اپنی پرچھائی سے ایک بار موقع ملا مجھے کرنے کا کلام
پوچھا روشنی سے ہے تو بچتی رکھتی گرد ہی میرے تو حصار
بولی ہمت نہیں میری خود کو دور رکھوں ۔نہیں ہوں میں وقت بے مہار
روشنیوں کا یہ جلوہ کبھی اندھیرے میں بھی دیکھایا ہوتا
ایک بے مقصد تو چیز ہے روشنیوں کی تشہیر ہے
لاکھوں کے مجمع میں بھی ہے تو بے سروساماں
ایک دوسرے میں ہے یوں پیوست اپنا وجود ہی نہیں رکھتی تو ابد
صرف روشنی سے ہے تجھ کو یہ غرض رکھتی ہے انساں کے پیچھے اپنا عکس
اکتا کر وہ گویا ہوئی یوں کہ
بہت سنا لیں ، بہت سمجھا لیں ، کبھی خود کا بھی رکھا تو نے یوں خیال
میں عکس نہیں ہوں تیرا ۔ میں نفس ہوں تیرا
اندھیروں میں ہوں میں چھپ جاتی ۔روشنیوں میں تم کو سب دیکھاتی
اندھیرے جو تم کو دیکھاتے ہیں ۔پہلے وہ مجھے ہی چھپاتے ہیں
روشنی جب تیرے اگے آتی ہے ۔ میں تیرے پیچھے ہوتی ہوں
میں امیدوں سے جڑی ہوں رسموں میں گھری ہوں
نفس تو ہے عکس آئینہ ۔روشنی سے ہے رکھتا وہ سامنا
روشنیوں میں جسم سے نکل کر پھیلتی ہوں
اور اندھیروں میں پھر یونہی جسموں میں سمٹتی ہوں
جوں جوں روشنیوں سے پھیلتی ہوں توں توں نفس سے جکڑتی ہوں
مجھ پہ جو اتنا غور کیا کچھ اندر اپنے کا بھی خیال کیا
جو تجھے بڑھکاتا ، بہکاتا روشنیوںمیں ہے پھیلتا
پھر اندھیروں میں ہی وہ سکڑ کر تیری ذات کانشان بن جاتا
اب اتنا بھی کیا ضروری ہے کہ زندگی سے بھی اب دوری ہے
اے نا سمجھ ناداں انساں اندھیرے تو تیری آنکھوں میں ہیں
میں تو تیری ذات ہی کا عکس چپکی زمیں پر رہتی ہوں
بلاگ کا کھوجی
موضوعات
آمدو رفت
21585
بلاگر حلقہ احباب
تازہ تحاریر
Pages
تبصرے
Monday, September 6, 2010
میں اور میری پرچھائی
Mahmood ul Haq
3:21 AM
4
comments


اس تحریر کو
سفینہء محمود، پرچھائی ، نفس ،روشنی،,
نثری مضامین
کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے
4 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جوں جوں روشنیوں سے پھیلتی ہوں توں توں نفس سے جکڑتی ہوں
بہت خوب۔
جوں جوں روشنیوں سے پھیلتی ہوں توں توں نفس سے جکڑتی ہوں
بہت خوب۔
بہت عمدہ
بہت شکریہ آپ کی پسندیدگی کا