Saturday, November 18, 2017

گرہیں

0 comments
  آئینہ کے سامنے  مخاطب دوسرے ہوتے ہیں مگر چہرہ اپناہوتا ہے۔ لفظ اپنے لئے ہوتے ہیں مگر سناتے  دوسرے کوہیں۔نصیحت انہیں کرتے ہیں  مگر سمجھاتے خود کو ہیں۔ سوچ کی مہک سے لفظوں کی مالا پہن کر عجز و انکساری میں اتنے جھک جاتے ہیں کہ نشہ میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ پردے اُٹھانے چاہیں تو بدن تھکن سے چور ہو جائے فاصلے سمٹنے کا نام نہ لیں۔آئینہ میں عکس ہو یا زمین پر پرچھائی ،روشنی گل ہوتے ہی اوجھل ہو جاتے ہیں۔روشنیوں کے ان ہمسفروں سے اندھیروں کے خوف اچھے جو بند آنکھوں میں بھی خواب سجائے...