سفر چاہے کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو بدن تھکن سے چور بے آرامی کی سولی پر لٹک جاتاہے۔ساتھ چلنے والے ساتھ ہونے کا احساس جتاتے رہیں تو بدن احساس کے ایک لطیف جھونکے کی بدولت اذیت کے بیت ے پل سے چھٹکارا پانے کی اہلیت پا لیتا ہے۔جسم و جاں ساتھ ساتھ رہتی ہے ریل کی پٹڑی کی مثل آغاز سے انجام سفر تک ہمسفر،قریب رہتی ہے بغلگیر نہیں۔تبھی تو منزل مقصود پر پہنچ کر اپنی چاہ پا کر تھکن کی زمین پر سکون کے قالین بچھ جاتے ہیں۔ تھکن کے اُکھڑے فرش نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔بلندی کی انتہاؤں سے منظر پھیل جاتے ہیں،ہدف سکڑ...