Thursday, January 5, 2012

ذرا سا خمیر اُٹھے

0 comments
متزلزل ایمان ،بچھڑا معبود تو کبھی تحریف کتاب
پالنا گروہی تو اب دکھائی دیتے ہیں استعجاب

کرنوں کی برسات ہے یہ مہتاب و آفتاب
رحمتوں کی سوغات ہے یہ جہانِ آب و تاب

نہیں رکھتا شہباز شوقِ ہما سرخاب
جینے کی جان نکال لیتی ہے اذیتِ خواب

دیتا ہے وہ چھپر پھاڑ کر بے حساب
شعور زمان سے اونچا ہے علم الکتاب

یقین محکم ہو تو ریگستان بھی ہو آب الباب
عقلِ خرد کو تو بہتی برستی دنیا بھی ہے سراب

عشقِ جنوں میں ہے دل بیقرار و بیتاب
ذرا سا خمیر اُٹھے تو ہے مے بھی آب

محمودالحق

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔