی اللہ کے حکم سے روگردانی کرے۔ اسے ہنس کر بڑا سمارٹ ہے کہہ کر سزا و جزا سے بری الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے۔قرآن میں کافر اور منافقین  سے مسلمانوں کو  خود  کومحفوظ رکھنے اور ایمان پر قائم رہنے پر زور دیا گیا ہے۔ نیند کی گہری آغوش میں جانے  اور بیدار ہونے کے درمیان بستر پر پڑے رہنے کے ہم مسلمان ہیں۔ کیونکہ جاگنے کے بعد صرف انسان رہ جاتے ہیں۔عدل و انصاف کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مساوی حقوق کا علمبردار نہیں ہو سکتا۔ جس معاشرے میں طاقتور مافیا کہلائے ، پیسہ بٹورنا پیسہ کمانے سے زیادہ معتبر ہو جائے تو  وہاں انسان عمل سے نہیں اپنے علم سے جانے جاتے ہیں،  کردار سے نہیں گفتار سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں میں پیسہ بنانے والے قابل تقلید مانے جاتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں کروڑوں کو دھتکار کر اللہ کے حضور شرمندگی سے بچنے کے لئے ایک مثال بننے  کی بجائے بیوقوف و احمق ٹھہرائے جاتے ہیں۔ 

جب قرآن ہاتھوں میں کھلنے کی بجائے صرف چوم کر غلاف میں محفوظ رکھنے اور ثواب کی نیت مقصود ہو تو انسان کی تربیت کے عمل سے پہلو تہی کا جواز  فراہم کرنے کا سبب ہو جاتا ہے۔قرآن کو پاک غلاف میں لپیٹ کر رکھنا جنت میں اعلی مقام کے حصول کی گارنٹی نہیں دیتا۔ جنت کے دروازہ سے گزرنے کے لئے عمل کی کنجی سے  تالہ کو کھولنا پڑتا ہے اور اس کے لئے ایمان کو فرمان کے ترازو میں گناہوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔قرآن کی ابتدائی آیت میں اللہ فرماتے ہیں :

  ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ  فِيْهِ  هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ  ( یہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں، پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے) 

جنہوں نے گناہوں کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا ،  ان کے لئے تو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ  اپنے کئے کے جواب دہ ہوں گے قیامت کے دن۔قرآن ہدایت ہے جو پرہیز گار ہیں اور اپنے عمل و کردار سے صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں۔ وہ جو حکم رب ذوالجلال  پر اپنا سر خم تسلیم کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں  اے اللہ ہم حاضر ہیں۔ اللہ انہیں اپنی رحمت کے سائے میں گھیر لیتا ہے۔ پھر ان کی زبان سے نکلے حرفِ دعا کو قبولیت کے شرف سے سرفراز کر دیتا ہے۔ انسان گھاٹے کا سودا  کر کے نقصان اٹھانے والا ہے۔ اللہ کی رحمت  کو کسی ترازو میں تولا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ کسی گنتی میں آتی ہے۔ اللہ سبحان و تعالی کی رحمتیں بخشش اور عنایات کے سمندر میں طلب کی کشتی پر سوار رہتی ہیں۔ اللہ سے مانگنے کا طریقہ اس کے حکم پر سر جھکانے سے سیکھا جا سکتا ہے۔ 

جب قرآن پر ہمارا یقین کامل ایسا ہو کہ اللہ ہے اور صرف اللہ ہی ہے ۔ زرہ کائنات سے لے کر سات آسمانوں تک ہر شے اسی کی تخلیق ہے اور اسی کی ثناء بیان کرتی ہے تو  یہ یقین کامل اس راستے پہ انسان کو ڈال دیتا ہے جہاں کن فیکون کے دائرے میں انسان داخل ہو جاتا ہے۔ اللہ کی رحمت میں پناہ پانے کے لئے عمل کارگر ہونا ضروری ہے اور عمل کی راست روی کے لئے قرآن کو ہدایت اور سیدھا راستہ دکھانے والا ماننا  ضروری ہے اور اس پر  علمدرآمد ایسے کرنا ضروری ہے کہ اللہ  ہر عمل سے ایسے آگاہ  ہو کہ وہ اپنے بندے کی نیت کو شرف قبولیت  بخشنے کے لئے فرشتوں کے پروں کا سایہ کر دے۔ 

اللہ سبحان  وتعالی اپنی تلاش میں آنے والوں کو ایسے خوش آمدید کہتا ہے کہ  عقل دنگ ہی نہیں رہ جاتی بلکہ غفور و رحیم کی اپنے بندے پر رحمت نزول کی کہکشاہوں کی برسات کا منظر دلکشا ہوتا ہے۔   اوکلوہاما امریکہ کے ایک چھوٹے سے شہر کویٹا میں ایک عیسائی نوجوان جب اللہ سبحان و تعالی کی سچی کتاب کی تلاش میں میرے  پاس آیا   تو  اس کی تلاش کے اس سفر میں میرا ایمان پہلے سے زیادہ مستحکم ہوا اور اللہ کے نام نے جس طرح اس گورے کو اپنی طرف رجوع کیا کسی طلسماتی کہانی   سے کم نہیں۔

 (سچے کلام کی شدتِ چاہ میں ایک منظر جو میری آنکھوں نے قلبِ کیفیت میں دیکھا دانستہ بیان کرنے سے رہ گیا تھا، نور ایمان کی گورے نوجوان کی قلبی کیفیت کو مزید جاننے کی خواہش پر اس تحریر میں قلمبند کر رہا ہوں) 

اللہ کی سچی ذات  اور اس کے سچے کلام کی تلاش میں مارا مارا پھرنے والا  عیسائی گورا  نوجوان پادریوں سے چرچ میں سوال کرتا کہ  خدا کا  سچا کلام کون سا ہے کیونکہ بقول اس کے بائبل بارہ کی تعداد میں ہیں اور ان میں سے اصل کون سی ہے۔ پادری اس نوجوان کو اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھے۔ قرآن کے بارے میں جب اس نے  مجھ سےجانا کہ وہ اپنی اصل حالت میں آج تک محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ سبحان و تعالی نے خود اٹھا رکھی ہے۔ اس کے لئے اتنا معلوم ہو جانا کافی تھی۔  مجھے اس کی بے چینی اور بیتابی پر بہت ملال ہوا کہ جو اللہ کے اصل پیغام تک پہنچنا چاہتا ہے اور اسے کہیں سے جواب نہیں مل رہا۔ وہ بار بار اپنے سینے پر ہاتھ رکھتا تو مجھے اس کے قلب کے اندر بے چین روح کی تڑپ کا اندازہ ہوا۔میں نے دل ہی دل میں اپنے پاک پروردگار کو پکارا اور اللہ ۔۔۔اللہ۔۔۔ اللہ کہتے ہوئے اس کے دل پر ہاتھ رکھ دیا۔ بس یہ ہی وہ گھڑی تھی جس کا اسے انتظار تھا۔ وہ تڑپ اٹھا دونوں بازو میرے سامنے پھیلا کر کہنے لگا کہ میرے بدن میں خون کے ساتھ  رگوں میں کچھ دوڑ رہا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے اور سکون محسوس ہو رہا ہے۔ وہ ایسا نشہ تھا کہ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اسے اللہ کی پہچان مل رہی تھی اور مجھے ایمان کی طاقت۔ ایک ہی وقت اللہ سبحان و تعالی  اپنے دو بندوں کو جو دو طرح سے اللہ سبحان و تعالی تک پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف عمل تھے، اپنی کرامت سے  مختار کل ہونے کے اپنے مقام رب العالمین کا مفہوم سمجھا رہا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب  ایک انسان اللہ کی ایک کتاب بائبل سے قرآن تک آنے کے سفر سے گزر رہا تھا اور دوسرا مسلمان سے ایمان کی طاقت سے نئے سفر پر روانہ ہوا۔ اس دن کے بعد زمین پر بسنے والے زورآور اور طاقتور نہایت حقیر اور خاک کے زرے محسوس ہونے لگے۔   اللہ کا کلام صرف ہدایت نہیں زندگیوں پر نافذ فرمان  ہے جس کو مضبوطی سے پکڑ لینے سے انسان دنیاوی خواہشات و آرزوؤں  کی گرفت سے آزادی پا لیتا ہے۔  اللہ سبحان و تعالی جب یہ جان لیتا ہے کہ میرا بندہ جھکنے کے لئے صرف میرا در چاہتا ہے اور عمل کے لئے میری ہدایت تو وہ ہدایت  دے دیتا ہے اور عمل کی توفیق بھی دیتا ہے۔ اللہ جنہیں محبوب بنا لیتا ہے انہیں مشعل راہ بنا دیتا ہے۔ 

تحریر: محمودالحق


Tuesday, December 15, 2020

تصویر کائنات میں رنگ ( کائنات کے سر بستہ راز )

0 comments
(یہ تحریر الفاظ سے زیادہ رنگوں کی زبان میں ہے جو کہ نیچے تصاویر کی شکل میں اپنا مدعا بیان کریں گی)
کائنات کی خوبصورتی میں  رنگوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ رنگوں کی ترتیب و تشکیل نے بنی آدم کے ارد گرد  ایک ایسا ہالہ تشکیل دے رکھا ہے کہ انسان ان کی جاذبیت سے سحرزدہ دکھائی دیتا ہے۔لباس کی تراش خراش میں رنگوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ڈریسنگ ٹیبل سے لے کر ڈرائنگ روم تک اور گھر کی کیاری سے باغات تک رنگوں کے خوبصورت امتزاج نے انسانوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے۔خوبصورت چیزیں اسی وقت خوبصورت دکھائی دیتی ہیں جب ان میں ترتیب کا خیال رکھا گیا ہو۔رنگ اسی وقت اپنا حسن ظاہر کرتے ہیں جب ان میں توازن موجود ہو۔ اعداد کے تواز ن کے ساتھ ساتھ حروف کے توازن میں رنگ کس خوبصورتی سے اپنا حسن ظاہر کرتے ہیں۔انہیں  یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔اعداد اور حروف کو اپنی سادہ شکل میں دیکھنے سے کوئی خاص تاثر پیدا نہیں ہو گا لیکن جیسے ہی ان میں رنگ بھر دئیے جائیں تو کہکشائیں ابھر کر نظروں میں سما جاتی ہیں۔
کائنات کے سربستہ راز کے نام سے جس سلسلے کو اس تحریر کے زریعے پیش کرنے جا رہا ہوں وہ تسلسل ہے میری اس جستجو و تلاش کا ، جہاں ایک کچھوے کی پشت پر بنے ڈاٹس کی منفرد ترتیب و تشکیل نے اپنے سحر میں ایسے گرفتار کیا کہ بڑے سے بڑے اعداد اور  حروف میرے ذہن کے کسی گمشدہ حصے سے باہر نکلنے کے لئے مچلتے رہتے ہیں۔
اعداد کے لئے یہاں تفصیل دینا ناممکن ہے اس لئے اس کے دو لنک نیچے پیش کر رہا ہوں جو پی ڈی ایف میں سکرپڈ میں اپلوڈ ہیں۔یہ 100x100  اور  300x300  کے  Math Magic  ہیں۔  میرے کمپیوٹر میں 1000x1000  کا جو  Math Magicہے اسے  پھر کبھی شئیر کروں گا۔درج بالا دونوں کو دیکھنے کے بعد اسے سمجھنا اتنا مشکل نہیں رہے گا۔ جس میں اعداد  ایک (1) تا دس لاکھ (1000000)  ایسے استعمال ہوئے ہیں کہ دس لاکھ خانوں میں ایک بھی نمبر دو بار استعمال نہیں ہوا۔ میرا یقین نہیں بلکہ دعوی ہے دنیا میں آج تک اتنا  بڑا مکمل اور جامع اعداد کا کھیل کبھی پیش نہیں کیا گیا  اور یہ صرف اور صرف اللہ سبحان تعالی کی خاص عنایت اور کرم نوازی کی وجہ سے ہے۔ اسے آئندہ کسی وقت کے لئے چھوڑ رکھتا ہوں۔
ہر بار کچھ نیا کرنے کی لگن مجھے نئے راستہ پر ڈال دیتی ہے جہاں پھر کچھ نیا تشکیل پا جاتا ہے۔جیسا کہ درج ذیل میں پیش کی گئی تصاویر میں میں نے انگلش حروف سے Magic Square  تشکیل دئیے ہیں۔جس کی ہر Row  میں حروف   A  سے  Z  تک موجود ہیں لیکن مختلف ترتیب میں۔ اسی طرح ہر  Column  میں حروف  A  سے  Z  تک موجود ہیں  جو چھبیس کی تعداد میں ہیں ۔  اس کے علاوہ Diagonal  میں بھی  A سے  Z  تک حروف  دو رنگوں میں دکھائے گئے ہیں۔
پہلی تصویر میں حروف کس طرح مکمل جامعیت اختیار کئے ہوئے ہیں انہیں دوسری تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔انہی حروف کو رنگوں سے ایسے مزین کیا گیا ہے کہ ایک ہی رنگ میں A  سے Z تک تمام حروف موجود ہیں۔ رنگوں کا یہ حسین امتزاج حروف کی جامع ترتیب کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہر رنگ میں پوری اے بی سی موجود ہے۔
صرف اتنا نہیں کہ ان میں صرف حروف کی ترتیب و تشکیل بہت شاندار اور جاندار ہے بلکہ اس میں  PUNJAB لکھا ہوا جگہ جگہ ملے گا اور اس کے علاوہ ROSE  اور SKY  کے الفاظ میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باجود تمام حروف کا توازن اور ترتیب بہت جامع ہے۔
 
 

نیچے دی گئی تصاویر میں   حروف   ایک مختلف روپ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔اس میں بھی انہی حروف کو رنگوں سے ایسے مزین کیا گیا ہے کہ ایک ہی رنگ میں A  سے Z تک تمام حروف موجود ہیں۔یہاں بھی  رنگوں کا یہ حسین امتزاج حروف کی جامع ترتیب کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہر رنگ میں مکمل  ABCموجود ہے۔صرف اتنا نہیں کہ ان میں صرف حروف کی ترتیب و تشکیل بہت شاندار اور جاندار ہے بلکہ اس میں  LAHORE لکھا ہوا جگہ جگہ ملے گا اور اس کے علاوہ لاہور کی نسبت سے فضا میں موجود FOG  کے ساتھ ساتھ SKY اور COW کے الفاظ جگہ جگہ ملیں گے لیکن ان سب کے باجود تمام حروف کا توازن اور ترتیب بہت جامع ہے۔






Saturday, November 28, 2020

غبارِ عشق

0 comments
زندگی جینے کے ڈھنگ نرالے ہیں کسی کو کہیں کہ آ لوٹ چلیں تو کہتے کہ بیٹھ جاؤ اتنی بھی کیا جلدی کچھ دیر تو ٹھہرو۔ اگر بیٹھ جائیں تو کہتے کہ جانے کا وقت نہیں ہوا ، وقت بھی کبھی کسی کا ہوا ہے۔ جو پوچھ لے اسے پتہ چل جاتا ہے جو نہ سمجھے تو گزر جاتا ہے۔قلب بس سے باہر ، دل میں ایک پیاس جو بہاؤ کی طالب ہے۔ایک جنگ میں مبتلا ہیں جہاں دشمن کوئی نہیں ۔ بس روح کے لئے بدن تنگ ہوجاتا ہے۔ جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے تو پرانے کپڑے اسے تنگ ہوتے جاتے ہیں۔ بڑھتے جسم نئے کپڑے میں سماتے ہیں۔ جسم کپڑوں کی مانند چھوٹا ہو جاتا ہے، روح پھیل جاتی ہے۔ قلب اسمیں ایک ایسے پمپ کا کام کر تاہے جو پریشر بڑھاتا ہے۔خود تو ایڈجسٹ کر تا ہے مگر بدن کو سہولت دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ اس جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے،نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس میں جسم ہارے گا،روح جیتے گی۔جسم ازل سے ہارتا آرہا ہے ابد تک ہارتا رہے گا۔ بہت سالوں تک جنگ لڑتے ہیں رشتوں کی قلبی یا ازلی۔ بہت انتظار کرتے ہیں کہ سفر لمبا ہے مسافت ہمسفروں کی ہمرکابی میں آسانی سے طے ہو گی لیکن آخر اس مقام تک آ پہنچتے ہیں کہ اکیلے چلنے کا وقت ہونے کا احساس پروان چڑھتا جا تا ہے۔ ذات کی نفی کا عمل شروع ہو چکا ہوتومیَں نظر نہیں آتی، انا شکست خوردہ ہو جاتی ہے۔بدن بنجر ایسا ہوتا ہے کہ سمندر بھی ایک بدن کی تشنگی ختم کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ قرآن بلا تا ہے تو اللہ اپنی محبت کو سمو دیتاہے۔ ایک ایک آیت اپنی طرف کھینچتی ہے۔ دنیا مجذوب مانگتی ہے ،اللہ مومن چاہتا ہے جو اس کےکلام کو جزب کر کے پھول کی طرح کھل کر ایک وقت کے لئے ہر سو پھیل جائے۔ زندگی سے محبت میں کمی پر شک میں نہیں پڑنا چاہیئے۔اپنی ذات میں جب نہ ہونے کا احساس بڑھ جائے تو ہونے سے کیا تعلق باقی رہ جاتا ہے۔زندگی پانے اور کھونے کے درمیان معلق رہتی ہے۔ خالی غبارے زمین پر پڑے پڑےبے کار ربڑ کی صورت رہتے ہیں۔اگر ان میں ہوا بھرتے جائیں تو وہ اپنے ہم جولیوں میں ایک معمولی اشارے پر اچھلتے کودتے پائے جاتے ہیں۔خالی اور ہوا بھرے غبارے میں صرف ایک ہی فرق ہے۔ خالی غبارے دھول میں ایسے رہتے ہیں کہ پاؤں سے مسلے جاتے ہیں اور پھونکوں سے اپنی جگہ سے ہلتے بھی نہیں ۔ اس کے مقابلے میں ہوا بھرے غبارے اپنی ہمجولی ہوا کے اشارے پر بھاگتے ناچتے نظر آتے ہیں۔بعض روحوں کے لئے وجود بس ایک غبارے کی مانند ہے، اس میں اتنی توانائی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ایک معمولی اشارے پر اپنی منزل کی طرف محو پرواز ہو جاتی ہے۔جب دنیا کی محبت کے غبارے بڑے ہو جاتے ہیں تو روح میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس میں اتنی ہوا بھر سکے کہ وہ وجود ایک ہلکے اشارے یا حرکت سے روحوں کے اس گھیراؤ میں بلند ہونے لگے۔ غباروں سے آزادی کی جنگ میں روح ہوا کی مانند اتنی ہوا اپنے اندر بھر لیتی ہے ایمان کے پریشر سے کہ وہ اپنے اردگرد اپنے سے زیادہ طاقتور اور بڑی قوت کے مقابلے میں پرواز کر جاتی ہے۔ جو بچھڑ جاتے ہیں انہیں رک کر تلاش نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انہیں ساتھ چلنے کا کہا جاتا ہے کیونکہ سورج کا کام ہے روشنی دینا ، فیصلہ زمین نے کرنا ہوتا ہے کہ کس کو کتنی روشنی درکار ہے اور کس کو اندھیرا۔انسان کتابوں سے گائیڈ لائن لینے کے پابند ہیں لیکن جنہوں نے جنگ سے زندگی کا آغاز کیا ہو وہ حرب و ضرب کے قائل ہوتے ہیں کتب کے نہیں۔جب جانے کا وقت ہوتا ہے تو نقارے پر بلاوہ نہیں آتا،پیغام رساں نہیں آتے،احساس آتے ہیں خیال آتے ہیں۔درخت جب پھیلنے پر آتا ہے تو اسے گھاس سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔کیونکہ اس نے پھیلنے پر انہیں سایہ دینا ہوتا ہے جو باہر کی دنیا کی تپش برداشت نہیں کر سکتے۔ قریب رہنے والے دور کب ہوتے ہیں، بس اس درخت کے سائے سے زرا پرے ہٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں روشنی اپنے قریب ہی رکھتی ہے ۔ مغز بھری عقل جب اپنی مرضی کر لیتی ہےتو اس کی چلنے کی معیاد پوری ہو جاتی ہے۔اس کے ہتھیار پھینکنے کا وقت ہو چکا ہو توسوچ فیصلہ کرنے کا اختیار کھو دیتی ہے۔ یہ چاہت میں کھونے پانے کی جنگ نہیں۔ جینا ہے تو جی جان سے جینا ہو گا۔پلٹنے، لوٹنے ، سوچنے اور سمجھنے کا پل نہیں جو کسی مشورے کا پابند ہو گا۔ پابندی نہیں رضامندی ہے جو رضا سے ہے ۔ کوئی پیر نہیں جو ہدایت کا مرشد ہو، کوئی مرید نہیں جو آستانہ کا مجاور ہو۔یہ عشق کی جنگ ہے جو قرآن کے لفظوں سے شروع ہوتی ہے اور اس کے مفہوم پر ختم ہوتی ہے۔جو قیام سے شروع ہو کر قیامت پر ختم ہو گی۔اب فیصلے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ جس کو جانتے ہو وہ تمہیں جانتا ہے۔ جس کو پڑھتے ہو وہ تمہیں پڑھاتا ہے،سمجھنا چاہتے ہو تو سمجھاتا ہے۔ لفظ نہیں تلوار کی دھار ہیں،عرض نہیں حکم ہے۔کچھ دیکھ چکے باقی دیکھ لیا جائے گا۔ وہ دل نہیں جو خواب سجاتے رہے۔ ترازو ہاتھ میں دیا تو وزن پورا کرنے کے لئے۔حروف تول کر ملے تاکہ وہ گندم کے دانوں کی طرح چکی میں برابر پس سکیں۔ چکی کے دو پانسوں میں رکھنے کو نہیں تھا وہ دانے بن کر رہیں۔پسنے کا وقت دور نہیں ۔ دنیا کے لئے فقط لفظ ہیں جو سیاہی بن کر کاغذ پر چپک جاتے ہیں۔ لیکن لفظ بونے ، اُگانے ، کاٹنے اورسنبھالنے تک دانے ہیں لیکن چکی میں گزر کر اپنااصل ظاہر کرتے ہیں۔ دیکھنے والی اور پڑھنے والی آنکھیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ پڑھنے والی آنکھیں خود ہی آ جاتی ہیں اور دیکھنے والی آنکھیں ایک طرف سے نظر ہٹنے پر کسی اور طرف متوجہ ہو جاتی ہیں۔بتانے اور سمجھانے کی منزلیں تمام ہو جائیں توجسم کا روح کے سامنےسرنڈر کرنے کا منظر طلوع آفتاب جیسا ہوتاہے ۔ دن کی روشنی پھیلنے کا آغاز ، جس کی شام نہیں ہوتی۔وجود کہنے سننے کی مشقت سے آزاد ہو چکا ہو تونعمتیں لذت پر انحصار نہیں رکھتیں۔ مسافر منزل نہیں دیکھتے اور نہ سفر کی صعوبت، بس ارادہ کرتے ہیں قوت ارادی وہاں تک خود ہی چھوڑ آتے ہیں۔ بہت ایسے جو افسوس میں ہاتھ ملتے رہ گئے۔ کچھ ایسے جو سمجھنے سے قاصر رہے۔کئی ایسے جو راستوں میں انتظار کے دیپ جلائے بیٹھے رہے۔ہارن بجا بجا کر متوجہ کرنے کا سفر نہیں کہ مسافر سر پر بار اٹھائے کھڑے ہوں گے۔ خالی ہاتھ آئے ہیں تو خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔ پھرسفر نعمت ہے لذت نہیں۔ کھلے سمندر میں تیراکی سیکھنے کے لئے نہیں اترا جاتا بلکہ تیراک بن کر اترا جاتا ہے۔جس کے لئے جو حکم ہے اسے پورا کرنا ہے۔نہ مرضی ہے اور نہ ہی اختیار کہ انکار ہو۔انکار صرف ان کا جن کی ڈور ڈھیلی ہو۔ جن کی ڈور پہلے سے کھینچی ہوئی ہوان کا بس ان کے بس میں نہیں،ان میں میَں نہیں۔ ضد انا کے دریا کی کشتی ہے، جسے ڈوبنا ہوتاہے۔سہارے چپوؤں کی آس پر نہیں رکھے جا سکتے۔ لہریں بادبانوں کو ہوا ؤں کی سمت سمجھاتی ہیں۔جلد سمجھ جائیں تو جنگ کا فیصلہ فوری ہو جاتا ہے اگر نہ سمجھیں تو لہریں کشتی کو اپنی مرضی نہیں کرنے دیتیں۔ کسی نے عقیدت میں آنا ہوتاہے اور کسی نے چاہت میں، کسی نے پانے کی لگن میں توکسی نے منزل کی تلاش میں، کسی نے حق کو پانے میں توکسی نے راز کو جاننے میں،کسی نے خوشبو پانے میں تو کسی نے مہکانے میں ،کسی نے دل کے اطمینان میں تو کسی نے سوچ کے غبار میں ۔ زندگی بھی امانت ہے ، بنانے میں نبھانے میں سمجھانے میں ، بس ایک خامی بے اختیاری کے ساتھ۔ یہ کوئی بارات نہیں جو دلہن لینے جائے ڈھول کی تھاپ پہ، یہ فوج ہے جو فتح کے لئے نکلتی ہے۔

 تحریر: محمودالحق

Saturday, November 14, 2020

کانٹے

0 comments
کون کہتا ہے مجھے محبت نہیں ہوتی ۔۔۔۔ عشق تو رگ و جاں میں ہے میرے ۔۔۔۔ پھول سمجھتا ہے کہ اس کا حسن مجھے دیوانہ کئے جا رہا ہے ۔۔۔۔ پتے پھول کے کملانے پر اور پھیل جاتے ہیں۔ مگر! وہ نہیں جانتے کہ شاخ سے ٹوٹنے سے پہلے حسن اپنی انتہا تک پہنچتا ہے۔۔۔۔ کانٹے ! جو کسی نظر التفات کا شکار نہیں ہوتے اور انہیں نظر بھر دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا ۔۔۔۔ پھول اور پتے شاخ سے دور ہوتے ہوئے حسن ، رعنائی و دلربائی کی مثل لگتے ہیں۔۔۔۔ لیکن! شاخ سے بے وفائی میں کمزور پڑتے ہیں اور بالآخر جھڑتے ہیں۔

Wednesday, October 7, 2020

ذکرالانفال

0 comments

Monday, September 28, 2020

Thursday, July 30, 2020

جوہر افشانی (PDF) اب پڑھنا بہت آسان

0 comments
الحمداللہ ایک سنگ میل عبور ہوا۔ در دستک بلاگ سے69 منتخب مضامین کو میں نے پی ڈی ایف کتاب کی شکل  میں اس طرح  ترتیب دیا ہے کہ اب پڑھنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ فہرست مضامین میں کسی بھی عنوان پر کلک کر نے سےہم تحریرکےصفحہ پر چلے جائیں گے اور مضمون کے آخر میں  "واپس اوپر جائیں" پر کلک کرنے سے دوبارہ فہرست مضامین  پر آجائیں گے۔ حروف کے سائز کو اتنا رکھا گیا ہے کہ سیل فون پر ڈاؤن لوڈ کر کے بھی آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے ۔ مضامین کو تسلسل سے 1 تا 405  صفحات کی پوری  کتاب پڑھنے کی بجائے کسی بھی عنوان کو کلک کر کے صرف وہی تحریر پڑھی جا سکتی ہے۔


 سوشل میڈیا نے مضبوطی سے عوام الناس کو اپنے  سحر میں گرفتار کر لیا ہے۔ جہاں کے معیارات مختلف ہیں اور خاص طور پر نوجوان نسل کی ترجیحات اور دلچسپی کا بہت سامان سوشل میڈیا فراہم کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھنے کا رحجان کم پڑ رہا ہے اور دیکھنے اور سننے کا رواج بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں بہت سے لکھنے والے بلاگستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم سیکھ سیکھ کر یہاں پہنچے ہیں۔ بلاگرز نے بلاگز بنانے کے لئے دوسروں کے لئے راہیں ہموار کی ہیں۔ جس سے میں نے بہت سیکھا۔ بلاگستان سے میرا تعلق 25 مئی 2009 سے ہے۔ نئی نسل کے وہ لوگ جو کچھ پڑھنا چاہتے ہیں ، سمجھنا چاہتے  ہیں۔ ان کے لئے ہمیں کچھ بچا کر رکھنا چاہیئے۔ آنے والے وقت میں صرف فیس رہ جائیں اور بک ختم نہ ہو جائیں۔اسی بات مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اپنے چیدہ چیدہ مضامین کو پی ڈی ایف میں محفوظ رکھنے کی ایک کوشش کی ہے تاکہ  پڑھنے والے کی چوائس بڑھ جائے اور وقت کی بچت بھی ہو۔   
 

Wednesday, June 24, 2020

کبھی آہ دل سے گزرے

0 comments


(یہ ایک کہانی نہیں ایک سچائی ہے۔
چھبیس سال کی عمر میں تین کمسن بچوں کی ماں جب بیوہ ہو نے پر ایمان و توکل کا تاج پہن لیتی ہے اور اپنے ارد گرد سے نظریں چرا کر نگاہیں آسمان کی طرف کر لیتی ہے تو آہ عرش تک کا سفر لمحوں میں کرتی ہے)
انسان مستقبل میں جینا چاہتا ہے اور ماضی سے جان چھڑوانا  لیکن معمولات زندگی اسے باندھ کر رکھتے ہیں۔ پیچھے جا نہیں سکتا آگے بڑھنے میں مصلحت تو کبھی خوف آڑے آ جاتا ہے۔جینے کے لئے کسی نئے ڈھنگ کی ضرورت نہیں ہوتی ، بس لسی میں پانی بڑھاتے جاؤ تاوقتکہ چٹیائی ختم نہ ہو جائے۔انسان بستیوں میں رہتے تھے مگر معاشرتی بد اعمالیوں کے ساتھ۔ جس نے صحیح راستہ دکھایا اسی کے درپے ہو گئے ، آباؤاجداد کے رسم ورواج اور دین  سے ہٹنے والے نہیں تھے۔ گروہ در گروہ جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں غرق تھے۔نیکی اور اچھائی کی بات نہ سننے اور نہ ہی ماننے کی روش پر قائم معاشرتی اقدار پر جمے ہوئے تھے۔وعدوں اور عہدوں سے مکر جانا جن کا معمول تھا۔ یقین سے خالی اور شکوک سے بھرے ہوئے تھے۔ اپنے مفاد کے لئے دوسروں کا نقصان کر دینے سے بھی گریز نہ کرتے۔ یقین تھا تو صرف اسی بات کا کہ جو ہے جتنا ہے فقط انہی کا ہے۔ اللہ اپنی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین بھی کرتا ہے اور حکم بھی دیتا ہے۔پھر اس کے بدلے سات سو گنا لوٹائے جانے کی نوید بھی دیتا ہے۔لیکن انسان نے کبھی اسے سنجیدہ نہیں لیا۔ کیونکہ وہ تو خسارے میں رہنے والا ہے۔
زندگی جنگل کے اندر صدیوں جیسی مسافت کی مانند ہے جہاں راستہ بناتی پگڈنڈیوں  پر چلنا پڑتا ہے۔ بوقت ضرورت راستے سے ہٹ کر کہیں سستا لینے کے لئے پڑاؤ کرنا پڑتا ہے۔ درختوں سے پھل اور میوہ سے بھوک مٹا کر اور بہتے چشمے سے پانی سے سیر ہونے کے بعد پھر سے سفر کے راستہ پر نکلنا پڑتا ہے۔ آہ دل سے اور چشم تر  کیسے گزرتی ہے  ، صرف وہی جان سکتے ہیں جو اس سفر سے گزرے ہوں۔
یہ ایک کہانی نہیں ایک سچائی ہے۔ جب آہ عرش تک کا سفر لمحوں میں کرتی ہے  اور آنسو پلکوں سے بہنے سے پہلے حکم ربی کے سامنے سر نگوں کرنے والا بے آب ماہی کی طرح تڑپنے پر اپنی ہتھیلیوں پر آنسوؤں کی شدت تڑپ کو محسوس کر لیتا ہے۔
چھبیس سال کی عمر میں تین کمسن بچوں کی ماں جب بیوہ ہو نے پر ایمان و توکل کا تاج پہن لیتی ہے اور اپنے ارد گرد سے نظریں چرا کر نگاہیں آسمان کی طرف کر لیتی ہے تو رب جلیل کے حکم پر زمین پر چلتا ایک بدکے ہوئے گھوڑے جیسا انسان  چیونٹی  کی مانند بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔
وہ  !
اپنے بچوں کے  عید کے نئے کپڑوں کی خریداری کے لئے رقم ان کے ماں کے حوالے کر کے  گاڑی میں مسحور کرنے والے گانوں کے بول سنتا  اپنی زمینوں کی طرف رواں دواں تھا کہ کچھ عرصہ قبل  اس فانی دنیا سے کوچ کر جانے والا اس کا ہمسایہ اور دوست  اس کی آنکھوں کے سامنے اپنی شکل کا تصور چھوڑ جاتا۔  اچھے انسان کا یاد آنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ اکثر مرحوم کا ذکر اچھے الفاظ میں کرتا۔ لیکن آج تصور ایسا تھا جیسے کوئی بے چینی میں اسے جھنجھوڑ رہا ہو۔سارا دن وہ زمینوں میں اِدھر سے اُدھر  بلا وجہ چلتا رہا ۔ بے سکونی نے اسے بری طرح نڈھال کر دیا ۔ ایک ہی چہرہ مسلسل کئی گھنٹوں سے اسے پریشانی کے عالم میں جہاں جہاں اس کی نظر پڑتی  محسوس ہوتا۔
 ایک خیال نے اسے رنجیدہ کر دیا کہ میں نے اپنے بچوں کے لئے  عید کے نئے کپڑوں کا اہتمام کیا اور اس کے ہمسائے میں تین معصوم بچے  عید کے دن کیا نئے کپڑے پہن پائیں گے۔ شام کو گھر واپس لوٹتے ہی اس نے اپنی بیگم کے ہاتھ میں کچھ رقم دے کر کہا کہ ان کے گھر جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ بچوں کے لئے   کپڑے خرید لیں۔
جس وقت ایک چہرہ جہاں جہاں وہ رخ کرتا اس کے سامنے اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ اسی دن مرحوم کی معصوم سی بڑی بیٹی بازار میں اپنی  ماں سے ایک سوٹ خریدنے کی فرمائش کر رہی تھی۔ جسے خریدنے کی ایک بیوہ ماں کی سکت نہیں تھی۔
 معصوم بچی رونے لگی اور ماں دل گرفتہ ہوئی ۔ اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والےخالق کائنات نےعرش سے ایک خیال کے ذریعے   ذمہ داری  کا احساس پیدا کیا۔    بظاہر بچے ننھیال ددھیال کی آنکھ کا تارا تھے اور حقیقت تو تب آشکار ہوتی اگر اس پر سے پردہ کبھی اٹھا ہوتا۔ چھبیس برس کی عمر میں بیوگی کا لبادہ اوڑھنے والی ایک باوقار ، با حیا اور باکردار عورت نے اپنا حال اللہ کے علاوہ کبھی کسی کو نہ دکھایا۔
اللہ تبارک تعالی نے ایک ایسے انسان کو ان کے لئے بے چین کر دیا جو فالج اور الزائمر کی بیماری میں مبتلا اپنے بوڑھے  باپ  کی خدمت میں ایسے مگن تھا کہ اسے دنیا میں کوئی خاص رغبت نہیں تھی۔ وہ روح اور جسم کے باہمی تعلق کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف عمل تھا۔ اپنی ناک کو خاک آلود ہونے سے بچانے کے لئے اور فرمان رب کریم کی طرف سے والدین کی خدمت میں  کسی  کمی،کوتاہی  سے  بچنے کی تگ و دو میں مصروف عمل تھا۔
 تب  اسے اس احساس نے آ گھیرا کہ گھر کی دیوار کے دوسری طرف  یتیم بچوں کے آنسوؤں کا    بوجھ وہ روز قیامت کیسے اٹھائے گا۔ تین بچوں کی بیوہ ماں صرف اللہ تبارک تعالی سے مدد کی طلبگار تھی۔
 نہ جانے  اس کی دعا میں کتنا درد تھا کہ وہ ہمیشہ بے چین ہو جاتا  ، زندگی جینا مشکل ہو جاتا ۔ اپنی شریک حیات سے کہتا کہ انہیں  پوچھو  مسئلہ کیا ہے۔  ہمیشہ  سب اچھا کہہ کر بات ٹالنے کی کوشش ہوتی  لیکن اللہ تبارک تعالی اپنے نیک بندوں کی مدد میں کبھی تاخیر نہیں کرتا۔ سکون کھو جانے اور بے چینی بڑھ جانے پر وہ  کہتا کہ  اگر سب اچھا ہے تو اسے سکون کیوں میسر نہیں۔ آخر کار  وہ مسئلہ حل ہونے کے بعد اسے سکون میسر آتا۔
اللہ تبارک تعالی کی طرف سے ملنے والی مدد کو ایک بیوہ ماں احسان سمجھ کر انا و خودداری کی چادر کو اور مضبوطی سے اوڑھ لیتی۔ زندگی کے شب و روز گزرتے گزرتے بچے جوانی کی دہلیز تک آ پہنچے۔  بچوں کی شادیوں کے موقع پر   انتہائی پریشانی کے عالم میں ایک ماں کی اللہ سے نہ جانے کیسے التجائے دعا ہوتی کہ اُس پر چھائےبے سکونی اور بے چینی کے بادل چھٹنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔  بار بار  پوچھنے پر  سب اچھا ہے ، شادی کی تیاری بھی ٹھیک ہے کہہ کر بات  ختم  کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن  اللہ تو سب جانتا ہے جو ظاہر ہے اور جو دلوں میں ہے۔ نہ چین تھا اور نہ ہی سکون اُسے، وہی "سب اچھا ہے" کا جواب اسے مطمئن نہ کرپاتا جب تک کہ پریشانی کا موجب مسئلہ حل نہ ہو جاتا۔ پریشانیاں  باقاعدگی سےآتی رہیں اور اللہ تبارک تعالی کے حکم سے دور ہوتی رہیں۔ وقت کی بے رحم موجوں سے لڑتے لڑتے آج  اس گھر میں خوشیوں سے بھرپور زندگی  ہے۔ لیکن اللہ تبارک تعالی سے ان کا  تعلق آج بھی ویسا ہی ہے۔ جب بھی انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اللہ تبارک تعالی کی طرف سے مدد  پہنچ جاتی ہے۔ چند دن سے زیادہ پریشانی میں اللہ کی پاک ذات مبتلا نہیں ہونے دیتی۔
بظاہر یہ ایک تخیل سے بُنی گئی کہانی کا سکرپٹ دکھائی دے گا۔ لیکن اللہ تبارک تعالی اپنے نیک بندوں کا خیال کیسے کرتا ہے اور اُن کی مدد کے لئے کسی انسان کو چن لیتا ہے اور اسے اس کام پر ایسے لگا دیتا ہے کہ  وہ خود حیران رہ جاتے ہیں۔ عام لوگ   قصے کہانیوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالی کے قائم کردہ خودکار نظام   کی حقیقت  کو تسلیم کرنے میں حیل و حجت  اور شک و شبہ کے درمیان کہیں اٹک جاتے ہیں۔ وہ ہر بات کا عقلی جواز تلاش کرتے ہیں۔ اس سچی کہانی کو جانچنے اور ماننے کے لئے عقل سے زیادہ توکل کی ضرورت ہے۔  عقل کے بھروسے پر زندگی جینے والے اور توکل پا کر زندگی جینے والے الگ الگ ہوتے ہیں۔ عقل کے ترازو پر ہر بات  رکھنے  والوں کے لئے اس تحریر میں کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی منطق اور جواز فراہم نہیں کرتی۔  بلکہ یقین محکم ہے ایمان والوں کے لئے۔

تحریر: محمودالحق