Thursday, April 9, 2015

بند کلیاں کھلتے گلاب

0 comments
گلشن میں جب بہار آئے ۔آسمان سے چھم چھم  بادل برستا جائے ۔ہوائے گردو غبار تمازت آفتاب سے سمٹتی جائے۔آنکھوں میں بنتے موتی آنسو بن چھلکتے جائیں۔لفظ اپنی ہی زباں میں اجنبیت کا رنگ پائیں تو کہکشاں سے روشنیاں کھلی نگاہوں سے نہ نظریں چار کر پائیں۔
کون کس سے مخاطب ہے ؟لفظ  کس سے آشنا ہیں؟قلم تو ندی ہے جس کے راستوں پر تحریر کی روانی میں خیالات کا پانی بہتا ہے۔چند پلوں پر کھڑے تکتے رہتے ہیں۔چند کشتیوں میں یہاں سے وہاں اتر جاتے ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ہیں کہ یہاں ڈوبے تو وہاں نکلے وہاں ڈوبے تو یہاں نکلے۔
آبشاریں ندی نالے دریا و سمندر ایک قطرہ سے ہی موج و طلاطم برپا کرتے ہیں اور قلم سیاہی ایک نقطہ سے ہی علم و دانش کے گراں قدر کتب انبار میں ڈھل جاتے ہیں۔حسن عشق کے انتظار میں ڈھلنے سے پہلے سہما رہتا ہے۔ جوانی طاقت کے نشہ میں بڑھاپے کے خوف کے انتظار میں ڈری رہتی ہے۔علم بڑائی کے نشہ میں ناموری کی خواہش پر اٹکا رہتا ہے۔غربت امارت پانے کی تگ و دو میں بہکتی رہتی ہے۔امارت تکبر کے مینار پر جھکنے سے لرزاں رہتی ہے۔انسان قول و فعل کے تضادات کی گھتیاں سلجھاتے راہ حق و باطل کی پگڈنڈیوں پر پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے۔ کسی کو نظریں اپنا بنا لیتی ہیں۔کوئی نظر میں گر جاتا ہے۔کوئی سیدھا دل میں اُتر جاتا ہے تو کوئی وہاں انگار بھر دیتا ہے۔کوئی بندھن کے دھاگوں میں جکڑا ہے تو کوئی بندش کے رشتوں میں۔دیکھنے والے محرم ہو جاتے ہیں چھپنے والے بیگانے۔چیختی سسکیوں پر رنجیدہ ہو جاتے ہیں تو چنگھاڑتی آوازوں سے خوفزدہ۔دولت کے دیوتا پجاریوں کی تسکین انا سے اکڑ کر رہتے ہیں۔جو غلافوں میں لپٹے  چڑھاوے پا کر من کے مندر کی گھنٹیاں بجاتے ہیں۔جہاں رعونت کے پہاڑوں کے نیچے سرفروشی کے کفن میں لپٹی اُمنگیں دفن ملتی ہیں۔
یہ پیاروں کی دنیا ہے جہاں صرف چاہت اقرار کافی نہیں۔لفظ کہنے سے نہیں مفہوم واضح ہونا شرط ہے۔سو صفحات پر دس ہزار س چ لکھنے سے کوئی سچ لکھنے والا نہیں کہلا سکتا۔

محمودالحق 

حسنِ تخلیق

0 comments

وقت کی سوئیاں ساکت ہو جائیں تو کیا زندگی رک جائے گی،سانسیں تھم جائیں گی، خواب بکھر جائیں گے،خواہشیں مٹ جائیں گی،آرزوئیں دم توڑ دیں گی یا رشتے ناطے ٹوٹ جائیں گے۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں بدلے گا۔آنکھیں اندھیرا چھا جانے پرکالی چادر اوڑھ لیتی ہیں مگر ہاتھ ٹٹول ٹٹول کر اپنے لئے راستہ تلاش کر لیتے ہیں۔ چاہے پاؤں کتنی ہی ٹھوکروں سے سنبھل پائیں۔
زندگی ہاتھ پاؤں کی مانند لگے بندھے اختیار تک محدود نہیں ہوتی۔یہ تو تخیل پرواز رکھتی ہے۔پرندوں کی طرح فضاؤں میں اُڑان بھر کر ایک منزل سے کہیں دور دوسری منزل تک سفر طے کر لیتی ہے۔آسمان پر چمکتے تارے جو صرف گنتی میں رہتے تھے وہ اپنی ساخت ہیت اور گردش مدار کا اتہ پتہ دینے لگے ہیں۔
عقلِ انسان نے آنکھ کو دو انتہاؤں کے وہ مناظر دکھا دئیے کہ عقل پر ماتم کرتے کرتے تخلیق یزداں تک جا پہنچے۔ خوردبین نے انہیں امیبا اور ہبل نے گلیکسیوں کی جگمگاتی دنیا کے در وا کر دیئے۔ قانون قدرت کے طلسماتی کرشماتی کائنات کے بھید کھول دیئے۔ جس کی وسعتوں میں عقل انسان دھنستی چلی جا رہی ہے۔خاص طور پر وہ نشانیاں جو عقل والوں کے لئے ہیں۔انسان عجائبات کی دنیا کا باسی ہے۔ جس میں عجوبے سجا سجا کر رکھے جاتے ہیں۔نباتات کی دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بیج تناور درخت نہیں بنتا۔ وقت کی دھوپ چھاؤں انہیں بانجھ بنا دیتی ہے تو کبھی زمین کو بنجر۔آنکھوں سے پڑھے گئے الفاظ اور کانوں سے سنے گئے فقرےیاد داشت کے الگ الگ فولڈرز میں محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔مگر بعض اوقات کچھ  کہی ان کہی کہانیاں  خود سے جنم لے لیتی ہیں۔
دعوؤں سے درماندگی دور ہوتی ہے۔خامیوں سے درستگی کی جانب سفر ہوتا ہے۔مگر درحقیقت حقیقت جاننے کی جستجو  میں بعض اوقات سچ دور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ملنا اور پانا تب بیکار ہوتا ہے جب اسے سنبھالا نہ جا سکے۔
بچپن معصومیت سے جانا جاتا ہے، جوانی حسن سے تو بڑھاپا لاغرپن سے۔قید و بند کو صعوبت جانا جاتا ہے،آزادی کو نعمت۔اگر زمین چاند سورج آزادی پالیں تو تصویر کا دوسرا رخ کیا ہو گا۔آنکھ ایک بار جس منظر کو ایک بار موہ لے لبھا لے۔ پھر بند آنکھ میں وہی منظر خواب سہانے بن کر واویلا مچاتے ہیں۔
حرکت کرنے والی ہر شے جاندار و بے جان آگے بڑھنے پر ہی رفتار بڑھا پاتی ہے۔پیچھے ہٹنا  ایک حد تک ہی ممکن ہے کہ جس سے صحیح سمت اختیار کی جا سکے۔بہت زیادہ تنہا رہنے والے اور بہت زیادہ بھیڑ میں پھنسے لوگ ہی خود فراموشی کے سوالات کی بوچھاڑ کا شکار رہتے ہیں۔ کبھی کبھار ٹھنڈے میٹھے چشموں سے چند قطرے سیرابی سے تسکین پا لیتے ہیں۔چشموں سے پھوٹتا میٹھا پانی کئی آبادیوں سے گزر کر مینڈکوں کی آفزائش گاہ اور مگر مچھوں کی کمین گاہ بن جاتا ہے۔پانی کے ریلے تو گزر جاتے ہیں مگر مٹھاس پانے والےچشموں تک رسائی کی کوشش کرتے رہتے ہیں کیونکہ بہتے پانی ہر بستی میں اپنا پتہ چھوڑ جاتے ہیں۔
منہ سے نکلے اور قلم سے لکھے الفاظ اس حقیقت کے آئینہ دار ہوتے ہیں جن سے ان کے میٹھے یا کڑوے پن کے آغاز سفر کی روئیداد بیان ہوتی ہے۔فلسفہ حیات میں طےشدہ ترجیحات پر ڈگری عطا ہوتی ہے جو کبھی نمبروں تو کبھی اے بی سی ڈی سے تولی جاتی ہے۔جو تعبیری لحاظ سے خاکی ہے ابدی اور دائمی نہیں۔
پہناوا ہیرے جواہرات سے مزین ہے تو حسن اداؤں سے۔ یہ سب ایسے ہی ہے جیسے کہ بھوک آنکھ بھر کر دیکھنے سے مٹتی ہو۔جلوے اور دکھاوے کا اختیار تو قدرت کا ہے جو اپنی بڑائی اور طاقت کی سند رکھتا ہے۔ہر تخلیق کا اپنا حسن ہے جو اسے اپنی ذات میں ممتاز رکھتا ہے۔ بھاؤ تاؤ تو دوکاندار اور خریدار کا پتہ دیتے ہیں، بڑائی اور طاقت کا نہیں۔مہنگا سودا بیچ کر دوکاندار ممتاز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی مہنگی شے پہن کر خریدار۔

محمودالحق