Thursday, September 9, 2010

حق کیسے ادا ہو

0 comments
بحیثیت انسان ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ اپنی زندگی عقل و شعور و دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے اچھائی میں یا برائی سے مبراء گزاریں ۔کسی کو پابند نہیں کیا جا سکتا کہ زمانہ کی مرضی و منشاء اور حدودو قیود کے اندر اپنا ما فی الضمیر بیان کرے ۔ جینے کی چاہت ہر زی روح میں ہوتی ہے ۔ حشرات سے لے کر جانور اور پرندوں تک اپنی جان کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اور رزق کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ۔اس احساس سے خالی کہ ان کا آنے والا کل کیسا ہو گا ۔
تکلیف کے احساس سے بچنے اور آرام کے پل پانے کے لئے جستجو و تلاش کے راستے کھلے رہتے ہیں ۔ جب انہیں بند کرنے کا خیال پیدا ہو یا کوشش کی جائے ۔ تو پھر کسی اور منزل کی امید پیدا ہو جاتی ہے ۔جستجو و تلاش کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا ۔کتنے ہی لوگ ہیں جو ایسی زندگی گزارتے ہیں ۔ان میں زیادہ تر کا انحصار تلاش پر ہوتا ہے ۔جو خواہشوں سے پیدا ہوتی ہیں ۔ اور خواہشیں ارد گرد کے ماحول سے کھڑے پانی سے بخارات بن کر خواہشوں کے بادل بننے کے عمل کا شکار رہتی ہیں ۔ مقصد کے حصول تک زندگی میں ہلچل پیدا کرنے کے اسباب خود بخود پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ انگلی پکڑنے والے تو سبھی ہوتے ہیں ۔ مگر ہاتھ دینے والا کوئی کوئی ۔باتوں سے تسلی و تسفی تو دی جا سکتی ہے ۔مگر غم و تکلیف کامداوا نہیں ہو سکتا ۔ سبھی اپنے مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں ۔اجتماعی مفاد کی بات اس لئے نہیں کی جا تی ۔ دوسرے کی خوشی میں خوش ہونا اعلی ظرفی کا متقاضی ہوتا ہے ۔ زیادہ تر آگے بڑھنے والے ایک آنکھ نہیں بھاتے ۔ دوسرے کی کامیابی و کامرانی کو عدم برداشت کی بنا پر اپنی ناکامیوں اور خواہشوں کے ادھورے پن کی عینک سے دیکھتے ہیں ۔بہت مشکل ہے اس بات کو سمجھنا کہ کسی اور کو بھی پریشانی پریشان کر سکتی ہے ۔ صرف اپنے مسائل پہاڑ کی چوٹیوں کی طرح دوسری طرف کھائیوں پر نظر جانے ہی نہیں دیتے ۔
ماں باپ کو چھوڑ کر جانے والے کسی بھی امتحان اور آزمائش سے بری الزمہ ہو جاتے ہیں ۔ اور ساتھ رہ جانے والی اولاد بھوکی مر رہی ہو تو ہر جگہ تعریف و تحسین کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے ۔زبان پر تحسین و داد آفرینی کے کلمات بناوٹ گوٹہ کناری سے مزین شال سے سایہ کرتے ہیں ۔ اور اگر خوشحالی میں وہی اولاد چلی جائے تو حسد ونفرت کی آگ میں جلتے بھی اور جلاتے بھی ہیں ۔ مفاد پرستی اور کینہ پروری جو بن پر رہنے کے باوجود موقع پرستی اور مٹھاس بھرے رویے کڑواہٹ کو دل میں ایسے چھپا کر رکھتے ہیں کہ چہرے کی منافقت مماثلت کے فارمولے سے بھی حل نہیں ہو پاتی ۔
اچھائی سے کیا مراد لی جا سکتی ہے ۔پاگل پن یا اپنا پن ۔ دنیا میں اس سے بڑا کیا امتحان ہو گا ۔ انسان اپنی اولاد کے لئے تو ہر مشکل وقت اور کھٹن حالات کا سامنا خوش دلی سے کرے ۔ مگر والدین کا احسان پانی کی سطح پر بنتے بلبلے سے زیادہ نہ ہو ۔
شکوے توپ کے دھانہ سے اگلتی آگ کی مانند سامنے کھڑے دوست و دشمن کی پہچان بھی نہیں رہنے دیتے ۔ تاریخ میں ظلم و نا انصافی کے خلاف بغاوتیں اُٹھا کرتی تھیں ۔ آج حالات کا تقاضا ہے کہ بغاوت صرف اپنے خلاف ہی کی جا سکتی ہے معاشرے سے کٹ کر رہنے کی ۔ شیر گھاس کھانے پر مجبور ہو تو وہ جنگل کا بادشاہ نہیں کہلا سکتا ۔ مداری کی ڈگڈگی پر سلام کرنے والی تماشا تو ہو سکتی ہے ۔ جنگل کی تماشبین نہیں ۔
ہمیں حالات سے سمجھوتہ کرنے کی مجبوری کیوں ہو ۔ برائی کو ختم کرنے کا تہیہ نہ بھی کریں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا ۔مگر ایک محاذ ایسا ہے جس پر مصلحت پسندی آڑے نہیں آ سکتی ۔اس پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر اسے ڈھیلا چھوڑ تے چلے جائیں ۔وہ پھیلتا پھیلتا اتنا بڑھ جاتا ہے ۔ کہ وہ فتنہ بن جاتا ہے ۔جس کا آغاز غرض کی شال میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے ۔ انجام کار نا فرمانی کے لحاف بستر گرماتے ہیں ۔
اللہ کے نافرمانوں میں صف اول میں والدین کے نافرمان ضرور ہو ں گے ۔ زمین میں پیدا کرنے والوں کا جو حق ادا نہ کر سکیں ۔ دنیا میں پیدا کرنے والے کا حق کیا ادا کر پائیں گے ۔

Monday, September 6, 2010

اشعار تصویری

4 comments

میں اور میری پرچھائی

4 comments
اپنی پرچھائی سے ایک بار موقع ملا مجھے کرنے کا کلام
پوچھا روشنی سے ہے تو بچتی رکھتی گرد ہی میرے تو حصار
بولی ہمت نہیں میری خود کو دور رکھوں ۔نہیں ہوں میں وقت بے مہار
روشنیوں کا یہ جلوہ کبھی اندھیرے میں بھی دیکھایا ہوتا
ایک بے مقصد تو چیز ہے روشنیوں کی تشہیر ہے
لاکھوں کے مجمع میں بھی ہے تو بے سروساماں
ایک دوسرے میں ہے یوں پیوست اپنا وجود ہی نہیں رکھتی تو ابد
صرف روشنی سے ہے تجھ کو یہ غرض رکھتی ہے انساں کے پیچھے اپنا عکس
اکتا کر وہ گویا ہوئی یوں کہ
بہت سنا لیں ، بہت سمجھا لیں ، کبھی خود کا بھی رکھا تو نے یوں خیال
میں عکس نہیں ہوں تیرا ۔ میں نفس ہوں تیرا
اندھیروں میں ہوں میں چھپ جاتی ۔روشنیوں میں تم کو سب دیکھاتی
اندھیرے جو تم کو دیکھاتے ہیں ۔پہلے وہ مجھے ہی چھپاتے ہیں
روشنی جب تیرے اگے آتی ہے ۔ میں تیرے پیچھے ہوتی ہوں
میں امیدوں سے جڑی ہوں رسموں میں گھری ہوں
نفس تو ہے عکس آئینہ ۔روشنی سے ہے رکھتا وہ سامنا
روشنیوں میں جسم سے نکل کر پھیلتی ہوں
اور اندھیروں میں پھر یونہی جسموں میں سمٹتی ہوں
جوں جوں روشنیوں سے پھیلتی ہوں توں توں نفس سے جکڑتی ہوں
مجھ پہ جو اتنا غور کیا کچھ اندر اپنے کا بھی خیال کیا
جو تجھے بڑھکاتا ، بہکاتا روشنیوںمیں ہے پھیلتا
پھر اندھیروں میں ہی وہ سکڑ کر تیری ذات کانشان بن جاتا
اب اتنا بھی کیا ضروری ہے کہ زندگی سے بھی اب دوری ہے
اے نا سمجھ ناداں انساں اندھیرے تو تیری آنکھوں میں ہیں
میں تو تیری ذات ہی کا عکس چپکی زمیں پر رہتی ہوں

Sunday, September 5, 2010

آہستہ چلیں آگے اُچھلو ہے

6 comments
جب سڑک پر کسی قسم کا سائن بورڈ نہ ہو کہ آگے آپ کے کیا کیا آنے والا ہے ۔ تو پھر آپ کو مطلع کرنے کا کیا طریقہ رہ جاتا ہے ۔ ماسوائے یہ کہ ہوا میں اُچھال کر ایک ہلکا جھٹکا باور کرانے کے لئے کافی ہوگا کہ سنبھل تیرا دھیان کدھر ۔ ون ویلنگ ہو یا تیز رفتار موٹر سائیکل گلی محلے سے گزرنے پر موت کے کنواں کا منظر پیش کرتے ہیں ۔ایسی لاپرواہی کو روکنے کا ہاتھ سے زمانہ نہیں ۔ کیونکہ ہاتھا پائی سے شرفاء گھبراتے ہیں ۔ بچوں کو اپنے خود ہی سمجھاتے ہیں کہ بد تمیزوں کو منہ نہیں لگاتے ہیں ۔ زبان درازوں سے بے زبان پتھروں کو آزماتے ہیں ۔
ترقی یافتہ ممالک میں سڑک پر پیدل چلنا ہو یا گاڑی چلانا ۔ اصول طے شدہ ہیں ۔ کس کے کیا حقوق ہیں کیا فرائض ہیں ۔ پہلے آئیے پہلے پائیے ۔ بس کے انتظار میں کھڑے ہونے والے دھکم پیل نہیں کرتے ۔ باری کے انتظار میں چاہے پہلی بس چھوٹ جائے ۔ جلد بازی میں دوسروں کے حق سے دست بدست نہیں ہوتے ۔پیدل کم ہی چلتے ہیں جو سڑک پر آ جائیں اپنا حق پا لیتے ہیں ۔ کہنے کو تعلیم یافتہ قومیں ہیں ۔ مگر پابندی قانون سے ہےتعلیم سے نہیں ۔تعلیم شعور دیتی ہے اور قانون سزا دیتا ہے ۔ ڈر سزا کا ہوتا ہے ۔ جسے پڑھا لکھا جلد سمجھ لیتا ہے ۔ غیر تعلیم یافتہ جب تک آنکھوں سے نہ دیکھ لے سزا پر عملدرامد ہوتا ۔ یقین کے دائرہ میں نہیں آتا ۔
بار بار کا رونا نا خواندہ قوموں میں اصول پرستی کا رواج جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے ۔ بڑے شہر خونداگی کی شرح میں کسی طرح ترقی یافتہ ممالک سے کم نہیں ۔ مگر حال دیکھ کر یقین سے کہنا مشکل ہے کون کتنا تعلیم یافتہ ہے ۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ۔میٹرک ،ایم اے ،انجئینر ،پروفیسر ہوں یا کلرک کسی بھی سڑک پر ایک ہی ڈگری کا پرسان حال ہیں ۔ پوچھنے پر کہ ایسا کیوں تو جوابا طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہ قانون پر عمل کرنے بیٹھیں سارا دن سڑکوں پر ہی رہیں ۔ جتنا جلد ٹینشن سے نکل جائیں بہتر ہے ۔نکلنے کا کیا کوئی اور راستہ نہیں بچا ۔اب بچانے کو کیا کیا بچا ہے ۔ تفصیل طلب ہے ۔ جب تک کیچڑ نہ اچھالیں تسلی نہیں ہو تی ۔ جہاں کبھی فصلیں تھیں اب وہاں کیچڑ ہے ۔ پھل پھول کی بجائے گھاس پھونس اگے گی ۔ جیسے 1947 میں لگائے گئے باغ میں پھل پھول بار بار کے سفارش، بے ایمانی، خود غرضی کے سیلابی ریلوں سے سیاسی کیچڑ سے گھاس پھونس ہی رہ گئی ہے ۔
زندگی گزارنے کے لئے کسی سائن بورڈ کی ضرورت نہیں ۔ اخبارات کو غریبوں کی غیر منقولہ جائدادوں سے محروم کرنے والے لاہور کے دو سو افراد کی بلیک لسٹ فراہم کرنے سے فرض ادا ہو گیا ۔ جنہیں بچہ بچہ پہلے ہی جانتا ہے ۔ اب ایسے اخباری اچھلو سے انہیں سزا سے نہیں جرائم کی سپیڈ بڑھانے سے روکنے کی ایک کوشش ہے ۔ قومی ،لسانی ، سیاسی ، مذہبی اور تعصبی رحجانات کی بڑھتی فضا میں قائدہ قانون کی کھلی خلاف ورزی میں صرف چند اچھلو سے گزارا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ میرا لیڈر سب سے اچھا ، میری سیاسی جماعت سب سے اچھی ، میرا رہنما سب سے اعلی ، میری قوم سب سے اچھی ، پھر برا کیا ہے ۔اچھا انسان ہونا ۔ جس معاشرے میں بوڑھے والدین کی خدمت کرنے والی اولاد کو فتنہ و فساد سے برائی کا شاہکار بنانے کی کوشش ہو وہاں تنگ نظر ، متعصب ، مفاد پرست اپنی چاہت ایمان گرانی سے معتبر ی کا ہار پہن لیتے ہیں ۔
جس فورم میں جھانکیں نفرت کی ایک آگ ہے جو بڑھکتی نہیں بڑھکائی جاتی ہے ۔ کہیں علم حدیث سے تو کہیں قرآن تفسیر سے بحث و تکرار ہے ۔ ایک طرف نہ تو محفوظ عزادار ہیں اور نہ ہی مزار ہیں ۔بازاروں میں مہنگائی کی ماری خواتین و بچے بھی زخموں سے چورچور ہیں ۔ کوئی پنجابی کہہ کر غصہ نکالے تو اردو سپیکنگ غصہ میں خود پہ قابو نہ رکھ پائے ۔ پختون اپنی آزادی کا بگل نام سے بجائے۔ بلوچی ناروا سلوک کا شکوہ سنائے ۔
اسرائیل کشمیر کی فتح کا نعرہ لگاتے لگاتے فلسطین کو آزادی دلاتے دلاتے اختلافات کے ایسے دلدل میں خود ہی جا پھنسے کہ برداشت کا مادہ ہی ختم ہو گیا ۔آپ جناب کی بجائے تو تکار سے سرکار بناتے ہیں ۔ پھر خوار پھرتے ہیں ۔ محسن قوم کی ڈگری کا چرچا سنتے ہیں ۔ کردار گفتار کا ذکر خیر ہی نہیں ۔ اصول پسندی کی تقلید نہیں ۔
جسے دیکھو خاموش انقلاب کی نوید سناتا ہے ۔انقلابات دنیا فرد واحد سے نہیں آیا کرتے ۔ قوم واحد سے آتے ہیں ۔جہاں تنکوں میں بٹا ہو سارا معاشرہ وہاں خواب خرگوش ہی آتے ہیں ۔کاش  عمر کئی سو سال ہوتی اور دیکھ پاتے اس عوامی انقلاب کو جو معاشرتی نا ہمواریوں اور نا انصافیوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کا عکس ہوتا ۔ علامہ اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو دیکھ لیتے کہ زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ۔
بہت خاموشی سے یہاں آئیں بغیر اچھلے گزر جائیں کیونکہ یہ سائن بورڈ ہے جسے پڑھا نہیں جاتا ۔ اگر معاشرے کا وہی خربوزہ یعنی فرد ہوتا تو ایک آدھ اچھلو اپنی تحاریر میں لگا دیتا تاکہ اگر اچھا نہ لگے تو برا بھلا میرے حصے میں ضرور آتا ۔ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا ۔

Thursday, September 2, 2010

ردائے رضا میں رہتی عطائے رُبا القرآن

0 comments

ردائے رضا میں رہتی عطائے رُبا القرآن
اتباع محمد ؑ سے پھیلتی نورِ کشف الفیضان

جھکتی شاخِ شجر میں ہو پیوست ثمر
سجدہ نہیں سجدہ جب عمل نہ ہو عکسِ مسلمان

ٹھہری موجوں سے ہی نسبت رکھتے ہیں ابَر
ساحلوں کے دل دھل جائیں جب اُٹھتے ہیں طوفان




روشن عطار / محمودالحق

دے اس قوم کو ایسی جِلا

0 comments

دے اس قوم کو ایسی جِلا
یہ پکار اٹھیں یا خدا یا خدا

سمجھ کر یہ تیرا فرمانِ ضیا
اپنی روح کو جسم سے کریں جدا

تائب ہوں جو اپنی خطا
ملیں انہیں فرمانِ اجلِ جزا

تحریص و ترغیب تو ہے ابلیسِ ادا
چھن جائے مسلم کی ایمانِ رضا

جو خود ہے وہاں سے نکالا گیا
تیرے لیے بھی چاہے گا ویسی سزا

گر نہ ہو لغزشِ تحریز پا
آئے ایک ہی صدا یا خدا کرم فرما

نہیں ہے وہ تم سے جدا
قلب تو ہے اسکی نورِ ربا

خارِ وفا تو ہے ہمیشہ کی فنا
رضاء خدا ہی کو ہمیشہ بقا

پہلا پڑاؤ ہے تجھے پھر ہے جانا
اتنی بھی کیا جلدی سانس لے ذرا

بن گیا ایندھن جو کٹ گیا
بچ گیا جو جَڑ سے جُڑ گیا



موسل بار / محمودالحق