Saturday, January 8, 2011

غمِ آنسو بہہ جائیں تو گلزار بھی صحرا ہوا

0 comments
غمِ آنسو بہہ جائیں تو گلزار بھی صحرا ہوا
تمہیں شائد اچھا ہوا مگر برا تو میرا ہوا

کہاں رہ گئیں ساون رُت کیا ابرِ برسات ہوئی
زندگی کو عزیز جانا مگر اس کو میں برا ہوا

دامن کو میں نے پھیلایا سینہ بہ سینہ چھپایا
رازِ زباں رہتا کاغذ پہ قلمِ بیاں ٹھہرا ہوا

بلبل نغمہ سرا ہوا تو کوئل نے چپ سادھ لی
خوفِ صیاد سے شاہیں کا گنبدِ سلطانی پہ بسیرا ہوا


ٹھوکر پہ تھا جن کے زمانہ خود سے ستائے ہوئے
آغوشِ محبت میں بھی تحفظ ارمان ڈرا ہوا

آرامِ جہاں میں بے چین زماںِ گنجان میں انجان
ماہی بے آب کا ہے رقص تماشائیوں نے گھیرا ہوا

مدحت سرائی میں جھولاتے جھولا زہر بھرے ہیں خنجر آستین
جگاتے کیا غفلت شب سے ضمیر تو ہے مرا ہوا

محمود راہ تو اچھی تھی سفر تیرا کچھ مشکل ہوا
منزل شب تو اچھی تھی دن کا اب سویرا ہوا


بر عنبرین / محمودالحق

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔