Saturday, June 21, 2014

محبت کی متوالی مکھیاں

6 comments
تکمیل ذات و خیال کا ایسا بھنور ہے جس سے نکلنے کے لئے جسم و جاں تنکے کے سہارے کی اُمید بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پانا اور دینا حرف غلط کی مثل رہ جاتے ہیں۔ دراصل جینا اور مٹنا جسم و جاں کے باہمی تعلق کو سانس کی زندگی تک زندہ رکھتے ہیں۔ مٹے بنا جینا کھل کر سامنے نہیں آتا۔ ذات ایک ایسا بلیک ہول ہے جو قریب آنے والی تحسین و پزیرائی کو جزب کرتا ہے۔خیال مخالف کو آلارم بجا بجا دور بھگاتا ہے۔مکمل حیات جاودانی کے منظر احساس کو چھو جاتے ہیں۔جسے مکمل جانا نہ جا سکے اسے مکمل پایا نہیں جا سکتا۔
بچپن لڑکپن جوانی کے حالات کہانیوں کے کرداروں سے مطابقت پیدا کر لیتے ہیں۔ پھر وہی کردار زندگی میں رنگ بھرنے کے لئے تلاش کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔یہ سفر صرف خوشبو کا سفر ہی رہتا ہے۔جسے محسوس کیا جا سکے لیکن جب پانے کی خواہش میں قریب ہونا چاہیں تو کانٹے دامن سے اُلجھنے تک آ جاتے ہیں۔حسن و خوبصورتی پائیں یا دامن بچائیں۔پھر کانٹوں سے بچنا ہی تلاش سفر کا انجام رہ جاتا ہے۔زندگی اپنے ارد گرد حفاظتی حصار بنائے رکھتی ہے۔جو نہ ہی فاصلے کم ہونے دیتی ہے۔ نہ ہی دور بھٹکنے دیتی ہے۔ لیکن جو کشش سے آزادی چاہتے ہیں وہ بندش خلا میں کھو جاتے ہیں۔ پھر وہ روشن رہیں یا تاریک نظر میں نہیں رہتے۔
انسان تاروں کی طرح چمکنا اور روشن رہنا چاہتا ہے۔ تاکہ دیکھنے والے نظر اُٹھا کر ہی دیکھ پائیں۔جن کا حاصل ، لا حاصل ہےکیونکہ جو کوشش سے بھی نہ پائے جا سکیں ۔ ان کے لئے دعائیں بھی کارآمد نہیں ہوتی۔
ہیرے سونے کو پانے سے آرزؤں کی تشنگی کم ہوتی ہےمگر ان کی تلاش میں تہہ زمین پتھروں کوئلوں تک پہنچنے کی جستجو نہیں کی جاتی۔زندگی بھر کی کوشش میں بھی شائد گلے کا ہار بھی ہاتھ نہ لگ سکے۔صرف وہی پانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا حاصل آسان ہو۔ مشکل ہدف اکثر نشانے سے چوک جاتے ہیں ۔
زندگی کو جاننے کے لئے کہانیوں داستانوں کتابوں سے رہنمائی لی جاتی ہے۔مگر نشانیاں عقل والوں کے لئے ہیں۔کائنات میں پھیلی ہر شے اپنی اپنی جگہ ایک الگ داستان کی غماز ہے۔صرف دیکھنے والی نظر چاہیئے۔کون کس سے کیا پا رہا ہے۔انسان خیر و شر کے امتزاج سے ہی اشرف المخلوقات کے درجہ تک پہنچا ۔چاہے وہ خیر میں بندگی کرے یا شر میں زندگی بسر کرے۔ 
انسان تکمیل کی منازل لینے اور دینے سے طے کرتا ہے۔یہ جاننا ضروری نہیں کہ کوئی کیا دینا چاہتا ہے ۔ یہ ضروری ہے کہ لیا کیا جا رہا ہے۔کیونکہ دو مخالف اجزا ایک ساتھ سامنے آتے ہیں جنہیں کبھی ہاں سے قبول کرتے ہیں تو کبھی نا ں سے دور کرتے ہیں۔ باتیں جب سمجھنے میں مشکل ہو جائیں تو فطرت میں چلے جانا چاہیئے کیونکہ فطرت سے  زیادہ خوبصورت جواب کہیں اور  سےشائد نہ مل پائے۔ 
گلستانوں میں کھلتے پھول  کیڑے مکوڑوں بھنوروں اور شہد کی مکھیوں کے لئے یکساں دعوت قربت کا اہتمام رکھتے ہیں۔چشمہ کے بہتے پانی پینے میں خوش ذائقہ اور میٹھے ہوتے ہیں مگر ان پر سفر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح سمندر کے پانی سفر کی تھکان نہیں ہونے دیتے پر سکون رکھتے ہیں مگر پیاس بجھانے کی قدرت نہیں رکھتے۔جنہیں جو چاہیئے انہیں اسی کا قصد کرنا ہوتا ہے۔ 
جو مکھی پھول سے رس لیتی ہے وہ اسے چھتوں میں بھر دیتی ہے۔وہ شہد کی مکھی کہلائے یا ہنی بی اپنی افادیت کی وجہ سے پہچان میں رہتی ہے۔ انہی پھولوں سے پانی لینے والے حشرات ایک نظر نہیں بھاتے۔کیونکہ وہ صرف اپنی ذات کے لئے پھولوں میں سے پانی چوسنے آتے ہیں۔پانی پیا اور اپنی راہ لی۔اگر رس لینے والے نہ پہنچ پائیں تو پھول رس کے خشک ہونے پر اپنا وجود تحیل کر دیتے ہیں۔ 
دیکھنا تو یہ ہے کہ پانی لینے والے اور رس حاصل کرنے والے ایک ہی طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں۔لیکن ان کی شناخت الگ الگ ہے جسے صرف نظر کی پہچان سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ ایک اپنی تشنگی مٹانے کے لئے پھول کا پانی پانے آتے ہیں۔ اگر ان کی تعداد بڑھتی جائے تو بہت جلد پھول کا رس خشک ہونے لگتا ہے ۔شہد کی مکھی کے پہنچنے سے پہلے وہ پھول رس کو اپنے وجود میں سمیٹ کر دفن ہو جاتا ہے۔
ہماری زندگی پھول کی مانند ہے اللہ کی محبت رس کی صورت میں اور دنیا کی آرزؤئیں پانی کی صورت میں لینے والوں کو دی جاتی ہیں۔اللہ کی محبت رکھنے والے اللہ کی محبت پانے کے لئے پھولوں سے محبت کا وہ رس لے کر چھتوں میں بھر بھر غلاف عشق بنا دیتے ہیں۔ جہاں عشق کے متوالے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے رہ کر محبت کے رس نچوڑ لیتے ہیں جس میں شفا بھی ہے اور حکمت بھی۔دوسری طرف ایک ایک رہنے والے لاکھوں کروڑوں دنیاوی محبت کے حصول کے لئے پانی پی پی کر پھول کی ذات فنا کر دیتے ہیں۔
جن پھولوں کی قسمت میں غلاف عشق میں محبت کے رس بھرنا لکھا ہو۔محبت کی متوالی مکھیاں ان پھولوں تک رسائی پا لیتی ہیں۔   
     
تحریر:  محمودالحق

Thursday, June 12, 2014

خوشی راس نہیں آتی

1 comments

تکلیف دہ کانٹوں بھرے راستوں سے ننگے پاؤں چلتے چلتے منزل کے قریب پہنچ کر سستانے کی خواہش درد کی شدت میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر قدم چلنے کی بجائے گھسٹنے پر آ جاتے ہیں۔ قریب ہو کر بھی منزل کوسوں دور نظر آتی ہے۔سانس سانسوں میں الجھتی چلی جاتی ہے۔ اجنبی پن میں جتنی تیزی سے اندر اُترتی ہے اُتنی تیزی سے باہر نکلتی ہے۔ 
زندگی راستہ پر ڈال دیتی ہے ۔ عقل سے مقام منزل تک مسافت کی راہداریاں بنائی جاتی ہیں۔ دیکھنے میں جو سیدھی اور قریب ترین پگڈنڈیوں کو نظر سے استوار کرتی ہیں۔ فاصلے ماپ لئے جاتے ہیں۔ قدم گن لئے جاتے ہیں۔وقت طے کر لیا جاتا ہے۔ خوشیوں سے جھولی بھر لی جاتی ہے۔ مگر تصور خیال حقیقت کا روپ دھارنے میں پس و پیش اور لیت و لعل سے کام لیتا ہے۔ منزل پانے کی خوشی جتنی زیادہ بانہیں کھولتی ہے۔ منظر اوجھل ہونے کا خوف اتنا زیادہ اسے جکڑ لیتا ہے۔ 
حرف آخر سمجھ کر فیصلے صادر کر دئیے جاتے ہیں۔ عقل حالات سے سمجھوتہ کر لیتی ہے۔خیال حقیقت میں ڈھلنے پر دھمال ڈالتا ہے۔ سکون کی داسیاں  عقل کی مورتیوں پر چڑھاوے چڑھاتی ہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ دودھ کی نہریں بہنے کے لئے فرہاد کی ایک ضرب کی منتظر ہیں۔
غم ہجر محبوب میں کیفیت دل سے ہو کر گزرے تو چشم تر سے گزرے۔ یقین سے کہنا ہو گا کہ جسے دیکھنے ہوں جلوے وہ شہر محبت کے در سے گزرے۔ 
پردے گرانے سے جو نظارے ہوں وہ چلمن اُٹھانے سے نہیں ۔ پوجا کرے گا تو پجاری بنے گا۔عشق میں عقیدت مند رہے گا۔ محبت درگزر و معافی کی اونچی سر تان سے نغمہ سرا ہو گا۔ دور رہنے والا عشق پاس رہنے والی محبت سے  رتبہ میں عظیم ہے۔ آگ کے آلاؤ کتنے ہی روشن کیوں نہ ہو۔ قریب آنے پر جلانے میں دیر نہیں لگاتے۔ روشنیوں کے دہکتے آلاؤ فاصلوں کی دوری سے  جلانے کی فطرت پر نہیں ہوتے۔ 

Wednesday, June 4, 2014

نشانِ منزل

0 comments
بلندیوں کی جس انتہا پر پرواز کرتےہیں، اسی قدر اعتماد اور اعتبار بھی رکھتے ہیں۔ اُڑنے والا جہاز ہو یا اُڑانے والا پائلٹ۔ مہارت پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کی مسافت طے کرتے ہیں۔زندگی زندہ رہنے کی گارنٹی عطا کرتی ہے۔حالانکہ زمین پر چلتے ہوئے انسان بھی بلندیوں سے رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح بھی دکھائی نہیں دیتے۔اتنی بلندی مگر خوف کا عنصر سرے سے غالب نہیں آتا۔اس لئے کہ اگر جہاز کے پرزہ جات کے ناقابل استعمال ہونے کا یقین کر لیں تو خوف کے مارے آنکھیں کھولنا مشکل ہو جائے گا اور اگر پائلٹ کی نا تجربہ کاری کا یقین ہو جائے تو تو موت کو برحق کہنے والے بھی ایسے سفر کو خودکشی سے کم نہیں سمجھ سکتے ۔ 
ہم زندگی کی بدنی مسافرت میں اپنی جان  کا اختیار ان دیکھے انسان کے حوالے کرنے سے ہچکچاتے نہیں ہیں اور لے جانے والے پرزے بھی اپنی گارنٹی خود دیتے ہیں۔لیکن جب تخیل میں سے خواب وخیال حقیقت کا روپ دھارنے پر آتے ہیں تو ،اگر ،مگر، کیوں، کیسے  کی تکرار انہیں خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ممکن نا ممکن کی ضرب تقسیم سے فائدے کے نمبر حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اچھے نمبروں کے لئے انسان بچپن سے امتحانات کے پل صراط سے گزرتا ہے۔اول پوزیشن پانے پر ہار کی مالا استاد کے گلے میں پہنانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ حالانکہ دن رات کی محنت سے حاصل وجود کسرت سے ہوتا ہے۔ لیکن رہنمائی اور پابندیٗ اوقات اسے مقصدکی تکمیل تک پہنچا کر دم لیتی ہے۔
ذات کی پہچان کا سفران تمام مسافتوں سے کہیں زیادہ توانائی کا طالب ہوتا ہے۔اس منزل کے مسافر جب بلندیٗ پرواز میں رہنما کے گلے میں مہارت اور قابلیت کی مالا پہنا دیتے ہیں تو انسانوں کی بھیڑ  سے دور ہوتے ہوئے بھی وہ محسو س انہیں قریب  کرتے ہیں۔
جو پھول خوشبو دیتا ہے وہ رنگ بھی رکھتا ہے۔جو دلکشی میں جازب نظر ہوتے ہیں۔جن کی تعریف نہ کرنا بھی خوشبو سے نا انصافی کے زمرے میں آتی ہے۔ان رنگوں میں بعض رنگ خاص ہوتے ہیں۔خوشبو سے مہکا دیتے ہیں۔ان کا عرق بھی آنکھوں کی بینائی کو شفا بخشتا ہے۔لیکن انہیں پھر بھی مخصوص و محدود نہیں کیا جا سکتا۔خوشبو چھپائی نہیں جا سکتی جب بھی کھولیں گے وہ دوسروں تک پہنچ جائے گی۔اگر دوسروں کو اس سے محروم رکھنا چاہیں گے تو خود بھی اس سے محروم رہیں گے۔
آسمان چمکتے دمکتے ستاروں سے بھرا پڑا ہے۔ جو طواف گردش میں پابندی سے جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔مگر ان میں ہی قطب ستارے تبدیلی کے مراحل سے کم گزرتے ہیں۔ایک جگہ قائم رہ کر دوسروں  کو صحیح راستہ کی رہنمائی کرتے ہیں۔جس سے راستہ بھٹکنے والےمنزل تک با آسانی پہنچ جاتے ہیں۔دوسروں کو بھی اسی راستہ کی 
 نشاندہی کرتے ہیں۔
پسند کی شے کو مخصوص کر لینا  انسانی فطرت میں ہے۔ وہ بلا شرکت غیرے اپنا  اختیار رکھنا چاہتا ہے۔جو اسے خود پرستی میں مبتلا کر دیتا ہے۔جو ایک لا علاج مرض کی طرح وجود ہستی کو متواتر کچوکے لگاتا رہتا ہے۔پانے کی چاہت ، قبضہ کی شدت میں تبدیل ہونے میں کچھ وقت لیتی ہے۔پھر میں کی رسیاں پاؤں کی بیڑیاں بن جانے میں دیر نہیں لگاتیں۔
آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ حقیقت کو حق کے ساتھ سمجھا جائے۔پر پرواز کی سکت نہ رکھتے ہوں تو اونچی اُڑان خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔انھیں پھڑ پھڑاتے رکھنا ضروری ہے۔تاکہ وقت کی مالش سے  قوت پرواز رفتہ رفتہ بڑھتی رہے۔تقویت پانے کے لئے تنہا پرواز کا شوق مہنگا پڑ جاتا ہے۔بلندی پرواز روکنے کے لئے بلند نگاہ خور ان پر جھپٹنے کے لئے ہر دم تیار رہتے ہیں۔
ایک ہی طرح کی قوت پرواز رکھنے والے اکھٹے رہ کر ہی قطبی ستارہ کے بتائے راستہ پر چلنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔وگرنہ سفر کی تھکان قطبی ستارہ کو آنکھوں سے اوجھل کر سکتی ہے۔
پا کر دینے کا نام زندگی ہے۔خود کو نچھاور کر دینا بقاٗ حیات ہے۔
تھکا ماندہ وجود  خودفریبی میں رہے تو حیات باقی بن جاتا ہے۔جو صرف وقت کھونے کا دکھڑا سناتا رہتا ہے۔
منزل پانا اتنا آسان نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی ہو سکتا ہے۔کیونکہ جو دیکھا ہی نہ ہو وہ منزل کیسی۔ وہ صرف مقام کہلاتا ہے۔مقام تک لے کر جانے والے منزل ہوتے ہیں۔جو اپنی جگہ کھڑے رہ کر راستہ کی بھل بھلیوں سےگزر کر مقام تک رسائی کی منزل پاتے ہیں۔
مہمان بن کر جانا ہو یا مہمان کا گھر آنا ہو تو تیاری مکمل کی جاتی ہے۔غسل سے لے کر نئے کپڑے اور خوشبو کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ فنکشن کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔آغاز سفر سے پہلے ہی مقام تک پہنچنے کے تمام مراحل طے کر لئے جاتے ہیں۔
مگر جب روح کے سفر پر چلنا ہو تو گناہوں کی گھڑیاں سر پر اُٹھا کر طواف کعبہ تک چلا جاتا ہے۔اس مقام پر پہنچ کر توبہ سے دھلے نئے کپڑے زیب تن کئے جاتے ہیں۔پھر ان میں سے چند ان کپڑوں کو داغ دھبوں سے بچا کر رکھتے ہیں اور بعض دوبارہ آنے کا قصد کر کے توبہ سے دھلے کپڑے میلے کر لینے کے بعد پھر ایک نیا عہد کرتے ہیں۔
ایسی چھوٹ انسان تو گھر آئے مہمان کو بار بار نہیں دیتا۔مگر اللہ ہر بار اپنے گھر آنے والے بندے کو توبہ سے دھلے کپڑے بار بار لینے سے منع نہیں فرماتا۔
کیونکہ وہ عظم ہے عظیم تر خالق ہے، مالک ہے ، سننے والا ،جاننے والا،بخشنے والا ہے۔چاہنے والا اور چاہے جانے والا ہے۔ 

تحریر ! محمودالحق 
یکم جون 2014

در کائنات

2 comments
آٹھ سال بعد آٹھ ماہ سے لاہور میں بیتے دن آٹھ دہائیوں کی کہانی میں اوراق کتاب کی مانند کبھی کھلتے تو کبھی بند ہورہے ہیں۔ شہر مجھے نیا نہیں مگر باسی اجنبیت میں مدرس میں داخل ہوتے پہلے قدموں کی ہچکچاہٹ کا عملی نمونہ بنے پھرتے ہیں۔
جب الف سے آدم کی الف سے اولاد نے الف سے اللہ کے نام کی پہچان میں در کائنات پر پہلی دستک دی۔ جہاں سے ہر دستک پر ایک ہی آواز آتی ہے کہ " تمام تعریفیں اللہ کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے " ۔
جس نے جان کو جہان میں آدم کو فضیلت سے اپنا نائب بنایا۔ فرشتوں نے اس پر کہا کہ " جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا۔ اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تجھ کو بے عیب کہتے ہیں۔ اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں " ۔
تمام جہانوں کے رب نے کہا کہ " وہ بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے " ۔جیسا اس نے رحم کیا آدم پر " پھر اس نے آدم کی توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبوم کرنے والا رحم کرنے والا ہے" ۔
اور توبہ قبول کی قوم موسی علیہ السلام کی " اس نے توبہ قبول کی تمہاری بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے " ۔
جو عین شان رب العالمین ہے" بدلہ کے دن کا مالک ہے " چاہتا ہے کہ کائنات کا ہر زرہ اس کی حمدو ثنا  میں مصروف عمل رہے۔آدم یاد رکھے کہ وہ نائب ہونے کے ناطے صرف یہی پکارے کہ " ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں" ۔
جو اپنے راستہ سے بھٹک گیا ہدایت کے راستہ سے۔ انعام و اکرام کی خواہش کی بجائے جنہوں نے گمراہی اختیار کی اور بالآخر غضب کا شکار ہوئے۔
تمام جہانوں کا رب رحمن الرحیم آدم کو محبت و فضیلت کے سائے تلے دعا سے راست روی اور بخشش کا طلبگار بناتا ہے تاکہ فساد سے دور رہے۔