Wednesday, June 3, 2020

راہِ ہدایت

0 comments
پہلے انسانیت سسک رہی تھی اب انسان بلک رہا ہے۔ ایک مذاق تھا جو  سر چڑھ کر بولتا رہا۔ معاشرہ محبت  سے عاری  تو معاشرت میں سیاسی داد گیری ۔ جھوٹ اتنا کہ  دم نکل جائے مگر سچ زبان پر نہ آ سکے۔شہرت کے متلاشی ، دولت کے بھوکے،عزت کے طلبگار صرف خواہشوں کے دم پر۔ نہ کردار کے غازی اور نہ ہی  عہد کے پکے۔پاؤں سر پر رکھ کر بھاگنے سے پاؤں زمین سے تکبر سے اٹھنے تک کے مراحل میں عاجزی اور نہ ہی صبر ، شائستگی سے  محروم  آئینے جو حقیقت کیا دکھاتے جن کا  عکس بھی دھندلا ۔
نظام کائنات میں زرہ برابر بھی فرق نہیں روشنی کا پیچھا کرتے اندھیرے کے غالب آنے تک۔ پیغمبروں کو جھٹلانے والی قومیں کبھی بجلی کی کڑک سے ہلاک ہوئیں تو کبھی آسمان سے برستی آگ سے۔کسی پر پانی چڑھ دوڑا تو کوئی پانی میں خود جا کودا۔راہ ہدایت کو اتنا مقدس جان لیا کہ کھوجنا تو دور کی بات کھولنے سے ہی ہاتھ کھینچ لیا۔ صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں جسے سنایا جا سکے، جو عمل کا متقاضی ہے اسے ذاتی اختیار سمجھ کر فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔
کسی نے شملہ اونچا کر لیا تو کسی نے دستار کے پھیلاؤ بڑھا لئے۔اپنے راستے سیدھے نہ کئے ، دوسروں کے سامنے گڑھے ڈھونڈنے میں توانائیاں صرف کرنے میں دن رات ایک کر دئیے۔ دوسروں کے نقائص سے اپنی نجات کا راستہ تلاش کرنے والےطبیب مسیحا ئی  کے دعویدار زمانے کی ہمراہی میں خود ہی عالم روزگار بن گئے۔
اخلاق و اطوار ، کردار و گفتار  کے بغیر ایسی کشتی کی مانند ہے جو چپوؤں کے بغیر کھلے پانیوںمیں اپنی سمت کا تعین کرنے سے قاصر ہوتی ہے ، منزل تک پہنچنا تو بہت دور بات ہے۔یقین کرنے کے لئے ہمیشہ معجزات کے طلبگار، ہدایت یافتہ ہونے کے لئے آسمان سے فرشتے اترنے کے منتظر  ۔
بچے کے ہاتھ میں مغرب سے مشرق  تک پہنچنے والےمعمولی سے تحفہ کی دھوم اور دھاک کئی گھروں کے در ہلا کر رکھ دیتی ہے۔اپنا منہ لال کرنے کے لئے اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ کا ماتم کیا جاتا ہے۔قلب پر اترنے والے تحفے  انمول ان کے لئے جنہیں خالص اور نایاب کی قدردانی کا فن جو ہر شناسی حاصل ہوا۔جسے دیکھنے والے زیادہ ہوں وہاں دکھانے والے اپنا اپنا مال بیش قیمت بنانے کے لئے بڑھ بڑھ کر قیمت لگاتے ہیں۔ ذرائع آمدن بڑھانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگ جاتی ہےاورخرچ کے راستے روک لئے جاتے ہیں جو معاشرے میں مسابقت اور حکم سے مطابقت رکھتے ہوں۔
زخم بھر جاتا ہے ، تکلیف جاتی رہتی ہے، تکمیل کا عمل کبھی نہیں رکتا۔چھوٹ جانے کا خوف دنیا میں بے صبری اور ہیجان و بے چینی میں مبتلا رکھتا ہے۔اچھے دنوں کی آس کے سامنے برے دنوں کا خوف اتنا ہیبت ناک ہوتا ہے کہ  عارضی زندگی کے مقابلے میں دائمی زندگی  کے انجن کو پٹڑی سے اتار دیتا ہے۔  جس کے پیچھے اعمال کی بے شمار بوگیاں  منزل تک پہنچنے سے پہلے تباہ حالی کا شکار ہو جاتی ہیں۔اندھوں کے لئے روشنی کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہوتا ہے۔ قلب میں جن کے ہوس و حرص ، غرض و مفاد  کا زنگ بھرا ہو وہاں چھینٹوں سے داغ دھلنے زرا مشکل ہوتے ہیں۔فیصلے کی گھڑی ہو یا قیامت کے قرب کی نشانیاں  تیاری کے بغیر امتحان میں بیٹھنے کے لئے مچلنا  کچلنے کے مترادف ہے۔
اوراق مقدس تبھی ہوتے ہیں جب ان پر حروف مقدس لکھے ہوں۔ حروف وہی مقدس ہوتے ہیں جو اس کتاب کے ہوں جس میں کسی قسم  کاکوئی شک نہ ہو،  جس کے حرف حرف پہ سچائی لکھی ہو اور ایمان والوں کے  لئے راہ ہدایت  صرف وہی ہے۔

تحریر : محمودالحق



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔