انسان اپنی سوچ کے دھارے میں بہنے اور بہانے کے عمل سے دوچار رہتا ہے ۔ کبھی خوشی سمیٹتا تو کبھی غموں کے جام چھلکاتا ہے ۔ جینے کے نت نئے انداز لبادے کی طرح اوڑھے جاتے ہیں ۔ مگر جینا کفن کی طرح ایک ہی لبادے کا محتاج رہتا ہے ۔ برداشت دکھ جھیلنے اور درد سہنے میں طاقت کی فراہمی کا بندوبست کرتی ہے ۔ نقصان عدم اعتماد پیدا کرتا اور بھروسہ کو پامال کرتا ہے ۔ فائدہ تکبر کا مادہ پیدا کرتا ہے ۔ مقدر کے سمندر میں سکندر کی ناؤ بہاتا ہے ۔ انسان سوچتا وہی ہے جو پانا چاہتا ہے ۔ ہوتا وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہو ۔زندگی...