Wednesday, July 14, 2010

زن آٹے دارتھپڑ کی گونج

7 comments
ڈاکٹر ڈین کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ کی گونج کئی بار سنائی دی ۔ تھپڑ تو ایک بار ہی پڑا تھا ۔ مگر فلم کرما کئی بار دیکھی گئی ۔جیلر کو پلٹ کو ڈاکٹر ڈین کا دھمکانا کہ وہ اس تھپڑ کی گونج بھولے گا نہیں ۔ جیلر چاہتا بھی یہی تھا کہ وہ کبھی نہ بھول پائے ۔
لیکن ہمیں گونج سے کبھی بھی سروکار نہیں رہا ۔مگر اس بات کا تجسس کبھی ختم نہیں ہوا ۔کہ یہ خاص قسم کی گونج کب اور کیونکر پیدا ہوتی ہے ۔کیونکہ گھونسوں سے کبھی ایسی آواز نکلتے دیکھی نہیں ۔سنا ہے کہ آٹا گوندھنے والی خاتون کا ہاتھ بہت بھاری ہو جاتا ہے ۔ شائد اسی بنا پر گونج دار تھپڑ کو ایسی عورت کے ہاتھ سے تعبیر کردیا گیا ہے ۔ زن (عورت) آٹے دار ۔

اس نام کے سنتے ہی ایک واقعہ دماغ میں گرم روٹی کی طرح تازہ ہو جاتا ہے ۔جسے ہمارے ایک دوست نے کچھ یوں بیان کیا تھا ۔
ان کا ایک کلاس فیلو کیمسٹری کی لیب میں ایک روز دوستوں سے ایسے کیمیکل کے بارے میں جانکاری مانگ رہا تھا ۔جو اس کی داہنی آنکھ کو بھی سرخ کر دے ۔بائیں آنکھ بس میں دوران سفر ایک زن آٹے دار تھپڑ کی وجہ سے پہلے ہی سرخ تھی ۔ گھر والوں کی تفتیشی نگاہوں سے بچنے کا صرف یہی ایک حل انہیں نظر آیا ۔ دوستوں نے افسوس کا اظہار تو کم ہی کیا ۔ البتہ مذاق زیادہ اڑایا گیا ۔
موصوف ہمیشہ اپنی قمیض کی جیب میں ایک ایسی ڈائری رکھتے کہ جس میں روزانہ ادا کی گئی پنجگانہ نمازوں کی ادائیگی کے اوقات درج ہوتے ۔ چہرہ ان کا تراشی ہوئی داڑھی سے منور تھا ۔ایسے میں موصوف کے چہرے پہ زن آٹے دار تھپڑ کی لالی سمجھ سے بالا تر تھی ۔جو موصوف نے کچھ یوں بیان کی ۔
ان ہی کے کالج کا ایک آوارہ لڑکا اکثر بسوں میں لڑکیوں سے مہذب انداز میں چھیڑ خانی کرتا ۔ بد قسمتی سے اس بار وہ مہذب انداز چھیڑ خانی موصوف کی بغل کے نیچےسے ہاتھ نکال کر آگے کھڑی لڑکی سے کرنے لگے ۔تو زن آٹے دار تھپڑ کے سامنے جو پہلا چہرہ آیا وہ موصوف کا تھا ۔سو وہ انہی پر جما دیا گیا ۔اور وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ ماجرا کیا ہوا ۔ اپنے پیچھے کھڑے مہربان کو پایا تو معاملہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی ۔مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی ۔پھر اس کے بعد وہ زندگی بھر بس کے پچھلے حصے میں ہی اپنا مقام بناتے رہے ۔ پچھلے دروازہ پر لٹک کر جانے کو بہتر جانتے اگلے دروازہ کے قریب جانے سے ۔
ابھی حال ہی میں دو خواتین ارکان اسمبلی میں دست بدست تھپڑوں کا تبادلہ ہوا ۔ مگر گونج زور دار نہیں تھی ۔البتہ گالیاں کافی جاندار تھیں ۔اگر زنانیاں( خواتین) آٹے دار ہوتیں تو زن آٹے دار گونج مرد ارکان کے کانوں میں بھی پہنچتی اور شائد ڈر کے مارے مرد و خواتین کی نشستیں اور دروازے بس کی طرح آگے پیچھے ہو جاتے ۔شائد اسی لئے تو آٹا گوندھنے والی خواتین کو اسمبلی کی اہلیت کے قابل نہیں سمجھا جاتا ۔ کہیں ان کی گونج قوم کو سنائی نہ دے جائے ۔



نوٹ : اس مضمون کو طنز و مزاح کے تناظر میں پڑھاجائے ۔

7 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔