کھلتا جو گلاب ہے جلتاپھر یہ زمان کیوں
گزرا ہر نشیدہ پل بہکاتا نیا شیطان کیوں
تجھے آنا مشکل نہیں جانا ہی پھر امتحان کیوں
جگر کا گرم لہو قلب ہی پھر ارمان کیوں
چبھتا نہیں خار بھی ، پھول پھر پشیمان کیوں
ڈرتا تاریکی سے چاندنی مجھ پہ مہربان کیوں
کٹتا رہا قلب تنہا ، میرا تن نادان کیوں
بیتابیء جاناں میں پٹخنا سر ہی آسان کیوں
چاہتے شب وروز مسیحائی کم پھر انسان کیوں
لکھتا لوح قلم پہ ، پڑھتے نہیں پھر قرآن کیوں
محمودالحق
خیال رست / در دستک
بلاگ کا کھوجی
موضوعات
آمدو رفت
21589
بلاگر حلقہ احباب
تازہ تحاریر
Pages
تبصرے
Tuesday, February 1, 2011
کھلتا جو گلاب ہے
Mahmood ul Haq
11:12 PM
0
comments


اس تحریر کو
،در دستک,
اردو کلام,
خیال رست ،اردو کلام
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔