Wednesday, December 24, 2014

بنجر زمین فصل نو بہار

0 comments
جو زندگی کے سفر میں تنہا رہتے ہیں ۔ہجوم غافل میں سسکتی آہوںکو آنکھوں سے کھوجتے تو کانوں سے ٹٹولتے ہیں۔بلند و بالا پہاڑوں کے بیچ اندھیری کھائیوں سے گونجنے والی آوازیں قوت سماعت سے ٹکرا کر قوت احساس کا امتحان بن جاتی ہیں۔زندگی سفر میں آسان ہوتی ہے، آزمائش میں امتحان۔جس میں پورا اترنے کی کوشش میں راستے کی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے خوف کی گانٹھیں ایسی سختی سے لگاتے جاتے ہیں کہ جب کھولنے کا وقت آتا ہے تو دانتوں سے بھی کھل نہیں پاتیں۔یہ ایسی آندھی ہےجو رفتار بڑھنے پر ہر شے تہس نہس کر دیتی ہے۔جو مان کر بیٹھ...

Friday, October 17, 2014

آنکھیں جو کھوجتی ہیں

1 comments
علم و عرفان میں یکتائی ہر کسی کا نصیب نہیں ۔علم وفضل کے قلمدان آبروئے ورق پر آفرینش ہوتے ہیں۔کیاریوں میں پودوں کی آبیاری سے ننھے بیج توانا درخت تک کا سفر باآسانی طے کر لیتے ہیں۔بلند وبالا پہاڑ ،وادیوں میں بہتے چشمے ،انواع واقسام کے میوے اور خوشبو بھرے پھل نظروں میں ساکت فلم کی طرح ٹھہر جاتے ہیں ۔ انہیں محسوس کرنے کے لئے ایک جھلک ہی کافی ہوتی ہے کسی اینیمیٹڈ فلم  کے ایک سیکنڈ میں پچیس فریمز جیسی نہیں۔آنکھ سے صرف دیکھنے کا کام لیا جاتا ہے حالانکہ یہ نظر کی گرفت میں آنے والے ہر منظر کو فریمز کی...

Thursday, October 16, 2014

زندگی کی عجب کہانی ہے

0 comments
زندگی تیرے انجام سے بے خبر  یونہی چلتے رہےجیسے ننگے پاؤں انگاروں پہ جلتے رہے۔ کبھی چاند کو اپنا سمجھتے رہے کبھی پھول سے محبت کرتے رہے۔رات کے پچھلے پہر ستاروں کی ٹمٹماہٹ سے سلگتے رہے۔چاندنی میں جسم و جاں سے اُلجھتے رہے۔حدت ِآفتاب سے تپتی ریت پر گھسٹتے رہے۔دُعا میں اُٹھے ہاتھوں کووصلِ بیتاب سمجھتے رہے۔اقرارِ زباں کو قرارِ جاں سمجھتے رہے۔ عشق ِامتحاں کو دلِ ناداں سمجھتے رہے۔ جوانی کی مستیاں حسن کی لن ترانیاں رہ گئی گھٹ کر ان میں اذیت کی سرگوشیاں۔زندگی کے میلوں میں کھو گئیں بچپنے کی معصومیت،چاہت...

Friday, September 26, 2014

کرب واذیت کے کھونٹے

1 comments
اردو کی ٹیچر نے دوسری جماعت کے طالب علم کو دونوں ہاتھ سامنے پھیلانے کا حکم صادر فرمایا ۔  حکم کی بجاآوری کے ساتھ  ہی اس نے اپنے بیگ میں سے کالے رنگ کا ایک ڈیڈھ  فٹ لمبا ڈنڈانکالا۔پانچ پانچ دونوں ہاتھوں پر کھانے کے بعد سوجے ہاتھوں نےتختی کبھی  گھربھول نہ آنے کی قسم کھانے کے ساتھ ساتھ مولا بخش سے ملاقات کا یہ شرف کبھی  نہ  بھلایا۔زندگی میں پہلا سبق اسے بھولنے کی وجہ سے بھگتنا پڑا ۔اس کے بعد وہ ہر سبق کی طرح ساتھ رکھنے والی چیزوں کو گن گن کر روزانہ بیگ میں سنبھالتا۔بھولنے...

Friday, September 19, 2014

کیفیتِ اظہار

0 comments
کینوس پر رنگ بکھیرتا مصور دو آنکھوں کو وہ دکھانا چاہتا ہے جو ستاروں سے چھپ کر اسی کی روشنی سے چرایا ہو۔پھول کی نازک پتیوں سے جیسے خوشبو کو پایا ہو۔آسمان سے نچھاور ہوتے سفید روئی جیسے گالوں کو پیاسی دھرتی نے حدت کو چھپا کر ٹھہرایا ہو۔گرم ہواؤں کو سرد نم بادل  نےگڑگڑاتی بجلی سے دور بھگایا ہو۔کوئل نےکھلی چونچ سے سُر کا جادو جگایا ہو۔ پینٹنگ دیکھنے والا مبہوت ہو جائے ۔شاہکار کینوس سے نکل کر اُس کی روح میں جذب لہو بن دوڑنے لگے۔ایک کے بعد ایک مریض عشق بوجھل قدموں سے باہر جانے کے راستے سے اپنی...

کیفیتِ اظہار

0 comments
کینوس پر رنگ بکھیرتا مصور دو آنکھوں کو وہ دکھانا چاہتا ہے جو ستاروں سے چھپ کر اسی کی روشنی سے چرایا ہو۔پھول کی نازک پتیوں سے جیسے خوشبو کو پایا ہو۔آسمان سے نچھاور ہوتے سفید روئی جیسے گالوں کو پیاسی دھرتی نے حدت کو چھپا کر ٹھہرایا ہو۔گرم ہواؤں کو سرد نم بادل  نےگڑگڑاتی بجلی سے دور بھگایا ہو۔کوئل نےکھلی چونچ سے سُر کا جادو جگایا ہو۔  پینٹنگ دیکھنے والا مبہوت ہو جائے ۔شاہکار کینوس سے نکل کر اُس کی روح میں جذب لہو بن دوڑنے لگے۔ایک کے بعد ایک مریض عشق بوجھل قدموں سے باہر جانے کے راستے سے...

کیفیتِ اظہار

1 comments
کینوس پر رنگ بکھیرتا مصور دو آنکھوں کو وہ دکھانا چاہتا ہے جو ستاروں سے چھپ کر اسی کی روشنی سے چرایا ہو۔پھول کی نازک پتیوں سے جیسے خوشبو کو پایا ہو۔آسمان سے نچھاور ہوتے سفید روئی جیسے گالوں کو پیاسی دھرتی نے حدت کو چھپا کر ٹھہرایا ہو۔گرم ہواؤں کو سرد نم بادل  نےگڑگڑاتی بجلی سے دور بھگایا ہو۔کوئل نےکھلی چونچ سے سُر کا جادو جگایا ہو۔پینٹنگ دیکھنے والا مبہوت ہو جائے ۔شاہکار کینوس سے نکل کر اُس کی روح میں جذب لہو بن دوڑنے لگے۔ایک کے بعد ایک مریض عشق بوجھل قدموں سے باہر جانے کے راستے سے اپنی سواری...

Thursday, September 4, 2014

قیدِ بے اختیاری

2 comments
چھوٹی چڑیا چھوٹے سے پنجرے میں قید بڑی بے چینی سے جھولے سے نیچے پھر جھولے پہ اُڑ اُڑ جاتی۔بس اتنا سمجھ کر چہچہاتی کہ ایک دن یہاں سے آزادی پا کر اس سے بڑی اُڑان بھروں گی۔اور ایک دن اچانک پنجرہ کی چھوٹی سی کھڑکی کھلا پا کر اُڑان بھر جاتی۔ مگر جسے وہ آزادی سمجھ کر اونچی پرواز سے لطف لینے لگی کچھ توقف کے بعد وہی کمرہ اس بے چاری چڑیا کے لئے بڑے پنجرے میں بدل گیا۔آزادی کے جس دیپ کو وہ جلا کر مدھم ہوتی قید ِ روشنی کو سہارا دیئے ہوئے تھی۔وہ ایک بار پھر اس کے لئے نا اُمیدی اور مایوسی کے اندھیروں سے خوف میں...

قیدِ بے اختیاری

2 comments
چھوٹی چڑیا چھوٹے سے پنجرے میں قید بڑی بے چینی سے جھولے سے نیچے پھر جھولے پہ اُڑ اُڑ جاتی۔بس اتنا سمجھ کر چہچہاتی کہ ایک دن یہاں سے آزادی پا کر اس سے بڑی اُڑان بھروں گی۔اور ایک دن اچانک پنجرہ کی چھوٹی سی کھڑکی کھلا پا کر اُڑان بھر جاتی۔ مگر جسے وہ آزادی سمجھ کر اونچی پرواز سے لطف لینے لگی کچھ توقف کے بعد وہی کمرہ اس بے چاری چڑیا کے لئے بڑے پنجرے میں بدل گیا۔آزادی کے جس دیپ کو وہ جلا کر مدھم ہوتی قید ِ روشنی کو سہارا دیئے ہوئے تھی۔وہ ایک بار پھر اس کے لئے نا اُمیدی اور مایوسی کے اندھیروں سے خوف میں...

Monday, August 25, 2014

دیکھ ہمارا کیا رنگ کر دیا

1 comments
جیولری ، کھلونے ، بوتیک ہو یا کاروں کا شو روم صرف دیکھ کر یا ہاتھ سے محسوس کر کے تسلی نہیں ہوتی۔جب تک کہ وہ احساسِ لمس سے خوابیدہ نہ کر دے۔ نظر بھربھر دیکھنے سے اپنائیت کا احساس موجزن نہیں ہوتا۔عدم دستیابی خالی پن سے زیادہ اپنے پن سے عاجز ہو جاتی ہے۔آج لفظوں سے اظہار اجاگر نہیں ہو گا۔کیفیت بیان سے آشکار نہیں ہو گی۔احساسات اور محسوسات پر اعتراضات بھی نہیں ہوں گے۔کون جانتا ہے کہ رات دن سے الگ کیسے ہوتی ہے اور دن رات میں کیسے چھپ جاتا ہے۔چاندنی راتوں میں سمندر پر لہریں کیوں رقص کرتی ہیں۔آسمانوں سے...

Wednesday, August 6, 2014

زمین میری تھکن سے بھی چھوٹی ہے۔۔۔۔۔ سارا شگفتہ

2 comments
           ؛’‘؛’‘؛’‘؛’‘؛محمودالحق کے قلم سے؛’‘؛’‘؛’‘؛’‘؛سفید چاندنی میں لپٹی آنکھیں موندھے وہ مسکرا رہی تھی۔بائیں کندھے کو بایاں کندھا دینےوالےآگے سے پیچھے دائیں تو کبھی بائیں کندھے سے آج ایک فعل کو ایسے ادا کرنے جارہے تھے جیسے کوئی زمین کا بوجھ اُتارنے جا رہے ہوں۔ آج تو وہ ایک لاش کو دفنانے جا رہے تھے۔ جس کے چہرے پہ مسکراہٹ روح اپنا صدقہ سمجھ کر چھوڑ گئی تھی۔جسے جسم نے خیرات سمجھ کر کبھی قبول ہی نہیں کیا تھا۔ مگر آج وہ بے بسی کی تصویرنہیں تھی۔بادل آج بھی کالی گھٹا...

زمین میری تھکن سے بھی چھوٹی ہے۔۔۔۔۔ سارا شگفتہ

3 comments
           ؛’‘؛’‘؛’‘؛’‘؛محمودالحق کے قلم سے؛’‘؛’‘؛’‘؛’‘؛سفید چاندنی میں لپٹی آنکھیں موندھے وہ مسکرا رہی تھی۔بائیں کندھے کو بائیاں کندھا دینےوالےآگے سے پیچھے دائیں تو کبھی بائیں کندھے سے آج ایک فعل کو ایسے ادا کرنے جارہے تھے جیسے کوئی زمین کا بوجھ اُتارنے جا رہے ہوں۔ آج تو وہ ایک لاش کو دفنانے جا رہے تھے۔ جس کے چہرے پہ مسکراہٹ روح اپنا صدقہ سمجھ کر چھوڑ گئی تھی۔جسے جسم نے خیرات سمجھ کر کبھی قبول ہی نہیں کیا تھا۔ مگر آج وہ بے بسی کی تصویرنہیں تھی۔بادل آج بھی کالی گھٹا...

Tuesday, August 5, 2014

میں ہوں برگ و بار

0 comments
ساری دنیا میرے سامنے ہے۔  زرہ زمین سے لیکر ستارہ آسمان تک میں دیکھ سکتا ہوں مگر مجھے میرا اپنا وجود محسوس نہیں ہو پا رہا ۔ ہاتھوں کو مسلتا ہوں پاؤں  رگڑتا ہوں پھر بھی اپنا آپ محسوس نہیں کر پا رہا۔  یہ سوچتے سوچتے میرے دل کی دھڑکن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سانس میری روح میں سرایت کرتا جارہا ہے۔طوفان تو کب کا تھم چکا ہے۔سانس آج اکھڑا سا کیوں محسوس ہو رہا ہے۔ یہ مجھے اپنے پن کا احساس نہیں دلا پا رہا۔ایسے لگتا ہے کسی کی کونپل کسی دوسری شاخ میں پیوند کر دی گئی ہو۔ اجبنیوں کو بہت مشکل سے...

Thursday, July 24, 2014

اللہ کرے زورِ جذب اور زیادہ

0 comments
دماغ کے گرم تنور پہ اختلاف کے پیڑے سے تسلی کی روٹی بنانے کی کوشش میں ہوں۔ اگر گول مٹول کی بجائے چپٹی بن جائے تو مردِ انجان سے کھری کھری سننے کی نوبت نہیں آئے گی مگر امور خانہ داری نبھانے والوں سے جان بچانی مشکل ہو جائے گی۔ جنہیں بھوک نے ستا رکھا ہو ظاہری خدو خال کی پیچیدگیوں سے آنکھیں چرائے رکھتے ہیں۔نخرہ  تو تب کیا جاتا ہے جب پیٹ بھرا ہو۔ خالی پیٹ تو آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہوتا ہے۔والدین بچوں کے گریڈ کم آنے پر دہائی دیتے ہیں۔ بچے ٹیچروں کے نہ پڑھانے کی دہائی دیتے ہیں۔ حکومتیں قانون قانون کی...

Wednesday, July 23, 2014

محبت بے نام ہے

1 comments
آج صرف دل کی سنتا ہوں۔کل کی بات ہے یہ صرف میری سنتا تھا۔یہ مجھے سمجھاتا کہ میں تو عکس آئینہ ہوں ۔ میں نے سمجھا کہ یہ پسِ آئنیہ ہے۔میں تصویر پہ تصویر بناتا  چلا گیا اور یہ انہیں مٹاتا چلا گیا۔غصہ تو بہت کیا ۔میرے رنگوں کو بے رنگ کر دیتا۔جیسے سکول میں استاد تختہ سیاہ  کے ہر نشان کو ڈسٹر سے  صاف کر دیتا۔استاد تو میں تھا اس کا ۔حرف مٹانے کا اختیار تو میرا تھا پھر یہ اپنی من مانی کیوں کرتا رہا میرے ساتھ ۔ ہر جذبہ ، ہر احسا س کو کرایہ دار کی طرح مکان سے بے دخل کر دیتا۔مطالبہ بھی عجب تھا...

Saturday, July 12, 2014

نشانیاں

0 comments
گرمی سے ستائے لوگ نہر میں الٹی قلابازیاں لگاتے کود رہے تھے۔ چند ایک پانی کو گندہ جان کر صرف پاؤں کو ٹھنڈک پہنچانے تک ہی استفادہ حاصل کر رہے تھے۔ وہاں گاڑیوں سے گزرنے والے بے اعتنائی سےکچھ بھی سوچنے کی مشقت سے لا پرواہی برتتے ہوئے افطاری میں مدعو کئے مہمانوں کی آؤ بھگت کے لئے جیب میں ڈالی لسٹ پر بار بار اچٹکتی نگاہ ڈالتے کہ کہیں گھر پہنچنے پر حافظہ کی کمزوری کا طعنہ سننے میں نہ آجائے۔کسی کو جانے کی جلدی تھی تو کسی کو واپس آنے کی۔دھوپ 43, 45  ڈگری سے جسم کی حرارت بڑھا رہی تھی تو دماغ ڈبل سپیڈ...

Sunday, July 6, 2014

خالی مٹکے بھرے مشکیزے

0 comments
میں بستر پہ آنکھیں کھول کر زمین پر کھڑا ہوتا ہوں تو آسمان زمین پر چادر پھیلا کر میرے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔مجھے اس احساس سے نکلنے نہیں دیتا کہ میں اس کی پناہ میں ہوں۔کسی ڈر یا خوف کے بغیر سینہ تان کر فخر سے پاؤں زمین پر جماتا ہوں۔انسانوں کی بھیڑ میں احساسِ تحفظ کسی سپر پاور کے حلیف ہونے جیسا ہوتا ہے۔تب اقتدار کے ایوانوں سے لے کر ہیرے جواہرات سے سجی دوکانوں تک بے وقعت اور بے مول دکھائی دیتی ہیں۔جیت کے ایک لمحے کے انتظار میں ہار کے ماہ و سال شکوہ و شکایت کی بھٹی میں جلائے جاتے ہیں۔صبر و شکر کے مٹکے...

Thursday, July 3, 2014

تلاشِ ذات

2 comments
پوری کائنات اللہ کی محبت کا سمندر ہے ۔ جہان کسی کونے کھدرے میں ایک عاشق ذات کی سیپ کے خول میں  چھپا محبت کا موتی ، نظروں سے اوجھل قدر دانوں کے غوطہ زنی کے انتظار میں صدیاں ساحلوں کو تکتا رہتا ہے۔جو ساحل پر کھڑے پاؤں کے نیچے سے سرکتی ریت سے یہی سوچ کر خوفزدہ  رہتے ہیں کہ اگر اندر اُتر گئے تو واپس کیسے آئیں گے۔تلاش ِ ذات کے سفر میں کھوج و جستجو کے خاک آلود راستوں پر مسافتوں کی دھول میں سفر کرنے والے صدیوں کے بعد بھی اپنےہی دائرے سے باہر نکل نہیں پاتے۔ اندھیرے میں پھونک پھونک کر راستوں پر...

Saturday, June 21, 2014

محبت کی متوالی مکھیاں

6 comments
تکمیل ذات و خیال کا ایسا بھنور ہے جس سے نکلنے کے لئے جسم و جاں تنکے کے سہارے کی اُمید بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پانا اور دینا حرف غلط کی مثل رہ جاتے ہیں۔ دراصل جینا اور مٹنا جسم و جاں کے باہمی تعلق کو سانس کی زندگی تک زندہ رکھتے ہیں۔ مٹے بنا جینا کھل کر سامنے نہیں آتا۔ ذات ایک ایسا بلیک ہول ہے جو قریب آنے والی تحسین و پزیرائی کو جزب کرتا ہے۔خیال مخالف کو آلارم بجا بجا دور بھگاتا ہے۔مکمل حیات جاودانی کے منظر احساس کو چھو جاتے ہیں۔جسے مکمل جانا نہ جا سکے اسے مکمل پایا نہیں جا سکتا۔بچپن لڑکپن جوانی...

Thursday, June 12, 2014

خوشی راس نہیں آتی

1 comments
تکلیف دہ کانٹوں بھرے راستوں سے ننگے پاؤں چلتے چلتے منزل کے قریب پہنچ کر سستانے کی خواہش درد کی شدت میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر قدم چلنے کی بجائے گھسٹنے پر آ جاتے ہیں۔ قریب ہو کر بھی منزل کوسوں دور نظر آتی ہے۔سانس سانسوں میں الجھتی چلی جاتی ہے۔ اجنبی پن میں جتنی تیزی سے اندر اُترتی ہے اُتنی تیزی سے باہر نکلتی ہے۔ زندگی راستہ پر ڈال دیتی ہے ۔ عقل سے مقام منزل تک مسافت کی راہداریاں بنائی جاتی ہیں۔ دیکھنے میں جو سیدھی اور قریب ترین پگڈنڈیوں کو نظر سے استوار کرتی ہیں۔ فاصلے ماپ لئے جاتے ہیں۔...

Wednesday, June 4, 2014

نشانِ منزل

0 comments
بلندیوں کی جس انتہا پر پرواز کرتےہیں، اسی قدر اعتماد اور اعتبار بھی رکھتے ہیں۔ اُڑنے والا جہاز ہو یا اُڑانے والا پائلٹ۔ مہارت پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کی مسافت طے کرتے ہیں۔زندگی زندہ رہنے کی گارنٹی عطا کرتی ہے۔حالانکہ زمین پر چلتے ہوئے انسان بھی بلندیوں سے رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح بھی دکھائی نہیں دیتے۔اتنی بلندی مگر خوف کا عنصر سرے سے غالب نہیں آتا۔اس لئے کہ اگر جہاز کے پرزہ جات کے ناقابل استعمال ہونے کا یقین کر لیں تو خوف کے مارے آنکھیں کھولنا مشکل ہو جائے گا اور اگر پائلٹ کی نا تجربہ کاری...

در کائنات

2 comments
آٹھ سال بعد آٹھ ماہ سے لاہور میں بیتے دن آٹھ دہائیوں کی کہانی میں اوراق کتاب کی مانند کبھی کھلتے تو کبھی بند ہورہے ہیں۔ شہر مجھے نیا نہیں مگر باسی اجنبیت میں مدرس میں داخل ہوتے پہلے قدموں کی ہچکچاہٹ کا عملی نمونہ بنے پھرتے ہیں۔جب الف سے آدم کی الف سے اولاد نے الف سے اللہ کے نام کی پہچان میں در کائنات پر پہلی دستک دی۔ جہاں سے ہر دستک پر ایک ہی آواز آتی ہے کہ " تمام تعریفیں اللہ کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے " ۔جس نے جان کو جہان میں آدم کو فضیلت سے اپنا نائب بنایا۔ فرشتوں نے اس پر کہا کہ " جو اس...

Wednesday, May 28, 2014

پہچان ِ انسان کا ا متحان

3 comments
ہم پیدائش سے لے کر لحد تک سیکھنے سکھانے ، سننے سنانے ، منانے منوانےاورکھونے پانے کی کشمکش سے گزرتے ہیں۔کبھی چہرے کھل جاتے ہیں تو کبھی اُتر جاتے ہیں۔کبھی آنسو بہہ جاتے ہیں تو کبھی نکل جاتے ہیں۔ہم جان ہی نہیں پاتے ہم چاہتے کیا ہیں۔عارضی تسکین یا ابدی سکون؟تعریف و تحسین لباس کی ہو یاحسن و جمال کی ،شان و شوکت کی ہو یا عنایاتِ خداوندی کی ۔۔۔رطوبتِ ہم آہنگی سوچ میں بہہ کر آنکھوں میں اُتر آتی ہے۔ جو ہمدردی کے لبادے اوڑھ کر مقامِ رفعت و عزت  پر ٹڈی دل حملہ آور بن جاتے ہیں۔جو وجود کی کھیتی اُجاڑنے میں...

Saturday, May 24, 2014

تشنگی کی انتہا

5 comments
کائنات کی وسعتیں لا محدود ، تا حدِ نگاہ فاصلے ہی فاصلے،نگاہ اُلفت سے کھوج کی متلاشی مگرتھکن سے چُور بدن کا بستر پر ڈھیر ہو نا اپنی ذات پر احسانِ عظیم   سے کم نہیں ہوتا۔بظاہر  یک نظر تخلیق و حسن کے جلوے  آنکھوں پر لا علمی کی پٹی باندھ دیتے ہیں اور عقل پر دلیل کی۔حقیقت جانے بغیر سچائی تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔حقیقت جاننے کے لئے مخبر خیال مثبت و منفی رویوں کی چغلی کرتے پائے جاتے ہیں۔وسوسہ خیال کی جڑوں میں نا اُمیدی کی کھاد ڈالتا ہے۔جو اسے حقیقت بن کر سچ تک پہنچنے کے راستے کی دیوار...