اللہ کی محبت کا دم بھریں تو دو گھونٹ پانی حلق سے نیچے نہ اترے۔ قلب سنبھالے نہ سنبھلے۔سجدہ میں سر اترے تو عرش سے رحمتوں کی سوغات برسے۔ دروازے وکھڑکی پہ متوالے دستک سے محبت پانے کو محفل میں جھکتے عشقِ ہوا بن کر بے خود ہو جائیں۔دستکِ ہاتھ کا وہ جنون کبھی دستکِ ہوا کی ہمسری نہیں کر سکا۔نظروں کے سامنے رہنے والوں میں وہ احساس اتنا کمزور تھا کہ دروازے سے نکلنے والی ایک دھمک طوفانِ انتظار کی عکاس تھی۔ انہونی باتوں کے لئے انجانی کہانیاں نادانی کی تصویر دکھائی دیتی ہیں۔جس کو ہاتھ چھو...
بلاگ کا کھوجی
موضوعات
آمدو رفت
بلاگر حلقہ احباب
تازہ تحاریر
Pages
تبصرے
Tuesday, September 15, 2015
Saturday, August 22, 2015
برقی پیغامات
Mahmood ul Haq
12:23 AM
1 comments



رات کے پچھلے پہر جب انسان دنیا و مافیا سے بے نیاز خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہوتا ہےتو بعض اوقات شدید پیاس کا احساس بند آنکھ کھول کر پانی تک رسائی کا راستہ دکھاتا ہے۔ ہاتھ لمبا کر کے گلاس اُٹھایا جاتا ہے اور ہونٹوں سے لگا کر غٹا غت حلق سے نیچے اُتار لیا جاتا ہے۔ مشن مکمل ہونے پر آنکھیں پھر سے بند ہونے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔اسی طرح کے کئی مواقع سے ہمیں روز انہ صبح سے شام تک گزرنا ہوتا ہے۔ ہمارے لئے یہ معمولات زندگی ہوتے ہیں سائنس اس کی کئی توجیحات پیش کرتی ہے۔ ہمارے ایکشن اور رویوں میں برین...
Sunday, August 2, 2015
عمل کی رسی
Mahmood ul Haq
7:06 PM
0
comments


سنبھل سنبھل کر پاؤں رکھنے سے لے کر ذہنی یکسوئی تک توازن کا رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔کشتی بنانے والا اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ پانی میں کشتی کا توازن قائم رہ سکے اور سفر کرنےوالے محفوظ بھی رہیں اور پار بھی لگ جائیں۔یہی سوچ اسے سفر کرنے والوں سے ممتاز رکھتی ہے۔کیونکہ وہ اپنے فن میں یکتا ہوتا ہے۔ تند وتیز لہروں سے نبردآزما ہونے کے لئے انتہائی باریک سوراخ بھی در خوراعتنا نہیں سمجھے جاتے۔کیونکہ ناخدا کشتی سے باہر کی لہروں کے تھپیڑوں سے باآسانی نپٹ لیتے ہیں مگر فرش کے سوراخ سے اُبلتے...
Thursday, July 16, 2015
چار حروف سے چکا چوند روشنی
Mahmood ul Haq
1:03 PM
0
comments


جب دھوپ کی شدت بڑھتی ہے تو بادلوں کے برسنے کے انتظار میں آنکھیں بار بار آسمان کی طرف اُٹھتی ہیں۔ جب بادل برسنا شروع کریں اور پانی ٹخنوں سے اوپر بہنا شروع کر دے تو دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ جاتے ہیں۔جب سردی بدن کو کپکپانے لگے تو گرم لحاف ہو یا ہوا بدن کو راحت پہنچاتے ہیں۔ سخت گرم مرطوب ہواچلنے لگے تو برف کا ایک ٹکڑا ہتھیلی پر رکھنے سے وجود میں ٹھنڈک کا احساس بھر جاتا ہے۔ موسمی تغیرات کے اثرات تو اجسام پر تقریبا ایک جیسے احساس ہی پیدا کرتے ہیں۔ برس ہا برس کی زندگی بار بار موسموں کے آنے جانے...
Thursday, May 21, 2015
غُبارے
Mahmood ul Haq
11:48 AM
0
comments


کیش رجسٹر پر بل ادا کرنے کے بعد کیشئیرنے مسکرا کر مجھے الوداع کہا تاکہ میں شاپنگ کے لئے یہاں کا رخ بار بار کر وں اور میں اس ارادے کے ساتھ سامان سے بھری ٹرالی کو گھسیٹتا کار تک پہنچاکہ آئندہ یہیں سے ضروریات زندگی کی اشیا خریدوں گا۔میرے چہرے پر ایک دبی سی مسکراہٹ کافی دیر تک رہی۔یہ اس خوبصورت نوجوان کیشئیر لڑکی کےالوداعی دلکش اور نرالے انداز کی وجہ سے تھی یا شائد شاپنگ مال جیسے بڑے سٹور کے انتہائی ترتیب اور جازب نظر ماحول کی وجہ سے ۔ لیکن ذہن ایک جھٹکے سے ناں ناں کرتا وہاں سے نکل آیا۔اچانک...
Friday, May 15, 2015
دائرے
Mahmood ul Haq
6:29 AM
2
comments


زندگی بھر ہم سینکڑوں دائرے اپنے ارد گرد بناتے ہیں۔کہیں رشتوں کے، کہیں تعلقات کےاور کہیں روٹی روزی کے چکر۔ان میں حسبِ ضرورت داخل ہوتے ہیں۔جب چاہا باہر نکل آتے ہیں۔اتنے مختصر اور قلیل مدتی دائرے ایک دوسرے میں ایسے پیوست ہوتے ہیں کہ دیکھنے میں ایک جگہ پر ہی جامد نظر آتے ہیں۔مگر جب انہیں الگ الگ کیا جائےتو پیاز کی پرتوں کی مانند اترتے چلے جاتے ہیں۔دیکھنے میں وہ دائرے ایک دوسرے میں ضم نظر آتے ہیں مگر گردش اپنے اپنے مدار میں کرتے ہیں۔ہم جس کے قریب ہوتے ہیں وہی ہمیں بڑا نظر آتا ہے۔کنالوں پر محیط گھرسامنے...
Thursday, April 9, 2015
بند کلیاں کھلتے گلاب
Mahmood ul Haq
10:52 AM
0
comments


گلشن میں جب بہار آئے ۔آسمان سے چھم چھم بادل برستا جائے ۔ہوائے گردو غبار تمازت آفتاب سے سمٹتی جائے۔آنکھوں میں بنتے موتی آنسو بن چھلکتے جائیں۔لفظ اپنی ہی زباں میں اجنبیت کا رنگ پائیں تو کہکشاں سے روشنیاں کھلی نگاہوں سے نہ نظریں چار کر پائیں۔کون کس سے مخاطب ہے ؟لفظ کس سے آشنا ہیں؟قلم تو ندی ہے جس کے راستوں پر تحریر کی روانی میں خیالات کا پانی بہتا ہے۔چند پلوں پر کھڑے تکتے رہتے ہیں۔چند کشتیوں میں یہاں سے وہاں اتر جاتے ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ہیں کہ یہاں ڈوبے تو وہاں نکلے وہاں ڈوبے تو یہاں نکلے۔آبشاریں...
حسنِ تخلیق
Mahmood ul Haq
10:26 AM
0
comments


وقت کی سوئیاں ساکت ہو جائیں تو کیا زندگی رک جائے گی،سانسیں تھم جائیں گی، خواب بکھر جائیں گے،خواہشیں مٹ جائیں گی،آرزوئیں دم توڑ دیں گی یا رشتے ناطے ٹوٹ جائیں گے۔نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں بدلے گا۔آنکھیں اندھیرا چھا جانے پرکالی چادر اوڑھ لیتی ہیں مگر ہاتھ ٹٹول ٹٹول کر اپنے لئے راستہ تلاش کر لیتے ہیں۔ چاہے پاؤں کتنی ہی ٹھوکروں سے سنبھل پائیں۔زندگی ہاتھ پاؤں کی مانند لگے بندھے اختیار تک محدود نہیں ہوتی۔یہ تو تخیل پرواز رکھتی ہے۔پرندوں کی طرح فضاؤں میں اُڑان بھر کر ایک منزل سے کہیں دور دوسری منزل تک...