Monday, December 30, 2019

ہم کون ہیں کیوں ہیں اور کیا ہیں ؟

3 comments
سوال یہ ھے کہ ھم جب تنہا ھوتے ھیں ذات کو ٹٹولتے ھیں بہت اندھیرا ھے بہت زیادہ اندھیرا کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ھم کون ھیں کیوں ھیں اور کیا ھیں لیکن کبھی کبھی یہ لگتا ھے کہ ھم ھی ھم ھیں اور کوئی بھی نہیں جو ھم سا ھو یہ الجھن ھے یاسوال ؟

سوال (مسلم آفتاب)



ہر انسان دنیا میں دو آنکھوں ، دو ہاتھوں ، دو پاؤں ، حتی کہ دماغ کے دو حصوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ہمارا وجود ایک اور دو کی مناسبت سے سفر زیست طے کرتا ہے۔انسان اپنے رویے میں بھی ہاں ناں ، خیر و شر، سچ و جھوٹ، حتی کہ جنت و جہنم کےدرمیان رسہ کسی میں مصروف عمل رہتا ہے۔انسان سب سے طاقتور اور مضبوط ظاہر و باطن کی کشمکش سے بر سر پیکار رہتا ہے۔اور یہ ایک فطری عمل ہے اس میں الجھن پیدا ہونا سوچ کی نا ہمواری کی غماز ہے۔ ہر زی روح کے اندر بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا ہونا فطری ہے۔ وہ ہمارے وجود کے لئے لازم ہیں۔اس لئے ہم اس سے لاپرواہ رہتے ہیں ۔ لیکن جب ان کا بیلنس بگڑجائے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔یہی حال ہماری ذات کے اندر ہونے یا نا ہونے کی فطری کشمکش میں جاری و ساری رہتاہے۔ہم اس کا حل جواز سے تلاش کرتے ہیں جو ہمیں سوال کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔میں کون ہوں ، کیا ہوں، اور کیوں ہوںجیسے سوالات ایسی پنیری ہے جسے کھاد وجود سے حاصل ہوتی ہے ۔ اور وجود صبح و شام کے معمولات سے تھکن سے چور رہتا ہے۔بچا کھچا ذہنی دباؤ سے کھچاؤ میں چلا جاتا ہے۔ تناور درخت بننے سے پہلے نو خیز پودوں کی کیاریوں سے گھاس پھونس الگ کی جا تی ہے۔ جنگلی جڑی بوٹیوں کو تلف کیا جاتا ہے تب وہ نو خیز پودا پھل دار یا خوشبو دار درخت بنتا ہے۔ انسان صرف سوچ کے بل بوتے پر تناور درخت بننے کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ حالانکہ ابتدائی نو خیزی میں شفافیت اور اکثیر کی طاقت حاصل کرنے کے لئے باہرسے اثر انداز ہونے والے باغی خیالات کا سدباب ضروری ہوتا ہے۔ زندگی کو کتاب کی طرح پڑھیں گے تو ابواب اور صفحات کی ترتیب ایک سے دو ، دس یا سو تک چلتی ہے۔مگر احسا س ایٹم کے زروں کی طرح وجود میں تباہی پھیلاتے ہیں۔جنہیں باہمی ربط سے ہی شانت رکھا جا سکتا ہے۔جب ضرورت پیش آئے تو استعمال میں لاؤ ورنہ خوداعتمادی کی طاقت بنا کر ذات کے کسی گوشےمیں محفوظ رکھو۔ جو بوقت ضرورت بیرونی حملہ آور سے بچاؤ کی تدبیر کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ باتیں تو بہت ہیں مگر بعض اوقات طوالت مفہوم کی وضاحت سے زیادہ الجھنیں پیدا کر دیتی ہے۔



جواب (محمودالحق)

ہم کون ہیں کیوں ہیں اور کیا ہیں ؟

0 comments
سوال یہ ھے کہ ھم جب تنہا ھوتے ھیں ذات کو ٹٹولتے ھیں بہت اندھیرا ھے بہت زیادہ اندھیرا کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آتا کہھم کون ھیں کیوں ھیں اور کیا ھیں لیکن کبھی کبھی یہ لگتا ھے کہ ھم ھی ھم ھیں اور کوئی بھی نہیں جو ھم سا ھو یہ الجھن ھے یاسوال ؟
سوال (مسلم آفتاب)

ہر انسان دنیا میں دو آنکھوں ، دو ہاتھوں ، دو پاؤں ، حتی کہ دماغ کے دو حصوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ہمارا وجود ایک اور دو کیمناسبت سے سفر زیست طے کرتا ہے۔انسان اپنے رویے میں بھی ہاں ناں ، خیر و شر، سچ و جھوٹ، حتی کہ جنت و جہنم کےدرمیان رسہ کسی میں مصروف عمل رہتا ہے۔انسان سب سے طاقتور اور مضبوط ظاہر و باطن کی کشمکش سے بر سر پیکار رہتا ہے۔اور یہ ایک فطری عمل ہے اس میں الجھن پیدا ہونا سوچ کی نا ہمواری کی غماز ہے۔ ہر زی روح کے اندر بیماریوں کے خلاف قوتمدافعت کا ہونا فطری ہے۔ وہ ہمارے وجود کے لئے لازم ہیں۔اس لئے ہم اس سے لاپرواہ رہتے ہیں ۔ لیکن جب ان کا بیلنس بگڑجائے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔یہی حال ہماری ذات کے اندر ہونے یا نا ہونے کی فطری کشمکش میں جاری و ساری رہتاہے۔ہم اس کا حل جواز سے تلاش کرتے ہیں جو ہمیں سوال کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔میں کون ہوں ، کیا ہوں، اور کیوں ہوںجیسے سوالات ایسی پنیری ہے جسے کھاد وجود سے حاصل ہوتی ہے ۔ اور وجود صبح و شام کے معمولات سے تھکن سے چور رہتا ہے۔بچا کھچا ذہنی دباؤ سے کھچاؤ میں چلا جاتا ہے۔ تناور درخت بننے سے پہلے نو خیز پودوں کی کیاریوں سے گھاس پھونس الگ کی جا تیہے۔ جنگلی جڑی بوٹیوں کو تلف کیا جاتا ہے تب وہ نو خیز پودا پھل دار یا خوشبو دار درخت بنتا ہے۔ انسان صرف سوچ کے بلبوتے پر تناور درخت بننے کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔ حالانکہ ابتدائی نو خیزی میں شفافیت اور اکثیر کی طاقت حاصل کرنے کے لئے باہرسے اثر انداز ہونے والے باغی خیالات کا سدباب ضروری ہوتا ہے۔ زندگی کو کتاب کی طرح پڑھیں گے تو ابواب اور صفحات کیترتیب ایک سے دو ، دس یا سو تک چلتی ہے۔مگر احسا س ایٹم کے زروں کی طرح وجود میں تباہی پھیلاتے ہیں۔جنہیں باہمی ربطسے ہی شانت رکھا جا سکتا ہے۔جب ضرورت پیش آئے تو استعمال میں لاؤ ورنہ خوداعتمادی کی طاقت بنا کر ذات کے کسی گوشےمیں محفوظ رکھو۔ جو بوقت ضرورت بیرونی حملہ آور سے بچاؤ کی تدبیر کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ باتیں تو بہت ہیں مگر بعض اوقاتطوالت مفہوم کی وضاحت سے زیادہ الجھنیں پیدا کر دیتی ہے۔

جواب (محمودالحق)