Wednesday, December 28, 2011

پیار سے ڈر لگتا ہے

1 comments
سننے میں اچھا لگتا ہے یا شائد کسی کو برا لگتا ہے ۔ معصومیت بھرا لفظ ہے پھر اس سے کیوں ڈر لگتا ہے ۔ ڈھو نڈنے پیار کو یہاں آ گئے ۔ الفاظ کڑوی گولی کی طرح مفہوم مسیحائی میں سما گئے ۔ بیماری پنپتی جزبات میں گھائل روح تمازت سے ہے ۔ کھلی آنکھوں سے نظر میں سمائے تو بند آنکھوں سے دل میں اتر جائے ۔ پھر ڈرنے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے ۔ اگر سمجھنا یہ ہے تو ایک جملے کو اتنی پزیرائی کیوں ۔ تپھڑ سے ڈر نہیں لگتا پیار سے لگتا ہے ۔ تپھڑ سے آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے تو پیار سے عقل پہ پردہ ۔ نفرت آگ کی حدت...

Saturday, November 19, 2011

عشق سے عشق تک

0 comments
اونچی آواز میں دعا مانگوں یا اللہ مجھے محبت عطا کر تو ارد گرد نمازی تجسس بھری نگاہوں سے گھورے گے ضرور ۔ بد بخت مسجد میں بھی نفسانی خواہشیں لپیٹ لایا ہے ۔ گھر میں لبوں پہ یہی دعا گنگنائے تو رات کا کھانا خراب طبیعت کے بہانے میں رہ جائے ۔ جو رہتا ہے تو رہ جائے جو بگڑے سو بگڑے مگر دل کی بات کہنے سے نہ کوئی روک پائے ۔ ایک محبت کی کمی نے زندگی بے رنگ کر دی ۔ خواہشیں انگڑائی لینا بھول گئیں ۔ گناہ توبہ کی کسوٹی سے پرکھنے لگے ۔ نیکیاں آرزؤں کی سولی پر لٹک کر جھولنے لگیں ۔ ارمان گھٹ گھٹ مرنے لگیں ۔ لطیف...

Sunday, October 30, 2011

یہ جینا بھی کیا جینا ہے

1 comments
انسان اپنی سوچ کے دھارے میں بہنے اور بہانے کے عمل سے دوچار رہتا ہے ۔ کبھی خوشی سمیٹتا تو کبھی غموں کے جام چھلکاتا ہے ۔ جینے کے نت نئے انداز لبادے کی طرح اوڑھے جاتے ہیں ۔ مگر جینا کفن کی طرح ایک ہی لبادے کا محتاج رہتا ہے ۔ برداشت دکھ جھیلنے اور درد سہنے میں طاقت کی فراہمی کا بندوبست کرتی ہے ۔ نقصان عدم اعتماد پیدا کرتا اور بھروسہ کو پامال کرتا ہے ۔ فائدہ تکبر کا مادہ پیدا کرتا ہے ۔ مقدر کے سمندر میں سکندر کی ناؤ بہاتا ہے ۔ انسان سوچتا وہی ہے جو پانا چاہتا ہے ۔ ہوتا وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہو ۔زندگی...

Sunday, September 18, 2011

کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں

0 comments
جب بخار کی شدت میں دو تین ڈگری کمی آتی تو تیمار داری کے لئے آنے والوں سے ہنسی مذاق میں موڈ خوش گوار کر لیتا ۔ جیسے ہی دوا کے اثرات زائل ہونا شروع ہوتے تو ٹمپریچر 105 سینٹی گریڈ تک پہنچتے پہنچتے مجھے نڈھال کر دیتا ۔ سر ایک طرف ڈھلک جاتا ۔ کھانا پینا تو پہلے ہی دواؤں کی کڑواہٹ کا شکار تھا ۔ کمزوری و نقاہت سے بدن حاجت کے لئے بھی سہارے کا محتاج ہو چکا تھا ۔ نرس گلوکوز کی بوتل میں ہی وقفے وقفے سےگھونٹ گھونٹ ٹیکے ٹکا رہی تھی ۔ خواتین تیمار داری کے ساتھ ساتھ باتیں کم اور کچھ پڑھتے ہوئے ہاتھ کے انگوٹھے...

Friday, August 19, 2011

ایک سوال ادھورا جواب

0 comments
پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں اگر ٹریفک سگنل کے چاروں اطراف کی سرخ لائٹ کو بلنک کر دیا جائے ۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چاروں اطراف کی ٹریفک دیکھ بھال کر اور پہلے آئیے پہلے جائیے کے کلیہ پر عمل پیرا ہو تو ہمارے ہاں ایسے چوک میں کیا منظر ہو گا ۔ جہاں کوئی پولیس کا سپاہی بھی تعینات نہ ہو ۔ یقینا طوفان بد تمیزی ہو گا ۔ ہر سواری پہلے گزرنے کو اپنا حق اولین سمجھتی ہے ۔ بلکہ یہاں تک بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سرخ لائٹ پر بھی زیادہ دیر تک رکنا محال ہوتا ہے ۔ بلا وجہ ہارن بجانا مشغلہ ایسا ہے جیسا اسمبلی میں...

Sunday, August 14, 2011

جشن آزادی مبارک تمہیں ۔۔۔ دیا سے دیا جلاؤ

1 comments
پاکستان کی آزادی کو آج چونسٹھ سال ہو چکے ۔ ایک قوم نے ایک وطن کی بنیاد رکھی ۔ ایک رہنما نے رہنمائی کی شمع جلائی ۔ قوم کے ہاتھوں میں ایک امید کا دیا تھما دیا ۔ جو دئیے سے دیا جلانے کی کوشش کے انتظار میں خود دیا ٹمٹماتا رہا ۔ بجھانے کی نیت رکھنے والے منہ کی کھاتے رہے ۔ آس ٹوٹی نہ امید ۔ جشن آزادی کی نعمت سے جگمگاتے منور ہو گئے ۔ حقیقی خوشی سے محروم طبقہ عارضی پن سے نعمتوں کا شکر بجا لانے میں کسر نفسی کا شکار رہا ۔ قوم چھتوں پر جھنڈیاں پھیلائے جشن کو آزادی کے ترانوں سے گنگناتی رہی ۔ بہت کچھ کھونے کے...

Saturday, July 30, 2011

لکھنا مجبوری میری، پڑھنا کیوں تیری

0 comments
لکھنا چاہتا ہوں مگر لکھ نہیں‌پا رہا ۔ سمجھنا چاہتا ہوں سمجھ نہیں پا رہا ۔ نیٹ کے دھاگے کمزور ہوتے جارہے ہیں ۔ یا میری نظر کی کمزوری یہاں بھی حائل ہو چکی ہے ۔ چند روز تک نئے چشمے سے الفاظ صاف دیکھائی دینے لگیں گے ۔ مگر قلب کی صفائی دیکھنے میں ابھی مذید انتظار کرنا ہو گا ۔ سالہا سال کے انتظار کے بعد نہ تو محلے کی گلیاں صاف ہوئیں ۔ ندیاں بھل صفائی کی محتاج ہیں تو نالے کوڑا کرکٹ کی صفائی کے ۔سیاستدان نرما کی وجہ سے اجلے دیکھائی دیتے ہیں ۔ مگر کردار ابھی صاف نہیں ۔ سیاست کے شیر ہیں یا ترکش میں بھرے تیر...

Tuesday, July 26, 2011

رشتے دل کے جو جان پر بن آئے

0 comments
بات نہایت مختصر بیان کرنے کی جسارت کروں تو سمجھنے سمجھانے میں پل صدیوں میں ڈھل جائیں ۔ سحر آفتاب غروب کے منظر کو مہتاب کر دے ۔ بات آفتاب کی نہیں جو شمش کہلائے تو شمشیر سے گہرا اثر اپنی حدت سے چھوڑ جائے ۔ یہاں ذکر ہے رشتوں کا جو کبھی بندھتے ہیں تو کبھی چھوٹتے ۔ گردش ایام کے پابند رہتے ہیں ۔ گردش کائنات سے سروکار نہیں رکھتے ۔ کیونکہ وہاں سرکار کسی کی نہیں ۔ موج مستی صرف اتنی کہ پاؤں زمین پر تھرک سکیں ۔ جو آنکھ سے اوجھل ہے چاہے پہاڑ کے پار ہو یا پہلے آسمان سے آگے ۔ خواہشوں کی بیڑیاں پہنے طوق...

Sunday, July 24, 2011

دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

0 comments
محبت ، خلوص ،رواداری سے اپنا بنانے کے لئے جو بھی عمل کیا جائے وہ انجام خیر سے بے خبر ہوتا ہے ۔ انسان دو آنکھوں سے زمانے بھر کو دیکھتا ہے ۔ کبھی دکھ سکھ میں آنسو تو کبھی غصہ میں آگ کی لالی سے پانی بہتا ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود ایک دو بار ہی آنکھیں دو آنکھوں سے چار ہوتیں ہیں ۔ جو سیدھا نشانہ دل پہ لیتی ہیں ۔ پھر عقل سے نظر کی تمام طنابیں چھوٹ کر دل کی دھڑکن سے جڑ جاتیں ہیں ۔ تمام رشتے ایک نظر کے سامنے ہیچ لگتے ہیں ۔ سوچ عقل کی سٹاک مارکیٹ دلاں دے سودے میں مندے کا شکار ہو جاتی ہے ۔ آسمان پہ چپکے...

Friday, July 22, 2011

بھولنے والے بھول جائیں

0 comments
اصلاح احوال کریں تو کیسے کریں اتنے ٹی وی چینل خبریں تو ایک جیسی ہیں ۔ مگر انداز بیان الگ الگ ۔ اخبارات شہر شہر نگری نگری کی کہانیاں سمیٹے ہوئے ظلم و نا انصافی کی دہائی دیتے ہوئے مظلوم کے حق میں انصاف کا جھنڈا لہراتے ہوئے عوامی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔ عوامی نمائندے بھی کسی سے پیچھے نہیں حق رائے دہی کا احترام کرتے ہوئے حق سے محرومی پر سیخ پا نظر ضرور آتے ہیں ۔ عوام کی تکلیف کا احساس حکمران اور ان کے مشیران کو آنسو بہانے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ بعض الفاظ اپنا تاریخی پس منظر چھوڑ جاتے ہیں ۔ جیسے سیاسی...

Saturday, July 16, 2011

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

0 comments
جدید دنیا نے انسانوں کو جہاں بے پناہ سہولتیں پہنچائی ہیں ۔ وہاں بے شمار مسائل سے بھی دوچار کیا ہے ۔ ہر دور کا انسان جدید ترقی کی منازل آہستہ آہستہ طے کرتا رہا ۔اور ماضی کو پائیدان بنا کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہوا ۔ مگر ہر انسان اس سے استفادہ حاصل نہیں کر سکا مگر چند کے سوا ۔ اور اسی طرح چند ممالک ہی اس ترقی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کا ذکر ہی کیا ۔ مگر ترقی یافتہ ممالک کا ہر فرد بھی خوش وخرم اور مطمئن زندگی نہیں گزار رہا ۔جہاں امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے ۔ اور غریب...

Thursday, May 26, 2011

معمار قوم

0 comments
آج کل ایسا ویسا لکھنے کا رواج عام ہے تو سوچا کہ ایک کالم کاغذ کی کشتی بنا کر بارش کے بہتے پانی میں بہا دوں ۔ ارادہ پکا تھا کہ خود فریبی میں مبتلا قوم عمار کو ضرور ایک معمار کی ضرورت پیش آ سکتی ہے تو اپنی خدمات پیش کر کے دیکھوں کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔ امتحانات کے نتائج توتینتیس اور پچاس کے درمیان ہی رہے ۔ اگر معماری کا کنٹریکٹ ہاتھ لگ جائے تو چھیاسٹھ تک گنتی پہنچ سکتی ہے ۔ پھر چاہے قانون بدل دوں یا آئین ۔ پوچھے گا کون ۔ معمارقوم بیمار ہوا تو بنیاد پر ہی کام رک گیا ۔ اس کے بعد ایک کے بعد...

Sunday, May 15, 2011

اختلاف رائے اور ہمارے رویے

0 comments
اسلام ایک ضابطہ حیات ہے جو تا قیامت ہماری رہنمائی کی سند رکھتا ہے ۔ جس پر کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اختلاف تو بعد میں حالات و واقعات میں تبدیلی کے عمل سے پیدا ہونے والی صورتحال سے ہم آہنگی اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔ہمارے حالات بدل گئے ۔ غلامی کے دور گزر گئے ۔ غلام ہندوستان میں بھی یہی اختلاف رائے کبھی مسلکی تو کبھی نظریاتی انداز میں بھرپور نظر آتا ہے کہ کون کون پاکستان کے قیام کے حق میں نہیں تھے ۔ ایک نامور کانگرسی مسلما ن ابوالکلام آزاد بھی تو ایک آزاد اسلامی ملک کی مخالفت میں ہمیشہ کمر بستہ رہے ۔دوسری...

اختلاف رائے اور ہمارے رویے

0 comments
اسلام ایک ضابطہ حیات ہے جو تا قیامت ہماری رہنمائی کی سند رکھتا ہے ۔ جس پر کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اختلاف تو بعد میں حالات و واقعات میں تبدیلی کے عمل سے پیدا ہونے والی صورتحال سے ہم آہنگی اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔ہمارے حالات بدل گئے ۔ غلامی کے دور گزر گئے ۔ غلام ہندوستان میں بھی یہی اختلاف رائے کبھی مسلکی تو کبھی نظریاتی انداز میں بھرپور نظر آتا ہے کہ کون کون پاکستان کے قیام کے حق میں نہیں تھے ۔ ایک نامور کانگرسی مسلما ن ابوالکلام آزاد بھی تو ایک آزاد اسلامی ملک کی مخالفت میں ہمیشہ کمر بستہ رہے ۔دوسری...

Saturday, March 26, 2011

پروانے شمع سے جلتے ہیں

2 comments
تحریر ! محمودالحقمیری تحاریر پر بعض اوقات یہ اعتراض سامنے آتاہے کہ مشکل مفہوم کے ساتھ پیچیدہ طرز تحریر اختیار کرتا ہوں ۔ جسے پڑھنے پر بعض اوقات ایسے جوابات سے بھی نوازا جاتا ہے " پیچ در پیچ اتنی پیچیدہ تحریر واللہ بندہ سمجھنے کے چکر میں پیچاں پیچ ہوجائے " ۔ اگراس کے ساتھ نصیحت بھی ہو تو مشورہ مفت دل بے رحم سے کم نہیں ہوتا ۔ اسی لئے اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بار پھر لکھنے پر کمر بستہ ہوں ۔ اب اگر شکوہ نہ جائے تو ہمیں ضرور توبہ کرنی چاہئے قاری کو پڑھنے سے اور مجھے...

Saturday, March 19, 2011

تیرا دل تو ہےصنم آشنا

3 comments
کافی دنوں کے بعد آج مزاج کچھ ہشاش بشاش ہے ۔ اب امید پیدا ہو ئی کہ عنقریب خوش باش بھی ہو گا ۔ پر باش تو روز ہی رہتا ہے ۔ا مارت کا ابھی دور شروع نہیں ہوا مگر بیماری ء امراء کا آغاز ہو چکا ہے ۔کیونکہ بہت سی ڈشیں مجھے پسند نہیں اور جو پسند ہیں وہ ڈاکٹر کو پسند نہیں ۔ بچی کھچی اب معدہ پسند نہیں کرتا ۔ایک زمانہ تھا تندور سے روٹی منگواتے تو پانی بھری دال چنے منہ کا ذائقہ بدلنے کو منہ چڑانے کو آتی ۔ یہ اتنی خوشی بھرپور کھانا تناول فرمانے کی خوشی میں نہیں ہے ۔ بلکہ سکون جان سے آئی ہے ۔ خوش آمدی کلمات کہتے...

Saturday, March 12, 2011

کالج سے شادی کی " تیاری " تک

0 comments
آج پھر وہ آئینے میں اپنے آپ کو بار بار دیکھ کر خود پہ فریفتہ جا رہا تھا ۔ تو ماں جی کی بلند آواز میں دی جانے والی تنبیہ کہ آج بھی کالج دیر سے پہنچنے کا ارادہ ہے ۔ تو قربان واری جانے کا پروگرام ادھورا رہ گیا ۔ ایک ہاتھ میں کاپی اور ایک کاپی نما کتاب ، دوسرا ہاتھ جیب میں کچھ ٹٹول رہا تھا ۔ پھٹی جیب کا کیا بھروسہ ویگن کے کرایہ کی رقم ہی راہ چلتے کسی بے فکرے کو تھما دیں ۔ تھمانی تو رقم ہمارے ہاتھ ویگن والوں کو چاہئے کہ بکروں کی طرح ٹھونسا جاتا ہے مگر اُف تک نہیں کہتے ۔بس سٹاپ تک تمام دوست اکھٹے رہتے...

Saturday, March 5, 2011

بوڑھے کی لاٹھی - 4

5 comments
باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔آخری حصہنہ جانے اس قلب میں ایسی کیا خوبی ہے۔ کہ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اپنی ہی ریاست کا خود بادشاہ ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دماغ کے خلئے کام کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ اس کے حکم کا محتاج نہیں ہے۔صبح شام اپنی ایک ہی رفتار سے اپنے آقا روح کی موجودگی کا بگل بجاتا رہتا ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ہی کی طرح کے دوسروں کے سینوں میں بگل بجانے والے کس حال میں ہیں۔ اسے صرف اپنے حال ہی کا فکر ہے۔ جو دوسروں کے متعلق جاننے والا تھا ۔وہ خود...

بوڑھے کی لاٹھی - 4

4 comments
باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔آخری حصہنہ جانے اس قلب میں ایسی کیا خوبی ہے۔ کہ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اپنی ہی ریاست کا خود بادشاہ ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دماغ کے خلئے کام کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ اس کے حکم کا محتاج نہیں ہے۔صبح شام اپنی ایک ہی رفتار سے اپنے آقا روح کی موجودگی کا بگل بجاتا رہتا ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ہی کی طرح کے دوسروں کے سینوں میں بگل بجانے والے کس حال میں ہیں۔ اسے صرف اپنے حال ہی کا فکر ہے۔ جو دوسروں کے متعلق جاننے والا تھا ۔وہ خود...

بوڑھے کی لاٹھی - 3

0 comments
 باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔حصہ سوماس کی سوچ میں یہ تبدیلی ۱۷ سال کی عمر آئی جب جمعہ کی نماز میں اس نے یہ حدیث سنی۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ‏"‏ ‏.‏ قِيلَ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏"‏ مَنْ أَدْرَكَ والديه عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا ثم لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ ‏"‏ ‏.‏( صحيح مسلم : 2551 ، البر و الصلة – الأدب المفرد : 646 )ترجمہ:حضرت...

بوڑھے کی لاٹھی - 3

0 comments
 باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔حصہ سوماس کی سوچ میں یہ تبدیلی ۱۷ سال کی عمر آئی جب جمعہ کی نماز میں اس نے یہ حدیث سنی۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ‏"‏ ‏.‏ قِيلَ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏"‏ مَنْ أَدْرَكَ والديه عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا ثم لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ ‏"‏ ‏.‏( صحيح مسلم : 2551 ، البر و الصلة – الأدب المفرد : 646 )ترجمہ:حضرت...

Friday, March 4, 2011

بوڑھے کی لاٹھی - 2

0 comments
 باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔حصہ دوماسے تو اپنے اباجی کے الفاظ یاد تھے کہ بیٹا میں ہائیکورٹ کا وکیل ہوں۔ چاہے آمدن کم ہے مگر عزت والا پیشہ ہے۔ وہ ہر پیشے کو پیسے سے نہیں عزت کی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔باپ بیٹے میں ایک ایسا رشتہ مضبوطی کے بندھن میں بندھ رہا تھا جو بڑھ کر عقیدت و محبت میں بدل گیا ۔اس روز تو ابا جی کی خوشی دیکھنے والی تھی۔ جب اس نےکہاکہ میرا ایم اے کا آخری سال ہے۔ ایک نیا پرائیویٹ لاء کالج کھلا ہے مجھے اس میں داخلہ لینا...