Friday, February 19, 2010

کنارے پہ لہروں سے اٹھکھیلیاں تو ہیں بہت آساں

0 comments
کنارے پہ لہروں سے اٹھکھیلیاں تو ہیں بہت آساں
طوفانوں میں گھری کَشتئ نُوح جیسی کم ہیں داستاں

برس جائے تو سوغات تڑپ جائے تو ہے طوفاں
یہ تو سب اس کی جلوہ گری کے ہیں نشاں

سمجھنے والوں کے لیےہے کن فیکوں عیاں
بند در خرد واسطے بہتا برستا ھوا جہاں

ارض و سماں کے ہر رنگ میں ہے وہ پنہاں
بے رنگ نور مجسم پھر بھی متکبر ہے حضرت انساں

نہ غم نہ دنگ نہ ملال ہے نہ پشیماں
ایک قطرہ ہی سے تو ہے مکمل سب جہاں

بدعت عمل سے جن کی مستی جاوداں
ایسی قوموں کا کبھی کوئی پاتا نہیں نشاں

مٹ گئے محلات جبروت کے دربار شاہاں
آباد ہیں آج بھی کاشانہء فقیہاں

چاہنے سے چاہے جانے کی منزل نہیں آساں
خوشہ تقدیر کے مراد دانہ میں چھپا اک جہاں




موسل بار / محمودالحق

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔