Sunday, July 24, 2011

دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

0 comments
محبت ، خلوص ،رواداری سے اپنا بنانے کے لئے جو بھی عمل کیا جائے وہ انجام خیر سے بے خبر ہوتا ہے ۔ انسان دو آنکھوں سے زمانے بھر کو دیکھتا ہے ۔ کبھی دکھ سکھ میں آنسو تو کبھی غصہ میں آگ کی لالی سے پانی بہتا ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود ایک دو بار ہی آنکھیں دو آنکھوں سے چار ہوتیں ہیں ۔ جو سیدھا نشانہ دل پہ لیتی ہیں ۔ پھر عقل سے نظر کی تمام طنابیں چھوٹ کر دل کی دھڑکن سے جڑ جاتیں ہیں ۔ تمام رشتے ایک نظر کے سامنے ہیچ لگتے ہیں ۔ سوچ عقل کی سٹاک مارکیٹ دلاں دے سودے میں مندے کا شکار ہو جاتی ہے ۔
آسمان پہ چپکے سفید روئی کے گالوں کی طرح برسنا قسمت میں نہیں ، صرف ٹہلنا رہ جاتا ہے ۔ جو نہ تو دھوپ سے بچاتے ہیں اور نہ ہی پیاسی زمین کی پیاس بجھاتے ہیں ۔
آسمان سے باتیں کرتے جنگلی درختوں کی طرح اکڑے ثمرات سے بے فیض ہوتے ہیں ۔ اظہار محبت کے لئے تین لفظوں سے لے کر ایجاب و قبول کے درمیان اٹک جاتے ہیں ۔ زندگی کا یہ مختصر ترین عرصہ صدیوں سے چلتی معاشرتی قدروں کے سامنے بغاوت کا علم بلند کر دیتا ہے ۔ عزت کا جنازہ نکل جانے کا غم نہیں ۔ پانے کی خواہش اتنی شدت اختیار کر لیتی ہے ۔ کہ جیت کے نشہ سے بڑھ کر نشہ کی علت میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ بچپن ، لڑکپن کی یادیں احسان فراموشی کی شال اوڑھ لیتی ہیں ۔ میں کی عینک میں منزل مراد وحید ہو جاتی ہے ۔ کھلونوں کے بازار میں کھڑے بچے کی مانند جو صرف اپنی پسند پہ فریفتہ رہ جاتا ہے ۔ اوراگلی بار پھر کسی اور پسند پر ۔ ایک زمانہ کی پسند ایک زمانہ تک رہتی ہے ۔
حسرت کا یہ کوہ پیمائی سلسلہ خواہشوں کے انبار میں قوت خرید کی بنا پر ایک وقت میں ایک خواہش کی تکمیل کی تدپیر نہیں رکھتا ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔