Monday, January 2, 2012

شبِ سیاہ پر پڑتی کرنوں سے

0 comments

شبِ سیاہ پر پڑتی کرنوں سے بنتے جاتے سائے ہیں
محبوب پر حقِ احسان کہ ہم تو اسکے ہمسائے ہیں

تمازتِ آفتاب بھی رکھتا باری رحمت کا اجمال ہے
ایک شاخِ پتے میں جذب اس کی قوتِ عطائے ہیں

مدفن خزینوں سے مہرباں حسنِ زن و زمین آراستہ
محبت میں ہیں سب مہمان نہیں کوئی بن بلائے ہیں

گرتے پانیوں سے پھیلتی روشنیوں تک کے فاصلے
شمعِ جہاں کے سب پروانے کچھ اپنے کچھ پرائے ہیں

بہت مشکل میں ہے انسان عالمِ جاودانی کے محور میں
بندھے ہوئے یہ سب جہاں روشنیوں کے سدھائے ہیں

کھینچی کاغذ کی لکیروں پر زائچہ بازیچہ، اطفال ہے
قوس و قزح کے رنگوں میں ذرّے سے ذرّے جمائے ہیں

خشکی ہوا پانی پر ہماری اختراعِ ایجاد ہیں
چلنے کے واسطے ایندھن بھی تو اسی کے بنائے ہیں



روشن عطار / محمودالحق

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔