Monday, June 15, 2020

اب اگر راستہ چھوٹ جائے تو شکوہ کیا

0 comments
اب اگر راستہ چھوٹ جائے تو شکوہ کیا
دنیا سے گر رشتہ ٹوٹ جائے تو شکوہ کیا

آستین میں چھپے ہاتھ کی آگہی بھی بیزاری ہے
دوچار قدم چل کے لوٹ جائے تو شکوہ کیا

جالے بنتی مکڑی کا ہے فریبِ مکاں
قلبِ نور سے نظر عقل مٹ جائے تو شکوہ کیا

شمع خود بھی ہے بجھتی پروانہ بھی جلاتی
مہک گل سے خود لپٹ جائے تو شکوہ کیا

دامنِ آرزو میں رہتی ہوا تو گرد و غبار ہے
حسرتوں سے غمِ بادل چھٹ جائے تو شکوہ کیا

بے بس دست و پا بے راہ مشکل التجا
احسان سے گر مقامِ اَنا مٹ جائے تو شکوہ کیا

تلاش میں ہے جن کی رزقِ اجرِ حنا
جسم روح سے الگ الگ بٹ جائے تو شکوہ کیا

ولی صوفی قلندر کیا نہیں ہیں انساں
متاعِ دنیا راستے سے خود ہٹ جائے تو شکوہ کیا

راستے جدا جدا پہنچے منزل ایک مقام
راستہ ہی میں سارا سفر کٹ جائے تو شکوہ کیا

آسان جن کو نظر آئیں منزلیں دشوار گزار
قدم پڑتے ہی گر نہ پلٹ جائے تو شکوہ کیا

بیتابیء قلب میں سماتی جسم و جان جائے
تہہء عملِ جہاں سے جو سلوٹ جائے تو شکوہ کیا

اب بھی ہے کوئی شکوہ ذاتِ منان سے
غفلت شب میں نیند سے کروٹ جائے تو شکوہ کیا

کلمہء تشکر میں گر ہو مقامِ اولیٰ محمود
پہاڑ کیا چاہے زمین پھٹ جائے تو شکوہ کیا

محمودالحق

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔