Thursday, June 24, 2010

قدر ِ تخلیق میں محبتِ خالق

6 comments
بچپن میں محلے کے لڑکے مل کر کینچے کھیلتے ،کٹی پتنگوں کےپیچھے بھاگتے، تو کبھی کبوتر اُڑاتے ۔ تو  بزرگ ایسے کھیلوں سے منع کرتے اور نصیحت بھی ۔ اپنا وقت فضول کاموں میں ضائع کرنے کی بجائے پڑھائی کی طرف توجہ دینے پر زور دیتے ۔ اور جو زبان سے کچھ نہ کہتے مگر ان کا رویہ اپنائیت کا احساس دلاتا ۔ دادا نانا کہلاتے بزرگ پاس سے گزرتے ہوئے آداب یا اسلام و علیکم کہتے ۔ جواب میں وعلیکم اسلام تو کہہ دیتے مگر شرمندگی سے ۔ان کا سمجھانا یا ڈانٹنا کبھی برا نہیں لگتا تھا ۔ مگر ان کے سامنے آنے سے کتراتے ضرور تھے ۔تاکہ کسی نصیحت کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے ۔جس پر عمل کرنے کی ان میں تاب نہ تھی ۔ باتیں ان کی غلط نہیں تھیں ۔سمجھانا بھلائی کے لئے ہوتا ۔ پھر بھی ان سے دور رہتے اور عمل بھی نہ کرتے ۔مگر ان کی عزت و احترام میں کبھی فرق نہیں آتا ۔ احترام ہمیشہ دل میں رہتا ۔ نہ سمجھنا کسی خاص وجہ سے نہیں تھا ۔ بلکہ تفریح کی لطف اندوزی کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی تھی ۔کھیل کود اور ایسی تفریح کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا ۔

جنہوں نے نصیحتوں پر عمل نہیں کیا ۔ استاد زمانہ نے حالات کی رسی میں اچھی طرح کس کر وہ باتیں سمجھائیں ۔ زندگی کو وہ جو معنی پہناتے رہے ہیں ۔دراصل وہ ایسی نہیں ہے ۔
آج نئی نسل کے ہمارے بچے کینچے کھیلنے اور کبوتر پالنے کے شوق تو نہیں رکھتے ۔ مگر آج ہماری نصیحتیں اپنے بزرگوں جیسی ہی ہیں ۔مگر سمجھنے کا انداز بدل چکا ہے ۔ٹی وی گیمز کھیلنا اور ٹی وی دیکھنے کو ان فرسودہ تفریح سے بہتر جانا جاتا ہے ۔ماضی کے تجربے سے ہم کبھی خود سے ہی پریشان ہو جاتے ہیں ۔کہ کہیں دوسروں کو ہماری باتیں ناگوار نہ گزرتی ہوں ۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری تحریروں اور آزاد شاعری کا بھی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اکثر ان کے پاس سے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے بچپن میں ہم بزرگوں کو سامنے سے آتا دیکھ کر راستہ بدل لیتے یا چھپ جاتے ۔ تاکہ ہماری تفریح طبع کا تسلسل نہ ٹوٹ پائے ۔ مجھے اس بات کی کوئی پریشانی نہیں کیونکہ میں نہ تو شاعر ہوں اور نہ ہی ادیب ۔ بچپن سے ہی کتابوں کے علاوہ کھیل کود میں خاص دلچسپی رہی ۔لیکن اب لکھنا ایسی مجبوری میں ڈھل چکا ہے کہ خیالات میں جو ہنگامہ برپا ہوتا ہے لکھنے سے ختم ہوتا ہے ۔
حالات نے جو ہمیں سمجھایا بچپن سے جوانی تک ایسا کبھی کسی نے نہیں بتایا ۔کئی بار یہ خیال دل میں طوفان بن کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ لکھنا کیا ضروری ہے ۔پڑھنے والے کہیں مجھے مولانا فصیحت ہی نہ سمجھنا شروع کر دیں ۔ مولوی بننے کے چانسسز بہت کم ہیں ۔بچپن میں قرآن پاک مسجد میں قاری صاحب سے پڑھا ۔ تب عربی متن پڑھایا اور یاد کرایا گیا ۔ ترجمہ گھر میں خود سے پڑھا ۔
ضروری نہیں کہ لکھنے کا سلسلہ بھی ہمیشہ چلتا رہے ۔زندگی میں ترجیحات بدلتی رہتی ہیں ۔ اور جو کام بچپن کے کسی شوق کا نتیجہ نہ ہو کسی وقت بھی اپنے اختتام کو پہنچ سکتا ہے ۔مختلف مصنفین کی تصانیف پڑھنے کے اثرات لکھنے پر ضرور اثر انداز ہوتے ہوں گے ۔ مجھے بادی النظر میں تو کوئی ناول نگار ہونا چاہئے کیونکہ نسیم حجازی کا کوئی ناول شائد ہی کبھی چھوڑا ہو ۔
شائدانسان تخلیق سے متاثر ہو کر اس کے زیر اثر لکھنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ کائنات کی تخلیق نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کر لیا ۔سمجھنے کی کوشش میں خالق ابھر کر عقل تصور میں سرایت کر گیا ۔ ہر تحریر کا مرکز خالق کائنات کی تخلیق سے متاثر صورت دکھائی دیتی ہے ۔ تحریر یں اتنا گہرا اثر نہیں چھوڑتی جتنا تخلیق گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہے ۔کائنات ِ پھیلاؤ میں انسانی سوچ دھنس جاتی ہے ۔جہاں خالق کی تخلیق مخلوق کی ایجاد پر بہت بھاری ہو جاتی ہے ۔جیسے چاند پر ڈسکوری کا پہنچنا کمال نہیں ہے ۔ کمال تو یہ ہے کی ایک ننھا کمزور پودا سنگلاخ چٹانوں کو چیر کر اپنا راستہ بناتا ہے ۔نظام حیات میں نظام کائنات جیسا تسلسل نہیں ۔ہنگامہ خیزی اور تجسس سے بھرا ایک عارضی پن پایا جاتا ہے ۔ اگر تخلیق کی قدر ہو گی تو خالق سے محبت ہو ہی جاتی ہے ۔


سب سے جدا رنگ نو اللہ ہو اللہ ہو
مراتب جہان میں خداۓ تو اللہ ہو اللہ ہو
مائل ہے پردہ خیال پَر تَو اللہ ہو اللہ ہو
پکار اٹھے خاک طور ہو اللہ ہو اللہ ہو


تیری رحمتوں کا یہ اظفر اللہ اکبر اللہ اکبر
تیری حکمت سےبھرےاحمر اللہ اکبر اللہ اکبر
نورہلال سےپھیلے پیکر ازہر اللہ اکبر اللہ اکبر
عرش پہ پیوست مجسم امبر اللہ اکبر اللہ اکبر

روشن عطار / محمودالحق

Wednesday, June 23, 2010

الصَلواۃ خیر من النوم کا ہے پیغام بیدار ہو جا

5 comments
الصَلواۃ خیر من النوم کا ہے پیغام بیدار ہو جا
نفس کو کاٹ شکمِ فقر سے صوم کی تلوار ہو جا

کھول دے بند در اونگھ تو ذرا آنے دے
کھلی آنکھوں سے دیدار نہ ہو تو اشکبار ہو جا

میرا درد تو ہے میرے جینے کی دعا
نہ پہنچے تجھ تک منزل کے نشان انتظار ہو جا

یونہی تو نہیں اک قطرہ کو سمو کر بنایا موتی
دے اپنے قلب کو حدتِ ایمان ہیرے کی دھار ہو جا

مت پلٹ کر دیکھ جب منزل ہو قریب
ہر رغبتِ کون و مکاں سے تْو انکار ہو جا

رات کی چاندنی اور سحرِ صبا ہیں صیادِ گردش ایام
بھڑکا اپنی آتشِ ایماں کو اور اْس پار ہو جا

موسل بار / محمودالحق

Tuesday, June 22, 2010

سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی

5 comments
کل کی بات ہے" جب آتش جوان تھا" کا مصرعہ ہماری بھی زبان پہ رہا کرتا تھا ۔ آتش کی جوانی محاورۃ استعمال کی ہے ۔ وگرنہ یہ تو آگ تھی جو حیوانی رنگ رکھتی ہے ۔اور کل سے مراد بھی چند روز پہلے کا ذکر نہیں کر رہا ہوں ۔ کیونکہ اگر پچیس تیس سال لکھ دیتا تو کہا جاتا پرانی بات ہے ۔ رات گئی بات گئی ۔اگر دن پچیس سال پرانا ہو تو بات پھر بھی رہ جائے گی ۔باتوں باتوں میں یہ بتانا تو بھول گئے کہ عنوان میں ایک مصرعہ کا کیا کام دوسرے مصرعہ کے بنا تو تحریر نا مکمل رہے گی ۔چلیں پہلے اسے مکمل کرتے ہیں ۔
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہو کر

بات مختصر اور قصہ شروع کرتے ہیں ۔قصہ سنانے والے داستان گو تو ہیں نہیں ۔جو ایک دفعہ کا ذکر ہے سے ایک کہانی بیان کریں ۔بات تو شروع ہوئی تھی آتش سے جو بات بے بات بھڑک اٹھتا ۔جب یہ ارادہ ہی کر لیا کہ پانی سر سے بھی گزر جائے غصہ میں ڈوبے گے نہیں ۔سو غوطے کھا کھا کر تیرنا سیکھ ہی لیا ۔
ایک بار جو ٹرین کا فسٹ کلاس کا ٹکٹ ہاتھ میں اور بیٹھے سیکنڈ کلاس میں اور وہ بھی کسی کی مہربانی سے اس کی برتھ پہ تو پسینہ ماتھے سے بہنے نہیں دیا ۔ٹکٹ چیکر نے جب ہمیں غلط جگہہ بیٹھے پایا تو قبضہ ختم کرنے کا حکم صادر فرما دیا ۔ جلے بھنے تو پہلے ہی بیٹھے تھے ۔ اس سے پہلے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ۔کمپارٹمنٹ کے ہمدرد بھڑک اٹھے ۔کہ پہلے ہی جناب سیکنڈ کلاس میں چھت پر لٹکے ہیں ۔ اب یہاں سے کہاں پہنچاؤ گے ۔اس دوران ہم مونگ پھلی اور چلغوزے بے دھڑک چھیلتے رہے ۔
بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی جب روزانہ ہی ملازمت میں ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر پلے پڑ جائے اور وہ بھی ویگن کا جہاں داخلہ تو انسانوں کا ہوتا ہے ۔مگر بیٹھنا بھیڑ بکریوں جیسا ۔اتنے کم پیسوں میں تو ایسی ٹرانسپورٹ ہی نعمت ہوتی ہے ۔
خواہشیں تو ایسی ایسی تھیں کہ یار لوگ کہہ دیتے"نہ نو من تیل ہو اور نہ رادھا ناچے "اگر تیل پورا بھی ہو جاتا تو ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والی ضرب المثل رہ جاتی ۔ مگر بچنے کی امید پھر بھی کم ہی رہتی ہے ۔انگلیوں پر نچانے والے فنکارانہ صلاحیتیں بروئے کار لے آتے ہیں ۔ایک ہماری انگلیاں ہیں جہاں شعلہ سلگتا تو انگلیاں ناچتی ہیں ۔بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ذکر تو ویگن کے سفر کا ہو رہا تھا ۔شدید سردی ، بند شیشے ہوں اور انگلیوں میں سگریٹ ناچے تو دھوئیں کے بادل ای این ٹی یعنی آنکھ ناک گلا کو دعوت تکلیف دیتے ہیں ۔آتش کو ہلکی آنچ پہ رکھا اور شعلہ بجھانے کی ترغیب دے ڈالی ۔مگر ہماری تجویز ذاتی عنادقرار دے دی گئی ۔کہ پوری وین میں اکیلے ہم ہی ای این ٹی کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی شکائت کر رہے ہیں ۔دوسرے مسافر" سفر خاموشی سے کریں "کے کلیہ پر عمل پیرا تھے ۔صبر کا دامن ہم نے ہاتھ سے پھر بھی نہ جانے دیا ۔اس سے پہلے کہ کہیں آتش بھڑک اٹھے ۔ ماچس جلا کر اپنا سگریٹ سلگا لیا اور اپنے روزانہ کے ہمسفر دوست کو بھی اس نیکی کے کام میں شریک کر لیا ۔دھوئیں کی مقدار بڑھنے سے بند وین کے تمام مسافر ای این ٹی کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے ۔اور لگے کوسنے ۔اگر پہلے ہی ساتھ میں بول اٹھتے کہ " یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے " تو کھانسنے سے پہلے ہی معاملہ دب جاتا ۔لیکن پھر بھی" دیر آید درست آید"۔ اگلا سفر جناب ای این ٹی مریضوں کے زیر عتاب رہے ۔اور ہم ضمیر جگا کر یا غصہ دلا کر تیزی سے پاس گزرتے درختوں کے نظارہ کے مزے لوٹتے رہے ۔
مزے تو ہم پتنگیں لوٹنے میں بھی لیتے رہے ہیں ۔لیکن یہ تب کی بات ہے جب آتش نادان تھا ۔کٹی پتنگ اور خالی ویگن کے پیچھے بھاگنا کبھی بھی اچھا تجربہ نہیں رہا ۔تجربے تو اور بھی بہت سے ہیں ۔ ایک شعبہ سے آج کے لئے ایک ہی کافی ہے ۔
ہر سفر کا اپنا مزاج ہوتا ہے ۔سفر کاٹنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔جیسا کہ ہوائی جہاز کے سفر میں کھڑکی سے باہر جھانکنے سے سفر نہیں کٹتا ۔ اس لئے تو ایک نشست ایک سکرین اور ایک ہیڈ فون سے منسلک سفر کی صعوبت گھٹاتی ہے ۔اب اگر ہیڈ فون کی ایک پن ٹوٹ کر ایسی پھنسے کہ نئے ہیڈ فون کے داخلہ کا راستہ روک لے ۔ تو ائیر لائن کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے کیا ۔ جی ہاں وہی تو اپنی پی آئی اے کا ہم سفر ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا ہے ۔جانے ائیر ہوسٹس کون کون سےکچن کے اوزاروں سے پن نکالنے کی ناکام کوشش کر چکی تھی ۔ سارا جہاز ای این ٹی کے مزے لے رہا تھا یعنی کھاناپینا ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوائیں اور کانوں میں رس گھولتے گانے ۔یہاں ای سے مراد آنکھ نہیں کان لیا جائے ۔ اس بار بھی ایک نیا تجربہ کیا ۔ کیونکہ ویگنوں کے سفر میں گھٹنے درد کی شکایت سے روشناس ہوئے ۔ اب درد کے روگی تھے ۔ اکانومی کلاس پرانے زخم تازہ کرنے کا سبب ہوئی تو پی کلاس میں جا گھسے ۔بزنس کلاس نے ہمیں پہلے کبھی قریب نہ بھٹکنے دیا ۔ اب ہم خود قریب جانے سے کتراتے ہیں ۔یہ وقوعہ پی کلاس کا ہے جو اکانومی کلاس سے صرف اتنی بہتر رہی کہ کھانے سے پہلےگیلا گرم تولیہ استعمال کرنے کو دیا جاتا ہے ۔
"پلٹ تیرا دھیان کدھر" اگر آپ نہ بھی کہتے تو میں واپس وہیں آنے والا تھا ۔ جب پن نکالنے کی ہر کوشش ناکام ہو گئی تو پونے دن کے سفر میں مزید کوفت سے بچنے کے لئے سیٹ کی تبدیلی کا عندیہ دیا گیا ۔ارد گرد نظر دوڑائی تو اگے والی چار سیٹوں پر ایک خاتون پاؤں پھیلائے خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں ۔اور ہم سکرین پر نمودار ہونے والی تصویروں کی آواز سننے سے لاچار ۔بائیں جانب انہی خاتون کے شوہر نامدار ایک نشست پر خود اور ساتھ والی دو پر غیر ضروری سامان رکھ کر قبضہ ظاہر کر رہے تھے۔ جیسے بسوں میں اکثر سفر کرنے والے دیہاتی کھڑکی سے اپنا پرنا یعنی سافہ خالی نشست پر باہر سے ہی پھینک کر دھکم پیل سے بس کے اندر بعد میں داخل ہوتے اور قبضہ پہلے حاصل کر لیتے ۔وہاں لڑ جھگڑ کر قبضہ ختم ہوتے تو کئی بار دیکھ چکے تھے ۔ مگر یہاں واسطہ ایک پڑھے لکھے ریٹائرڈ افسر کے ساتھ پڑا جو سفید بالوں کے نیچے ٹائی کوٹ میں ملبوس اپنے دفتر میں ناک کے نچلے حصے سے فائلوں پر نظریں جمائے دستخط کرنے کا منظر پیش کر رہا تھا ۔
اب یہ کسی سرکاری افسر کا دفتر تو تھا نہیں ۔ سرکاری ائیر لائن ضرور تھی ۔ تو ہم بھی ایک عدد عینک کے ساتھ تیسری نشست پر جا براجمان ہوئے ۔ مگر ہیڈ فون کانوں میں لگانے سے پہلے ہی بھاری رعب دار آواز نے چونکا دیا ۔ کہ جناب آپ یہاں کیسے تشریف لائے ۔ اپنی نشست پر تشریف رکھیں ۔ دیکھتے نہیں ہم یہاں بیٹھے ہیں ۔
بڑی مشکل سے آتش کو سنبھالا دیا اور عرض پردازی میں آنے کی غرض بیان کی ۔مگر جناب نے ہمیں کھری کھری سنا کر اپنا قبضہ بحال کرا ہی لیا ۔اگر وہیں غصہ کا اظہار کرتے تو دیکھنے والے کہتے کہ بزرگ سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ان پڑھ اجڈ کہیں کا ۔ ہونٹوں کو دانتوں کے نیچے دبائے " بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے " گاتے ہوئے وہیں آ بیٹھے ۔پھر اس کے بعد آتش جو بڑھکا تو دیکھنے والوں نے ضرور کہا ہو گا ۔ کہ " گرا گدھے سے غصہ کمہار پر " والی بات ہے یہ تو ۔
پی آئی اے کے عملہ کو لائن حاضر کیا کہ جناب پہلی مرتبہ اکانومی سے پی کلاس سفر کا آغاز کر رہے ہیں جہاں ہم " ڈی گریڈ " ہو رہے ہیں ۔ہمیں تو اپنی نشست پر ہی ہیڈ فون لگانا ہے ۔ تو ایک کے بعد ایک اپنی تمام توانائیاں ضائع کر کے بھی ہماری ایک ادنی خواہش پوری نہ کر سکے ۔پوری ہوتی بھی کیسے ۔ دوسروں سے خوش اخلاقی سے پیش آنے والے اور خدمت سر انجام دینے والے نازک ہاتھ تو ملازمت کے حصول میں مشکل سے کامیاب ہوئے تھے ۔ اب مستری تو تھے نہیں کہ ٹھوک ٹھاک کر پن نکال دیتے ۔حالانکہ اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ ایک نہتی پن کے پیچھے سارا عملہ ہاتھ دھو کر پڑ گیا ۔ایک بزرگ ریٹائرڈ افسر کو ہی آنکھیں دکھا دیتے تو بات بن جاتی ۔
ہم نے بھی سیدھی انگلی سے گھی نکلتا نہ دیکھ کر اپنے تیور ٹیڑھے کر لئے ۔کہ پی آئی اے کے اعلی افسران تک اپنا مدعا پہنچائیں گے ۔ انصاف کے حصول تک پی آئی اے میں سفر کے بائیکاٹ کی دھمکی بھی دے ڈالی ۔جو کارگر ثابت ہوئی ۔اور ہمیں اپنی پسند کی نشست حاصل کرنے کا حق مل ہو گیا ۔ تو پھر کیا۔ ہاتھ آیا موقع کھو دیتے ۔ جہاں بزرگ کی بیگم لیٹ کر سہانے سپنے دیکھ رہی تھیں ۔ درمیان والی نشست پر انگلی رکھ دی ۔چار و نا چار بیگم خاوند کے پہلو میں بٹھا دی گئیں اور ہم چاروں نشستوں پر براجمان ہوئے ۔اس کے بعد میرے آتش کو ٹھنڈی پیپسی سے مسلسل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔
اگر بات یہیں پر ختم ہوتی تو ہیپی اینڈ ہوتا ۔مگر کہانی چند گھنٹوں کے بعدنئے رنگ میں ڈھل گئی ۔ وہی خاتون اٹھ کر میرے پاس آئیں اور اپنی کمر درد کا واسطہ دے کر اپنے خاوند کے ناروا رویے پر ندامت کا اظہار کیا تاکہ میں ان کی آرام دہ بستر نما نشستوں سے دستبردار ہو جاؤں ۔
ہم نے تعلیم سے دولت نہیں کمائی صرف شعور پایا ہے ۔ اگر دولت کما لیتے تو ریٹائرڈ افسر کی طرح شعور سے ہاتھ دھو بیٹھتے ۔ آخر کار ہم ان کی تکلیف کا اندازہ کرتے ہوئے اپنے حق سے دستبردار ہو گئے ۔ اور اسی جگہہ جا بیٹھے جہاں سے کبھی اٹھائے گئے تھے ۔لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ ساتھ بیٹھنے والا پہلے سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا ۔ اب بھیگی بلی بنا بیٹھا تھا ۔تعلقات میں کشیدگی کم ہونے پر دوران گفتگو معلوم ہوا ۔کہ وہ اپنے ڈاکٹر بیٹے سے ملنے ودیش یاترا جا رہے تھے ۔جو کسی بڑے ہسپتال میں بڑا ڈاکٹر تھا ۔
اس سفر کا تجربہ بہت اچھا رہا ۔ اس لئے نہیں کہ دوران سفر کیا ہوا ۔ بلکہ جو وی آی پی پروٹوکول عملہ کی طرف سے حاصل ہوا ۔اتنی پزیرائی تو کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ۔
کہانی کو یہیں ختم نہ سمجھیں یہ زندگی ہے جو چلتی رہتی ہے ۔دن اور رات کے درمیان میں اپنا سفر طے کرتی ہے ۔ یہاں بے شمار واقعات ایسے پیش آتے ہیں کہ انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہو کر

Sunday, June 20, 2010

حیات مغرب میں رکھا کیسا یہ جنوں مفہوم ہے

2 comments
حیات مغرب میں رکھا کیسا یہ جنوں مفہوم ہے
مشرق اپنے ہی گھر لٹکی تصویر مغموم ہے

تعبیر تعمیر میں تھا سرگرداں ایمان مسلمان تب بھی
بیتابی تب نہ تھی ہیجان خیز داستان فارس و روم ہے

امید گھر جلاتے اپنے ہی آتش شوق زماں میں
ہاتھوں میں رکھتے انگار خود تو مجسم موم ہے


باد اُمنگ  /  محمودالحق

گر ہوتا کچھ یہاں بھی ایسا

9 comments
سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں دھوئیں کے بغیر ، تیز چلتی ہوائیں دھول کی آمیزش کے بغیر ، عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کسی آواز کے بغیر ، جگہہ جگہہ کھڑے لوگ نہیں کسی قطار کے بغیر حیران کئے جاتے ہیں ۔ آگے بڑھنے کی تگ و دو میں دھکم پیل کے بغیر انسان کم مشین زیادہ دیکھائی دیتے ہیں ۔ جلد بازی کہیں چھوڑ چکے ہیں ۔ وقت کا استعمال سورج کے طلوع و غروب کی بجائے گھڑی کی سوئیوں سے کرتے ہیں ۔ وقت کی قدر اس لئے نہیں کرتے کہ ٹائم از منی ہے بلکہ اپنی حدود کا تعین رکھتے ہیں ۔ اور دوسروں کے حق کا ۔ وقت پر پہنچنے کی عادت وقت سے پہلےنکلنے پر مجبور رکھتی ہے ۔ پہلے آئیے پہلے پائیے اور پہلے نکلیں پہلے جائیں کے فارمولہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ انسانی سوچ کی رفتار جتنی تیز ہے کام کی رفتار اس سے بھی زیادہ۔

تنخواہ کا تعلق کام سے ہے ۔ بغیر کام کے گزارا بھی مشکل کر دیتا ہے ۔آنکھیں جو دیکھتی ہیں سوچتی وہ نہیں ۔ مہنگی گاڑی عمارت کی نشانی نہیں ہو سکتی ۔ وقت پر واجبات لوٹانے کی قیمت میں اُدھار کی نعمت سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔سیلوں کے مواقع ہاتھ دھو کر پیچھے پڑنے سے بچی کچھی جمع پونجی بھی ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ اچھے کریڈٹ کا ہونا گھر میں بیری کے درخت کی مانند پتھروں کو آنے سے نہیں روک سکتا ۔ترغیبات فائدہ کی کم، خرچ کہاں کریں، کے مشورے زیادہ ہوتے ہیں ۔ راڈو گھڑی ہو یا بی ایم ڈبلیو گاڑی اپنے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے ۔ دوسروں کی نظر میں کم ۔
دل میں چاہے کتنی ہی کدورتیں کیوں نہ ہوں ہونٹ دانتوں کو دیکھائے بنا ہی مسکرا دیتے ہیں ۔اپنا گھر شاہی دستر خوان ہو یا درویشی پکوان ذائقہ خود ہی چکھا جاتا ہے ۔ چولہے کی تو ہوا بھی باہر پھیکی نکلتی ہے ۔ذائقہ بنانے کے لئے خوشبو جلا جلا کر باہر نہیں نکلنے دی جاتی ۔کہ گھر کی بات گھر میں ہی رہے ۔ دوسروں تک پہنچنے سے باتیں گھر گھر پہنچیں گی۔ گرمیوں میں کھڑکیاں کھلی رکھیں یا بند ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ تاک جھانک کا خطرہ بالکل نہیں ۔ جھانکنے والا تو صرف چور ہی کہلا سکتا ہے ۔جو بند گھروں میں کھلی کھڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں ۔جو صرف شیشے کے آر پار سے روشنی کی طلبگار ہوتی ہیں ۔سریوں کی شکل میں باڈی گارڈ سے محروم رہتی ہیں ۔
گلی بازاروں سے گزرتے ہوئے لڑکیاں کھلی چلتی ہیں اور لڑکے ہاتھ بندھے ہوئے ۔ جہاں ہاتھ کھلے نہیں تو بندھے نہیں ۔آنکھیں اپنے راستے پر مرکوز رہیں تو ٹھیک ادھر اُدھر ٹکانے سے عقل بھی جلد ٹھکانے آ جاتی ہے ۔دن کا اُجالا ہو یا رات کا اندھیرا سفر غیر محفوظ نہیں ہوتا ۔محافظ کوؤں کی طرح شور مچاتے مدد کو پہنچ جاتے ہیں ۔کمیٹیاں ڈال کر بچے پڑھائے یا ڈولیاں اُٹھائی نہیں جاتی ۔دولت کی ریل پیل سے سونے کا چمچ تو منہ میں رکھا جا سکتا ہے مگر قابلیت اور ہونہاری کے مقام ارجمند پر فائز نہیں ۔ کاروبار کی وراثت تو ہے مگر وراثت میں سیاست نہیں ۔باپ کی فیکٹری میں بیٹا ملازم کے ساتھ ہو سکتا ہے مگر باپ کی کرسی پہ نہیں ۔
جانور پالنے کا شوق پورا کرنے کا پورا حق ہے ۔ مگر اسے سیر کرانے کی سزا بھی خود ہی پوری کرنی ہوتی ہے ۔ ایک ہاتھ میں کتا تو تو دوسرے ہاتھ میں ایک اخبار کا ٹکڑا اور پلاسٹک بیگ ۔صفائی نہ کرنے کی پاداش میں بھاری جرمانہ جیب پر بھاری ہو جاتا ہے ۔
پیدل چلنا صحت کے لئے اچھا خیال تو ہوتا ہے ۔ وہ بھی صرف مشینوں پر چاہے دوڑتے جائیں یا چلتے پھریں ۔سڑک پر چلنا ٹریفک کے لئے مشکل کا باعث بھی ہو جاتا ہے ۔ جب انسان تو انسان بڑی بطخ اپنے بچوں کوایک لائن میں اچھی گھاس کی تلاش میں سڑک پار کرا رہی ہو ۔ تو پہلا حق اس کا جو جتنا سست ہو ۔تیز چلنے والی پھر اپنی رفتار حاصل کر لے گی مگر پیدل وقت سے پیچھے رہ جائے گا ۔وقت کی قدر رفتار سے ہے کار سے نہیں ۔بے کار زیادہ تر گھروں کے اندر رہتے ہیں ۔ باہر نکلنے سے انہیں رفتار بڑھانی پڑے گی جو سست روی میں بڑی رکاوٹ ہوتی ہے ۔
ایمر جنسی نمبرز گھمانے کا انداز بیشتر جگہوں پر ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔ بھاگ دوڑ بھی ایک جیسی دیکھنے کو مل ہی جاتی ہے ۔مگر کہیں قانون کی عملداری ہے تو کہیں حاکم کی حکمداری ۔ تماشا دیکھنے والے اپنی راہ لیتے ہیں ۔ کیونکہ تماشا لگانے والے شام کے بعد تماشبین نہیں ہوتے ۔
شناختی کارڈ پر شناختی علامت کا خانہ گاڑی چلانے کی دلالت نہیں ہوتا ۔ پانچ سو کا جرمانہ سو میں نہیں ٹل سکتا ۔ جج کا نوجوان وکیل بیٹا کیس جیتنے میں دوسروں کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا ۔ معیار قابلیت ہے رشتہ کی اہلیت نہیں ۔ تھانیدار محلے کا پنچائتی نہیں ہوتا ۔ اعلی افسران کی طاقت بیرون دنیا میں بھی برابر نہیں ہوتی ۔ بلکہ گھر کی مرغی دال برابر تک ہے ۔
ووٹ قوم کی امانت سمجھا جاتا ہے ۔خاندانوں کی جاگیر نہیں ۔ جہاں نہ تو جانشنین ہیں اور نہ ہی گدی نشین ۔

Saturday, June 19, 2010

عشق نہیں محتاج کسی عہد و پیماں

0 comments
عشق نہیں محتاج کسی عہد و پیماں
مشک کے پھیلنے کو نہیں پابندیء گلستاں

جب آفتاب و مہتاب ہی نہیں کرتے تفریق ِزیاں
نہیں ہے کوئی خدا اور بندے کے درمیاں

کبھی تو ہے باغباں اور کبھی بیاباں
آدمی کو میسر نہیں کہ وہ ہے کیا انساں

تیر تو چلتے ہیں اپنی ہی کماں
بے جا اسراف لے لیتے ہیں جاں

تکلف برطرف جنبشِ نیناں
نہیں یہ طوطا کی مینا جانِ جاناں

خونِ آنسو اور خوابِ حقیقت کا بیاں
کیسے بدل جاتا ہے کمیں کا عزتِ جہاں

اسی کے ہیں یہ سب ارض و سماں
وہی ہے یہاں اور وہی ہے وہاں

تڑپ دکھا چاہت کو پانے کی جاوداں
اتر آئے گا تیرے لیے فرشِ آسماں

نہیں ہے یہ کسی لیلی مجنوں کی داستاں
یہ تو ہے سچے عاشق کی تعظیمِ محبوبِ بیاں

پانے اور لوٹ جانے کا ہے تجھے گماں
یہ کچھ بھی نہیں بہت آگے ہیں وہ جہاں

الف اقرا ہی سے میرا علم وجود مہرباں
تیری رضا ہی سے رنگیں صحرا و ریگستاں


موسل بار / محمودالحق

تفکرِ ایمان تنہائی شب میں بیتاب ہوا

3 comments
تفکرِ ایمان تنہائی شب میں بیتاب ہوا
ہزاروں سال جل جل کر تو آفتاب ہوا

کہیں آگ کے دریا کہیں روشنی کے مینار
آنکھ مچولی کھیل کھیل کر ہی تو مہتاب ہوا

وارفتگی نم سے ہی ایک دانہ کو بہار آئی
حدتِ قطرہ سے ابر اور قطرہ ہی دمِ آب ہوا



در دستک / موسل بار

Wednesday, June 9, 2010

زندگی ایک افسانہ

0 comments


زندگی ایک افسانہ حقیقت کھوج میں نہ جا
شاید پلٹ نہ سکے تو موج میں نہ جا
آخری تیر کو کمان میں نہ رکھ
گر چوک جائے تو مخروج میں نہ جا

گرتا جہاں سے بھی ہو بعث ملال ہے
جھکے پھل میں رہ شاخ عروج میں نہ جا

اشراف انسانیت کی تغیر فطرت میں رہ
خندہ جبینوں میں رہ فوج مفلوج میں نہ جا






روشن عطار / محمودالحق

بے خوابی کیفیت

4 comments

زندگی میں بہت سی باتیں سمجھ آنے کے باوجود سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں ۔ارد گرد کے ماحول اور حالات ہمیں مستقبل  کی پیش بندی کی تحریک پیدا کرتے ہیں ۔ ایسا مستقبل جو سنہرے خواب کی مانند ہوتا ہے ۔ مگر تعبیر ضروری نہیں کہ سنہری ہو ۔ہر دن کا آغاز  ایسی ہی سوچوں کی بنیاد سے ہوتا ہے ۔جو سورج ڈھلنے کے ساتھ  اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتا ہے ۔اور ہررات کا آغاز ویسا ہی پر سکون ہوتا ہے ۔ جیسا نیند کی آغوش میں جانے سے پہلے بستر پر دن بھر کا کسا بدن ڈھیلا ہوتے ہی سوچوں کے سمندر  سے غوطے کھانے کے بعد تکیے کے سہارے پر ختم ہوتا ہے ۔
ایک زندگی ایک ہی کام سے جس انجام کا سامنا کرتی ہے ۔دوسرے کو ویسے ہی کام کے آغاز کی ترغیب دیتی ہے ۔زندگی جینے اورزندگی گزارنے میں وہی فرق ہے جو جاگتے اور سوتے ہوئے انسان میں ہے ۔ سونے کو جاگنے سے کسی بھی  صورت  فوقیت اور اہمیت حاصل نہیں ۔جاگتے ہوئے سوچ میں تغیر و تبدل بس میں ہے مگر سوتے میں بس سے باہر ۔ بلکہ بعض اوقات ایسے حیرت انگیز اورناقابل یقین  خواب چلے آتے ہیں ۔جن کی یاد دن بھر کے جاگنے پر بھاری ہو جاتی ہے ۔اورحقیقی زندگی میں خوابی کیفیت ہیبت کا باعث ہوتی ہے ۔
کامیابی کا زینہ ہمیشہ اوپر کی طرف رخ رکھتا ہے ۔جہاں توانائی کا استعمال قدرے زیادہ اور خطرات  بھی کم نہیں ہوتے ۔ جنہیں منزل پر پہنچ کر سستاتے ہوئے پریشان ہوتے ہیں ۔وہ خطرات سے بچتے  رینگتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہوتے ہیں ۔ کھلے بادبانوں اور بہتے پانیوں کے رخ پہ چلتے ہوئے ۔
جنہیں زندگی میں جینا ہوتا ہے ۔ وہ تھپیڑوں کی پرواہ نہیں کرتے ۔ ہواؤں کا رخ  کوئی بھی ہو ۔پانی کا بہاؤ اور ٹھہراؤ سے گھبراتے نہیں ۔طاقت کے زور پہ زندگی کی ناؤ چلاتے ہیں ۔
ارد گرد پھیلے کھلے حالات و واقعات انسانی سوچ میں طلاطم پیدا کرتے ہیں ۔اور جنگلی گھوڑے کی طرح سرکشی بھی ۔جسے لگام ڈال کر تابع کیا جاتا ہے ۔سرکش مزاج  وفاداری میں بدل جاتا ہے ۔انسانی تخیل سے نکلتے افکار اظہار رائے کا شاہکار تو ہو سکتے ہیں۔ مگر زندگی کی سچائی نہیں ۔جہاں تابعداری تو ہے مگر وفا شعاری نہیں ۔
بلندیاں چھونے کے لئے پستیوں سے  سفر  کا آغاز کرنا ہوتا ہے ۔جہاں صعوبتوں کا سامنا       بھی رہتا ہے  ۔ شاہ و گدا پر مبنی معاشرتی کہانیاں  صدیوں سے لکھی،پڑھی اور سنائی جا رہیں ہیں ۔مگرسوچ بن کر وہی زندہ رہتے ہیں ۔ جو ناکامی کو قسمت کا کھیل سمجھ کر  ہتھیار نہیں ڈالتے ۔بلکہ بار بار کی کوشش سے آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ ایمان کا تعلق فتح   اور  شکست  سے ہمکنار ہونے میں نہیں ۔بلکہ  بار بار کوشش سے آگے بڑھنے میں ہے ۔جو دل برداشتہ ہو  کر رک جائیں  تو رکنا تقدیر نہیں ۔بلکہ فیصلہ  حق میں یا مخالف ہوناہے ۔
رک جانے کو جو زندگی کا تسلسل جانتے ہیں ۔جہد مسلسل سے نظریں چراتے ہیں ۔ خوش نصیب ہیں وہ جن تک اللہ کی رضا کامیابی کی صورت میں پہنچی ۔ کم عقل ہیں وہ  جو بار بار کوشش سے بھی رزق میں ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ مگر خواہشوں کو لگام نہ دے سکے ۔ جنہیں دیکھایا جاتا ہے انہیں سمجھایا جاتا ہے ۔جنہیں دیکھایا نہیں جاتا انہیں بہکایا بھی نہیں جاتا ۔رزق کی تلاش میں سرگرداں رہنے کا وقت ہوتا ہے ۔اور اسے وہیں تلاش کیا جاتا ہے جہاں سے ملنے کی امید ہوتی ہے ۔غروب آفتاب کے بعدتو  سب چھپا دیا جاتا ہے ۔
منزلیں وہیں ٹھہرائی جاتی ہیں  جہاں لنگر گرائے جاتے ہیں ۔فیصلوں کے وہ محتاج ہوتے ہیں جو فکر و شعور سے عاری ہوتے ہیں ۔


محمودالحق          

بے خوابی کیفیت

4 comments

زندگی میں بہت سی باتیں سمجھ آنے کے باوجود سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں ۔ارد گرد کے ماحول اور حالات ہمیں مستقبل  کی پیش بندی کی تحریک پیدا کرتے ہیں ۔ ایسا مستقبل جو سنہرے خواب کی مانند ہوتا ہے ۔ مگر تعبیر ضروری نہیں کہ سنہری ہو ۔ہر دن کا آغاز  ایسی ہی سوچوں کی بنیاد سے ہوتا ہے ۔جو سورج ڈھلنے کے ساتھ  اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتا ہے ۔اور ہررات کا آغاز ویسا ہی پر سکون ہوتا ہے ۔ جیسا نیند کی آغوش میں جانے سے پہلے بستر پر دن بھر کا کسا بدن ڈھیلا ہوتے ہی سوچوں کے سمندر  سے غوطے کھانے کے بعد تکیے کے سہارے پر ختم ہوتا ہے ۔
ایک زندگی ایک ہی کام سے جس انجام کا سامنا کرتی ہے ۔دوسرے کو ویسے ہی کام کے آغاز کی ترغیب دیتی ہے ۔زندگی جینے اورزندگی گزارنے میں وہی فرق ہے جو جاگتے اور سوتے ہوئے انسان میں ہے ۔ سونے کو جاگنے سے کسی بھی  صورت  فوقیت اور اہمیت حاصل نہیں ۔جاگتے ہوئے سوچ میں تغیر و تبدل بس میں ہے مگر سوتے میں بس سے باہر ۔ بلکہ بعض اوقات ایسے حیرت انگیز اورناقابل یقین  خواب چلے آتے ہیں ۔جن کی یاد دن بھر کے جاگنے پر بھاری ہو جاتی ہے ۔اورحقیقی زندگی میں خوابی کیفیت ہیبت کا باعث ہوتی ہے ۔
کامیابی کا زینہ ہمیشہ اوپر کی طرف رخ رکھتا ہے ۔جہاں توانائی کا استعمال قدرے زیادہ اور خطرات  بھی کم نہیں ہوتے ۔ جنہیں منزل پر پہنچ کر سستاتے ہوئے پریشان ہوتے ہیں ۔وہ خطرات سے بچتے  رینگتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہوتے ہیں ۔ کھلے بادبانوں اور بہتے پانیوں کے رخ پہ چلتے ہوئے ۔
جنہیں زندگی میں جینا ہوتا ہے ۔ وہ تھپیڑوں کی پرواہ نہیں کرتے ۔ ہواؤں کا رخ  کوئی بھی ہو ۔پانی کا بہاؤ اور ٹھہراؤ سے گھبراتے نہیں ۔طاقت کے زور پہ زندگی کی ناؤ چلاتے ہیں ۔
ارد گرد پھیلے کھلے حالات و واقعات انسانی سوچ میں طلاطم پیدا کرتے ہیں ۔اور جنگلی گھوڑے کی طرح سرکشی بھی ۔جسے لگام ڈال کر تابع کیا جاتا ہے ۔سرکش مزاج  وفاداری میں بدل جاتا ہے ۔انسانی تخیل سے نکلتے افکار اظہار رائے کا شاہکار تو ہو سکتے ہیں۔ مگر زندگی کی سچائی نہیں ۔جہاں تابعداری تو ہے مگر وفا شعاری نہیں ۔
بلندیاں چھونے کے لئے پستیوں سے  سفر  کا آغاز کرنا ہوتا ہے ۔جہاں صعوبتوں کا سامنا       بھی رہتا ہے  ۔ شاہ و گدا پر مبنی معاشرتی کہانیاں  صدیوں سے لکھی،پڑھی اور سنائی جا رہیں ہیں ۔مگرسوچ بن کر وہی زندہ رہتے ہیں ۔ جو ناکامی کو قسمت کا کھیل سمجھ کر  ہتھیار نہیں ڈالتے ۔بلکہ بار بار کی کوشش سے آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ ایمان کا تعلق فتح   اور  شکست  سے ہمکنار ہونے میں نہیں ۔بلکہ  بار بار کوشش سے آگے بڑھنے میں ہے ۔جو دل برداشتہ ہو  کر رک جائیں  تو رکنا تقدیر نہیں ۔بلکہ فیصلہ  حق میں یا مخالف ہوناہے ۔
رک جانے کو جو زندگی کا تسلسل جانتے ہیں ۔جہد مسلسل سے نظریں چراتے ہیں ۔ خوش نصیب ہیں وہ جن تک اللہ کی رضا کامیابی کی صورت میں پہنچی ۔ کم عقل ہیں وہ  جو بار بار کوشش سے بھی رزق میں ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ مگر خواہشوں کو لگام نہ دے سکے ۔ جنہیں دیکھایا جاتا ہے انہیں سمجھایا جاتا ہے ۔جنہیں دیکھایا نہیں جاتا انہیں بہکایا بھی نہیں جاتا ۔رزق کی تلاش میں سرگرداں رہنے کا وقت ہوتا ہے ۔اور اسے وہیں تلاش کیا جاتا ہے جہاں سے ملنے کی امید ہوتی ہے ۔غروب آفتاب کے بعدتو  سب چھپا دیا جاتا ہے ۔
منزلیں وہیں ٹھہرائی جاتی ہیں  جہاں لنگر گرائے جاتے ہیں ۔فیصلوں کے وہ محتاج ہوتے ہیں جو فکر و شعور سے عاری ہوتے ہیں ۔


محمودالحق          

Saturday, June 5, 2010

ضیافت سے سیاست تک

0 comments
ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دعائیں دینے والے اب جھولی پھیلا کر کہیں بد دعائیں ہی نہ دینا شروع کر دیں ۔کراچی کے مکین تو دعائیں صرف دل سے مانگ رہے ہیں ۔ اللہ کرے ان کے سروں سے یہ بلا ٹل جائے ۔ تاکہ جن ہاتھوں سے دعائیں مانگنی تھی وہ زندگی کے جینے کےاسباب اکٹھے کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔ ملک کا قومی بجٹ بھی پیش کر دیا گیا جس کے لئے وزارت خزانہ کئی مہینوں سے سر گرم عمل تھی ۔ مگر اہم مسئلہ بجٹ پیش کرنے والے سے متعلق زیادہ اہم تھا ۔ جسے چند گھنٹے پہلے ہی اس کام کے لئے چنا گیا ۔ چلیں یہ تو کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔ اگر ایک سال پہلے چنا جاتا تب بھی یہی کام کرنا تھا ۔یعنی پہلے سے لکھا عینک لگا کر پڑھنا ۔ ملازمین کی تنخواہوں میں پچاس فیصد اضافہ تک تو بجٹ سمجھ میں آگیا ۔ اب تو اکنامکس والے ہی اسے قوم کے لئے اچھا یا برا کا سرٹیفیکٹ جاری کر سکتے ہیں ۔جب سے ہوش سنبھالی ہے بجٹ در بجٹ پیش در پیش آ چکے ہیں ۔ بجٹ کا معاملہ بھی اچانک لگنے والی چوٹ کی مثل ہے ۔
گرم گرم تکلیف
نہیں دیتا ، جوں جوں ٹھنڈا ہوتا جاتا ہے تکلیف بڑھتی جاتی ہیں ۔

کم از کم میرا تو یہی تجربہ ہے ۔دن بدن بڑھتی مہنگائی عوام کی دگرگوں حالت زار کو مزید زخم سہلائی کرتی ہے ۔بے چارے عوام نعروں سے شروع ہوتے ہیں فاقوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔لیکن مستقل مزاجی میں فرق نہیں آتا ۔تم نشتر آزماؤ ہم جگر آزماتے ہیں کے عزم سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ۔
حکومتی ارکان بہت خوش ہیں کہ متوازن بجٹ سے غریب عوام کے دل جیت لئے ۔ مگر اتنی جلدی نتیجہ کیسے نکال لیا گیا ۔ شائد کاغذ وں میں جمع تفریق سے دل جیتا گیا ہے ۔
جیت تو اصل میں وزیراعظم صاحب کی ہوئی ہے کہ ان کے بھائی بھی اب برسر روزگار ہو گئے ہیں ۔جی ہاں آج وہ بھی پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہو اگر شریف برادران کی طرح چھوٹے بھائی پنجاب کے وزیر اعلی منتخب ہو جائیں ۔نہ بھی ہوں مگر امید تو پیدا ہو گئی ہے ۔اگر پنجاب نے چوں چرا کی تو دو بھائی دو بھائیوں کا ریکارڑ بھی توڑ سکتے ہیں ۔
عوام کے دل جیت لئے گئے ۔ ضیافتوں کا اہتمام ہو گا ۔ جی جو کھانا پہلے عوام نے کھایا وہ دیگوں میں پکایا تو ہاتھوں سے کھایا گیا ۔اب اتنی خوشیاں ایک ساتھ ملنے پر بڑے بھائی بھی مبارکباد دینے میں پیچھے نہیں رہیں گے ۔ملک کے بہترین شیف کھانا بنائیں گے تو بہترین ویٹر خوب انداز شان سے پیش کریں گے ۔قوم کو جو دے دیا گیا اسی پہ اکتفا کریں ۔ اگر نہ بھی کریں تو کیا کر لیں گے ۔ اسی تنخواہ ہی میں کام کرنے کی مجبوری تو رہے گی ۔ یہ ضیافت اور سیاست کا کھیل ہے ۔جہاں کھلانے والےہی کو ملتا ہے ۔ پارٹیاں بدلنے سے کچھ نہیں ملتا پارٹیاں دینے سے سب بدل جاتا ہے ۔چائے کے کپ پہ تو صرف بزنس ہی کیا جا سکتا ہے ۔ سیاست نہیں ۔

Friday, June 4, 2010

پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ

5 comments
درختوں کا زیادہ سے زیادہ لگانا انسانی زندگی کے لئے مفید سمجھا جاتا ہے ۔کیونکہ آکسیجن پیدا کرنے کا سب سے بڑا قدرتی ذریعہ درخت ہی ہیں ۔زندہ رہنے کے لئے صاف آب و ہوا کا ہونا ضروری ہے ۔ سائنس بہت پہلے ہی بتا چکی ہے ۔مگر اب حکومت پنجاب کی طرف سے محکمہ جنگلات نے بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔

ہمارےملک میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد نو جوان نسل کے لئے اہم مسئلہ زندہ رہنے کے لئے برسرروزگار ہونا ہے ۔آفت زدہ انتظام حکومت سے لے کر آلودہ آب وہوا تک انسان معاشی و معاشرتی ناہمواریوں کا شکار رہتا ہے ۔آفت زدگی ٹھیک کرنے کی طرف ابھی تک توجہ نہیں ہے ۔ البتہ آلودگی کے خاتمہ کے لئے ایک اچھا پروگرام تشکیل دیا گیا ہے ۔
پنجاب کے بے روزگارزرعی، ویٹرنری اور فارسٹری گریجوایٹس کو پچیس ایکڑ اراضی جنگلات لگانے کے لئےآلاٹ کی جائے گی ۔ تاکہ وہ وہاں پودوں کی شجرکاری کریں ۔ تناور درخت بننے تک آلودگی سے پاک آب و ہوا میں زندہ رہیں ۔پھر انہیں کاٹ کر بھوک مٹانے کے لئے ایندھن کے طور پر استعمال میں لا سکیں ۔صرف ایندھن سے بھوک تو نہیں مٹائی جا سکتی تو ظاہر ہے ان میں سے بیشتر فروخت کئے جائیں گے۔ تاکہ سبزی ترکاری کا بھی انتظام کیا جا سکے ۔ آئیڈیا تو برا نہیں ہے ۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے فارمولہ کو ذہن میں رکھ کر پروگرام تشکیل دیا گیا ہے ۔
اب اگر کسی کو ہماری مدد کی ضرورت ہو تو بلا معاوضہ حاضر ہیں ۔ کیونکہ اٹھارہ سال پہلے بے روزگاری کے خاتمے کے لئے بھی کچھ ایسا ہی پروگرام اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیا تھا ۔ بیس ہزار کے قریب سفیدہ ، پاپولر اور سمبل لگانے کا شرف حاصل ہوا مگر چند سو سے زیادہ تنا ور درخت نہ بن پائے ۔ دس سال پال پوس کر جوان کیا ۔ بیچنے پر جو رقم ہاتھ لگی اتنی نا کافی تھی کہ بےروزگاری تو ختم نہیں ہوئی البتہ ہاتھ کھلا ہو گیا ۔
جیسا کہ اس سے پہلے بھی سرکاری سطح پربے روزگاری ختم کرنے کے لئے پیلی ٹیکسی کے پروگرام کو حتمی شکل دی گئی تھی ۔ ملک کا کروڑوں کا زر مبادلہ خرچ کرنے کے بعد بھی وہ ٹیکسی کہیں دیکھائی نہیں دیتی ہیں ۔ میری طرح بہت سے لوگ ایسے بےروزگاروں کو جانتے ہوں گے ۔ جنہوں نے مرسڈیز ٹیکسیاں گھروں میں چولہا جلانے کے لئے ایندھن بھر کر سڑکوں پر دن رات چلائی ہوں گی ۔ اور آج بھی وہ ٹیکسیاں پیلے رنگ میں ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ مسافروں کو لا نے لےجانے میں بھاگ رہیں ہوں گی ۔مگر ایسا دیکھنے میں نہیں آتا ۔ صرف ایل پی ٹی کی نمبر پلیٹ چغلی کرتی ہے کہ بے روزگاری کا مسئلہ حل ہو چکا ہے ۔انہیں مزید محنت کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔
بے روزگاری ختم کرنے کا پروگرام آغاز کرنے کے بعد حکومت اپنے فرض منصبی سے فارغ ہو چکی ۔حکومتی کارکردگی سے صرف کبوتر کی طرح آنکھ بند کر کے مسائل کی بلی سے اوجھل رکھنے کی ہر دور میں کوشش کی جاتی ہے ۔مسائل کی بلی سبز باغ دیکھ دیکھ کر موٹا ہونے والے عوامی اُمنگوں کے کبوتر ہڑپ کر کے موٹی ہو چکی ہے ۔جسے تھیلے میں ڈال کر بار بار باہر پھینکا جاتا ہے۔ مگر ہر بار وہ لوٹ کر واپس آ جاتی ہے ۔جسے دیکھتے ہی اُمنگ و آرزو کے کبوتر آنکھیں موندھ لیتے تھے ۔ اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔کیونکہ اُمنگیں آ بیل مجھے مار کی بجائے آ بلی مجھے کھا کے فارمولہ پر عمل پیرا ہو چکی ہیں ۔
سیاسی داؤ پیچ اس انداز میں استعمال کئے جاتے ہیں کہ مسائل کی جڑیں تو وہیں رہتی ہیں ۔ مگر توجہ اصل موضوع سے ہٹا دی جاتی ہے ۔ جیسے بجلی کی آنکھ مچولی کو پانی کی بندش اور دریاؤں میں پانی کے کم بہاؤ کا نتیجہ قرار دے دیا جاتا ہے ۔مگر چالیس سال سے کالا باغ ڈیم سرد خانے میں پڑا ہے ۔ جو صرف بحث کی فائلوں سے مکمل کیا گیا ہے ۔ وہ کیا وجوہات ہیں کہ چند ہزار افراد کے حق کی آواز بلند کر کےاٹھارہ کروڑ عوام پر لوڈ شیڈنگ اور بھاری بلوں کی بجلی گرا دی جاتی ہے ۔ لیکن ابھی تک کسی بھی خفیہ ہاتھ یا بیرونی مداخلت کا ا لزام کسی کے سر نہیں لگایا گیا ۔
انتظام مملکت چلانے کے لئے سیاسی شکاریوں پر تکیہ کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ اٹھارہ کروڑ عوام کی بھلائی و بہتر مستقبل کے لئے کسی بھی طرح کا کوئی ایسا ادارہ جو تھنک ٹینک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ سرے سے اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔جو حکومتیں اپنے پانچ سال کی مقررہ مدت معیاد کو پورا کرنے کے لئے پر اُمید نہیں ہوتیں ۔ وہ کیا پچاس سالہ پروگرام تشکیل دے پائیں گی ۔یہاں تو پانچ نکاتی پروگرام ، پیپلز پروگرام اور تعمیر وطن جیسے ہی پروگرام فائلوں کی زینت بنتے ہیں ۔ جن کے نام سے ملک کی ترقی چاہے نہ نظر آئے مگر سڑک پر لگے کتبہ پر لکھے پروگرام سے سیاسی پارٹی کا نام معلوم ہو جاتا ہے ۔نالے کا پل ہو، محلے میں بچوں کے کھیلنے کاپارک ہو یا محلے کا ٹیوب ویل تعمیر کرنے پر ایم این اے کا نام کتبہ کی زینت بنتا ہے ۔
بچے جب ضد کریں یا انہیں منانا ہو تو ایک عدد لالی پاپ وہ کام کر جاتی ہے ۔ جو ماں باپ بہن بھائی لاکھ محبت سے نہ کر پائیں ۔ جب الیکشن کے دن قریب آتے ہیں تو دھڑا دھڑ سڑکوں پر پیچ ورک شروع ہو جاتا ہے ۔ جنگلے پینٹ قبرستانوں کی چار دیواری کی تعمیر ریت سے شروع ہو جاتی ہے ۔ جو کچھ عرصہ بعد پھر وہی ریت رہ جاتی ہے اور اینٹیں ، جنگلے غائب ۔
ہمیں صرف ایک ہی سبق بار بار دیا جاتا ہے کہ
پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ


محمودالحق

Wednesday, June 2, 2010

کھونے کا خوف یا پانے کی لذت

0 comments
تحریر : محمودالحق

جب تک خواہشیں جنون نہ بن جائیں زندگی ادھورے پن کا شکار رہتی ہے ۔ارادے تبھی قابل عمل ہوتے ہیں جب شکار کے لئے حالات ساز گار ہوتے ہیں ۔نظر کا نشانہ شکار پہ ہو اور عمل کا تیر عقل دانش کی کمان سے نکلے تو پگڈنڈیوں کی چھپن چھپائی سے منزل گھائل ہونے سے نہیں بچ پاتیں ۔محبتِ مقصد سوچ کے ترازو کی بجائے قلب کے وزنِ باٹ پہ ہو تو انتظار میں ایک عمر بھی شائد بیت جائے مگر حصول کی ضمانت ہمیشہ رہتی ہے ۔
دولت کی خواہش میں محبت کی قربانی دینے سے آسائشیں آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ مگر پھر محبت کی صرف خواہش باقی رہ جاتی ہے ۔ جسے سہولت و آسائش سے بدلا جاتا ہے ۔لیکن وہ نعم البدل نہیں ہوتا ۔احساس ندامت پشیمان رکھتا ہے تا وقتکہ اس کا مداوا نہ کیا جائے ۔تخیل ارمان سے جو حاصل کیا جائے وہ مداوا کا محتاج ہوتا ہے مگر جو احساس کے جزبہ سے بےوفائی کا مرتکب ہو وہ لا علاج مرض کی طرح ناقابل علاج رہتا ہے ۔ایسی صورت میں مداوا کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے ۔

احساس محبت کو پا کر خواہش آسائش سے عارضی طور پر محروم رہا جا سکتا ہے مگر زندگی کے کسی بھی موڑ پہ اگر ایک سے نہ سہی کسی دوسرے کے توسط سے جلد یا بدیر خواہشیں عملی جامہ پہن لیتی ہیں ۔محبت کے رشتے عقل وشعور کی بجائے احساس قلب سے بندھتے ہیں ۔جو کسی بھی بیرونی اثرات کے دباؤ سے لا تعلق ہوتے ہیں ۔اپنی ذات میں وہ مکمل ہوتے ہیں ۔کسی کے پیچھے رہنے سے اپنے راستوں کا تعین نہیں کرتے ۔بلکہ وہ خود منزل تک پہنچنے کے راستوں کو روشن رکھتے ہیں ۔
محبت تو صرف ایک جزبہ ہے جسے حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔اور اس میں کمی نہیں ہوتی ۔لیکن مال ودولت ، زیبائش و آرائش حاصل ہونے کے بعد بھی تشنگی بڑھتی رہتی ہے ۔جو شے کبھی بھی کسی وقت کسی سے بھی حاصل کی جا سکے وہ سوچ پہ اتنی بھاری ہو جائے کہ قلب کے محسوسات کو زیر کر لے تو ایسی کامیابی نا مکمل رہتی ہے ۔
ایک وقت کے بعد قلب کی دھڑکنیں یاد کے ساز سے ترنم دیتی ہیں ۔جو احساس ندامت میں گھلنے کا عمل تیز کر دیتی ہیں ۔تنہائیاں اچھی لگتی ہے اور ہنگامہ خیز خوشیاں ہنگامہ بن جاتی ہیں ۔سکون کے لئے کمرے کا کونہ ہی تسکین کا مرکز رہ جاتا ہے ۔جہاں پل دو پل کے لئے ماضی کی یادیں قلب میں احساس کے لمس کو محسوس کرتی ہیں ۔چند پل ہی زندگی پہ بھاری ہو جاتے ہیں ۔زندگی کی ترجیحات تو بدلتی رہتی ہیں مگر قلب کی محبتیں جہاں رک جائیں آگے بڑھنے میں زور کی بجائے صبر و شکر کی محتاج ہو جاتی ہیں ۔جنہیں جب چاہا روک لیا جب چاہا چھوڑ دیا کی آساس پر مرضی و منشاء کے تابع نہیں کیا جا سکتا ۔
مال و دولت کی ہوس میں محبت کی قربانی دینے کا رواج زور پکڑ چکا ہے ۔قلب کے رشتے نفع و نقصان کے ترازو پہ نہیں رکھے جا سکتے ۔قلب جسے چاہتا ہے اور جس سے چاہا جاتا ہے ۔اس تعلق کو بھی عقل کی کسوٹی پہ رکھا جاتا ہے کہ فائدہ کہاں اور کتنا ہے ۔بظاہر ایسے معاملات فائدہ یا نقصان کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں ۔انہیں چھوڑ کر کمزوری چھپائی نہیں جا سکتی ۔طاقت بڑھائی نہیں جا سکتی ۔خود میں خوشیوں کی شہنائیاں محو رقص رہتی ہیں ۔مگر شادیانے زیادہ دیر اپنا جادو نہیں دکھا پاتے ۔سال ہا سال کی پیش بندیاں پل بھر میں ریت کے گھروندے کی مثل اپنا گھر بناتی اور گرا دیتی ہیں ۔ایسی کامیابیاں خشک ریت کی مانند مٹھی میں تو چلی آتی ہیں مگر گرفت بڑھانے سے پھسلتی چلی جاتی ہیں ۔ اور ہاتھ خالی کا خالی رہتا ہے ۔
نفع و نقصان یا جزا و سزا کی بنیاد پر جو راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔وہ ہر وقت خوف میں مبتلا رکھتا ہے ۔ جو محبت کی بنیاد پہ اختیار کیا جائے وہ تسکین و چاہت کا مرکب ہوتا ہے ۔جو سکون کی تلاش میں سرگرداں نہیں بلکہ اس کا مرکز ہوتا ہے ۔قلب ِمحبت تکلیف کےاحساس کو کم کرتا ہے ۔ دنیاوی محبت کمی آنے پہ اس احساس کو بڑھاتی ہے ۔
ایک حقیقت سو افسانے تو کئی بار لکھے جا چکے ہیں ۔جو کردار میں افسانوی حیثیت اختیار کئے رکھتے ہیں ۔کبھی وہ جیت جاتے ہیں تو کبھی بازی ہار جاتے ہیں ۔
ایک محبت میں سو بہانے بھی ہوں مگر کردار حقیقت کا رنگ بھرے ہوتے ہیں ۔محبت کرنا جب کھونے کی آساس پہ ہو تو پانا ملزوم ہو جاتا ہے ۔محبت کو سمجھنے میں کمی اس لئے ہے کہ عشق حقیقی ہو یا محبت مجازی پڑھنے کا انداز افسانوی رہتا ہے ۔عقل کی کسوٹی پہ سوچ کے ترازو سے اسےگھٹایا بڑھایا جا تا ہے ۔ پا لیا یا کھو دیا پہ انجام رکھ دیا جاتا ہے ۔جس کا اختتام لازم ہے ۔
جس محبت کا نقطہ آغاز یہ جہاں ہو اور اختتام وہ جہاں ۔ وہ کھونے کے خوف پہ نہیں پانے کی لذت سے ہمکنار رہتا ہے ۔