Tuesday, February 1, 2011

اُٹھ نہیں پاتا جہاں میں بھاری لہو کیوں ہے

1 comments
اُٹھ نہیں پاتا جہاں میں بھاری لہو کیوں ہے
جوسمجھ ہی نہیں پاتا ایسی جستجو کیوں ہے

دشت ہو یا صحرا ، گلزار ہو یا ہو گلستان
بہلانے میں نہیں رنگ پھر ماہ نو کیوں ہے

دست میں رکھا دم ، پا سرِ خم کر دیا
قلب عشقِ امتحان ،عقل جامِ سبو کیوں ہے

بیان جو میرا نہیں مفہوم بھی تو تیرا نہیں
ڈستے مجھے اندھیرے پھیلایا آفتاب صبو کیوں ہے

اصلاحِ احوال نہیں رہتے جو دامان اِستاد ہو
پلک جھپکتی روشِ روشن قلب کسو کیوں ہے

زلفِ نار سے جھولتے ، مے خراب سے مستی نہیں
محبتوں کے رنگ ہیں تیرا فراق ہجو کیوں ہے

آسان نہیں سمجھنا لعاب ریشم کی دھار ِ کنار کو
قیام جہان میں تنہا ،سجدہ میں روبرو کیوں ہے


محمودالحق
خیال رستاں / در دستک

1 comments:

  • July 20, 2011 at 10:32 PM
    Max :

    آسان نہیں سمجھنا لعاب ریشم کی دھار ِ کنار کو
    قیام جہان میں تنہا ،سجدہ میں روبرو کیوں ہے

    اس شعر کو تھوڑی سی مزید روشنی ڈالیے براے مھربانی

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔