Monday, February 24, 2014

سرُ پھوکاں عشق دیاں زلفِ ہیر وی مستی اے

0 comments
آکھ وچ ککھ اے رہندے نال فقیراں دے
بھل بھلیاں رہ جانیاں  آندے حکم نزیراں دے

لوکاں ہمیشہ ڈھاڈے سن پائے جندڑی ہاسے سن
شاہواں دیاں پوشاکاں ہتھ انہاں دے کاسے سن

پانی دا رنگ نیلا آسماناں رنگ وی نیلا اے
راتاں پانی کالا اے آسماناں رنگ چمکیلا اے

رانجھے نہ آوے ونجلی ہیر دی کادی ہستی اے
سرُ پھوکاں عشق دیاں زلفِ ہیر وی مستی اے

جٹیاں دعاواں منگدیاں گلیاں وچ   پھج دیاں
ٹٹے تیراں نال میلا حسن دا نہیں کج دیاں

لیلی چیکاں ماریاں چمڑی دکھے جے مجنوں دی
سسی تھلو ں ٹیلے تے آساں لائی پنوں دی

عشق رب سچے دا بن ویکھے ترسیاں دا
اپنے تک اپڑن دا  راہ وکھایا رسیاں دا


محمودالحق

Friday, February 14, 2014

مکالمہ

6 comments

’’          آپ جیسے انسان کو آج کے دور میں کس نام سے پکارا جاتا ہے  ؟َ
:::  جی ! پاگل کہتے ہیں۔
’’       بالکل! پھر آپ عقل کی بات کیوں نہیں کرتے؟ 
:::  عقل والوں کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ تسلیم تو تبھی کیا جائے گا جب اس کی سمجھ آئے گی۔
’’       بھلا یہ بھی کوئی کام ہے ۔ صرف اس بات کو اپنے ذہن میں رکھیں کہ اس دنیا میں کامیابی کے لئے سچے اور کھرے پن سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔
:::  لیکن ایسی ہمت کہاں سے لاؤں جو اپنی کامیابی کے لئے دوسروں کو دھوکہ کی سولی پر قربان کر دیا جائے۔اس کے بدلے میں جو حاصل ہو وہ کاغذ کے چند لاکھ ٹکڑے ہوں گے جن سے سہولتیں ، آسائشیں تو خریدی جا سکتی ہیں۔ مگر کھلی آنکھ کا آرام اور گہری نیند کا سکون  نہیں۔اگرلوگ اس فلسفہ پر زندگی استوار کر لیں تو معاشرتی برتری کے تمام بت چکنا چور ہو جائیں گے۔
’’       باتیں سننے میں اچھی ہیں نصیحت کے لئے کارآمد ہیں طالبعلموں کو کلاس روم میں کتابوں کے ساتھ سنانے میں سویٹ ڈش کے طور پر کام دے سکتی ہیں۔مگر حقیقی زندگی میں ان پر عمل پیرا  رہ کر معاشی اور معاشرتی میدان میں  گولڈ میڈل نہیں جیتا جا سکتا۔
:::  لیکن اس بات کا ہار جیت سے کیا واسطہ؟ اگر موبائل فون کا نیا ماڈل ستر ہزار میں خریدنا درکار نہیں ،لینڈ کروزر میں بیٹھنے کی بے تابی نہیں،بیش قیمت محل دیکھ کر بھی جھونپڑی گرانے کی کوئی جلدی نہیں تو پھر زندگی کے بقایا ایام میں ایمان کی فروخت کا بورڈ آویزاں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ حاصل اتنا کم ہے کہ جس کے لئے بیش بہا خزانے لٹانے پڑیں گے۔ایمانداری ، اعتبار کے انمول موتی جنہیں چنتے چنتے زندگی بیت گئی۔سودا بہت مہنگا ہے۔سب سے بڑھ کر جنہیں جسم و جاں  سے مالک و مختار مانتے ہیں۔عہدو پیماں کا جن سے بندھن ہے اسے اچانک کیسے توڑ دیں۔اس کے لئے ایک عمر چاہیے ہو گی ۔  زندگی جینے میں تو بہت آگے ہیں مگر رہنے میں بہت پیچھے ۔
’’         باتیں یہی سب اچھی ہیں۔ حقیقت سے جدا نہیں۔ اگر اختیار فائدہ پہنچا رہا ہو تو فرض کی گنجائش نکالنے کی ضرورت نہیں ۔ایک  ہجوم سا ہجوم ہے جس میں آگے بڑھنا ہی مجبوری ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنا بھی پاؤں تلے روندنے کا سبب ہو سکتا ہے۔مسئلہ پیچھے رہنے کا نہیں، ساتھ چلنے کا ہے۔ہوا کا رخ دیکھا جاتا ہے۔ بلندئ پرواز نہیں ۔ کون کہاں ہے یہ جاننا بہتر ہے ، نہ کہ وہ وہاں کیسے ہے۔
:::  آج زمانے کی چال مختلف ہے۔دور جدید ہے۔ایک انگلی کی پور سے کمپیوٹر ایک لفظ سے ایک دنیا کھول کر رکھ دیتا ہے۔لیکن سائنس ابھی تک ذہنی استعداد بڑھانے کے لئے ایک خاطر خواہ کام سر انجام نہ دے سکی جو کروڑوں میل کی مسافتیں ایک لحظہ میں آر پار کر سکیں۔ گھمسان کا رن تو بس اسی ایک زمین پر برپا ہے۔اسی کو کھود رہے ہیں اسی کو کھوج رہے ہیں۔دھاتیں ہوں پتھر یا تیل ۔ اسی کے ہونے یا نہ ہونے کے اسباب ہیں۔جو جتنا مال و متاع کا مالک اتنا ہی  لوگوں میں زیادہ پزیرائی کا حقدار ۔انسان  ایک پھول کی  مانندقسمت لے کر پیدا ہوا ہے جو کھلتا ہے خوشبو دیتا ہے پھر دھیرے دھیرے فنا ہو جاتا ہے۔ مگر حالات اسے کانٹا بننے پر اکساتے ہیں جو ایک زندگی تاحیات پانے کی جستجو کرتا ہے۔ بے فائدہ بے مقصد  جستجوء لا حاصل۔
’’          کبھی اپنے ارد گرد نظر تو ڈالو کتنے لوگ ملتے ہیں  جو پھول رہنا پسند کرتے ہیں مگر کانٹوں کے روپ میں۔پانا چاہتے ہیں دینا انہیں بھاری ہے۔حق جتاتے ہیں حق نبھاتے نہیں۔زندہ رہنے  سے انہیں سروکار ہے۔زندگی پانے سے نہیں۔جیسے طالب علم کو پڑھائی سے زیادہ  امتحانات میں حاصل کردہ نمبروںسے۔ملازمت میں کام سے زیادہ اجرت سے۔فائدے کے لئے ہر نقصان کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔پھر کیوں نہیں مان لیتے کہ حاصل وہی ہے جس کی تمنا سب سے زیادہ لوگ کرتے ہیں۔
:::   لوگوں کی بات مجھ سے نہیں کرو ۔ ترقی کی رفتار بڑھنے سے بہت پہلے بھی یہ سچ کو جھٹلاتے رہے ہیں ۔ پیغام انسانیت کو بھلاتے رہے ہیں۔ نبیوں کو جھٹلاتے رہے ہیں۔حق کو کمزور جان کر باطل سے ہاتھ ملاتے رہے ہیں۔اہرام مصر سے تاج محل تک اپنی طاقت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مگر دنیا میں چھوڑے ان کے پتھر آج بھی سامان عبرت ہیں۔چاہے وہ کوہ نور ہیرا ہی کیوں نہ ہو۔آج حق بات کہنے کی ضرورت شائد زیادہ ہے۔باطل اور جھوٹ  ایسا بے ثمر درخت ہے جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔جڑیں زمین میں ہونے کے باوجود زمین والوں سے بہت دور رہتا ہے۔ گوگل سرچ باطل‘ کے تینتیس لاکھ اسی ہزار رزلٹ دکھاتا ہے۔اور ’حق‘ کے تین کروڑ بیالس لاکھ ۔  حق لفظ ہی باطل پر کئی گناہ بھاری ہے۔ کیسے ثابت کرو گے کہ حق پر رہنے والے کم پڑ رہے ہیں۔ حق لکھنے والے اور کہنے والے آج بھی باطل پر بھاری ہیں۔جو راستہ بھٹک گئے ہیں وہ بھٹکے ہوئے نہیں ہیں ۔ اہرام مصر اور تاج محل نے انہیں محبت سنگ  کی لازوال کہانی سنائی ہے۔ جو ادھوری ہے نا مکمل بھی ہے۔کیونکہ خلق خالق کی محبت بنا ادھورا ہے۔خالق حقیقت بھی ہے اور اختیار بھی۔راہ  بھی وہی ہے چاہ بھی وہی۔

محمودالحق

Saturday, February 8, 2014

میرا گھر میری جنت

3 comments

باتیں بنانے کے لئے قصے کہانیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔گفتگو کے لئے موضوعات کی۔بحث کے لئے ہٹ دھرمی کی۔جہاں علم صرف اتنا ہی کافی ہوتا ہے جس کے بارے میں بابا بلہے شاہ نے کہا علموں بس کری او یار۔سخت گرمی میں کالی گھٹائیں برس کر لُو بھری ہواؤں کو ٹھنڈی نہ بنائیں تو سورج اور زمین کے درمیان پھر بادلوں کی کالی چادر کا کیا  کام۔زمین اور آسمان کے درمیان علم کی چادر پھیلےتو ایمان کی ٹھنڈک سے کہلائے مسلمان۔رزق رازق کا اختیار ہےخواہش طلب کی مددگار ہے۔صبر قناعت سے شکر عاجزی سےہم رکاب ہے۔چیونٹی کا تو نظام ہی اس کا جہان ہے۔
جو پوشیدہ ہے وہ مکمل بھی ہے چاہے ایٹم کا زرہ ہو یا گردش کائنات۔جو ظاہر روٹھ جائے تو منانے کی  کوشش ہوتی بار بار ہے۔جیت جائے تو شفاء ہار جائے تو قضاء ۔حاصل بے نتیجہ تو ہو سکتاہے مگر مقصد نہیں۔ کوشش رائیگاں  نہیں جاتی وقت گزر جاتا ہے۔محبت کم نہیں ہوتی نظر محبوب سے لا تعلقی اختیار کر لیتی ہے۔چہرے کے تاثرات خوشی اور غم کے علاوہ حیرانگی کے تاثر سے بھرپور ہوتے ہیں۔زبان میٹھے اور نمکین کے علاوہ کھٹے اور کڑوے ذائقے  کے سگنل  دماغ کے خلیوں تک پیغام رسانی کا  کام سرانجام دیتی ہے۔کان  جنہیں سننا پسند کرتے ہیں وہ دماغ کے نہاں خانوں میں آمدورفت کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں۔
ہم  میں سے کتنے ہوں گے جو اس حقیقت حال سے واقف ہیں کہ ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے۔نیکی کا خیال  کریں تو  وسوسہ عود کر آتا ہے۔سچی بات کہنے کا ارادہ ہو تو وہم ڈر کی صورت اندیشوں سے خوفزدہ کرتا ہے۔ماضی بیشتر اوقات افسوس میں مبتلا رکھتا ہے، مستقبل خوف سے نجات پانے نہیں دیتا۔ حال وہم و وسوسہ سے محتاط رہنے کی تلقین میں گزرتا رہتا ہے۔
ایک دروازہ ،ایک کھڑکی اور ایک روشندان کےذکر سے ایک کمرہ کا تصور نظرمیں گھوم جاتا ہے۔ چار دیواری  میں گھرے صحن سے وہی کمرہ گھر  یا مکان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔باسیوں کے قہقہوں کی جھنکار سے مکین محبت  کے نام لیوا  ہو جاتے ہیں۔  وہاں سے گزرتے کانوں میں رس گھلتا ہے۔کہیں شور وغوغا اُٹھنے سے نفرت کے نشان چھوڑجاتے ہیں۔ جہاں سے گزرتے کان پک جاتے ہیں۔ ہر عمل کا ردِ عمل  ضرور ہوتا ہے کہیں زبان سے کہیں بیان سے کہیں خاموشی سے کہیں فراموشی سے کہیں محبت سے کہیں نفرت سےکہیں اقراری سے کہیں بیزاری سے۔ دھوپ ہوتی ہے تو چھاؤں نہیں رہتی، چھاؤں آتی ہے تو دھوپ نہیں رہتی۔شب کی چاندنی ہو یا  دن کی روشنی  ایک وقت میں صرف ایک ہی رہے گا۔
نیکی کرنا  دین و دنیا میں سرخرو کرتا ہے۔برائی میں بڑائی نہیں۔سچ دنیا میں اکڑ کر رہتا ہے۔جھوٹ کے پاؤں نہیں آج یہاں تو کل وہاں۔ کبھی ایک در پہ تو کبھی در بدر ۔فیصلہ کا وقت آنے سے پہلےخود میں فیصلہ ضروری ہے کہ اس پار یا  ہمیں رہنا اُس پار ہے۔ایک رکھنا ایک چھوڑ دینا ہے۔جس سے دنیا ملے اسے رکھنا مقام قضاء تک رہے۔ جو دنیا سے د ور جاکر ملے اسے اپنانا مقام زمان تک رہے۔گھر میں کیا کیا ڈالیں گھر سے کیا کیا نکالیں۔جو بیکار ہیں رکھنا جو شرمسار کرے ہو سکے تو اسے چلتا کرو۔زندگی کو اپنے صرف یکتا کرو۔مکان ایک ہے تو مکین بھی ایک کرو۔ کام گر نیک ہے تو انجام بھی نیک کرو۔حاصل اگرلطیف ہے تو  کوشش  سے قریب کرو۔ کل تک جو بولا سچ میں جب اسے تولو ،ہو سکے تو آج اس سے جان چھڑا لو ۔کیونکہ گھر تو جنت ہے باغ و بہار میں رہنا وہاں ایک نعمت ہے۔حقیقت سے چشم پوشی  میں بدن سزاوار ہےتودھوکہ کی آگاہی میں باطن دلدار ہے۔ ہر صبح نئے دن کا آغاز  سچے کلام سے کریں۔ سچی بات سننے میں ہو یا نہ ہو مگر کہنے میں ضرور ہو۔خواہشوں  آرزؤں کی آلائشوں سے پاک گھر میں رہنا مکین کا حق ہے۔کیا ہم اُس کا حق اسے ادا کر رہے ہیں۔اگر نہیں تو مکاں کی ضرورتیں محدود کر کے مکیں کو لا محدود وسعتوں سے روشناس کر سکتے ہیں۔

تحریر: محمودالحق

Sunday, February 2, 2014

درد کی دوا کیا ہے

5 comments
یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ کاغذ قلم لے کر بیٹھا تو سوچ کے تمام دروازے ایک ایک کر کے جھٹ پٹ بند ہوتے چلے گئے۔ لیکن مجھے ہمیشہ لڑنے کی عادت نے لکھنے کی ضد پر قائم رکھا۔ علی الصبح سکول جانے والے بچے اور دفتر جانے والے افسر و بابو اپنی مرضی کے مالک نہیں ہوتے جو وقت کی پابندی کو قانون کی پابندی کی طرح توڑنے پر قادر ہوں۔ کہیں نہ کہیں ہم اپنی مجبوری کے ہاتھوں بلیک میل ضرور ہوتے ہیں۔ ایسی مجبوری جو آرزو کے کھیت سے نشونما پا کر پک کر کٹنے سے پہلے آندھیوں کے ہاتھوں دور دور بکھر کر اپنے مالک کا منہ چڑاتی ہیں۔ جو اسے قسمت کا کھیل سمجھ کر ہاتھ ملتا ہے اور پھر ایک نئی ہمت سے ہاتھوں کو نئی فصل سے مصافحہ کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے۔ ہاتھ اُٹھا کر نئی فصل کے لئے پہلی دعا سے ہی کام چلانے پر کمر بستہ نظر آتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ : اللہ مددگار ہے اور وہ بہتر مددگار ہے: اسی سے مانگنے اور اسی کے  سامنے جھکنے سے ہی تمام ارادوں کی تکمیل ممکن ہو پائے گی۔اللہ اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ چاہت رکھتا ہے اور بندہ ایک ماں کی خدمت سے بہرہ مند نہیں ہو پاتا۔
اس بار میرا  وطن واپس آنا دو سال بعد ہوا تھا ۔ ایک دو دن بعد مجھے احساس ہوا کہ زیادہ تعداد میں وہ بوڑھے ہو چکے تھے ۔ خوبصورتی اور حسن کے جن کے چرچے تھے وہ ماند پڑ چکے تھے یا وہ جا چکے تھے۔اٹھکھیلیاں کرتے بچے مجھے کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ آخر تعداد نہ بڑھنے کے کیا محرکات تھے جو مجھ سے چھپائے جا رہے تھے۔ان سب پر ایک اُچٹکتی نگاہ ڈالتا  اور بے پرواہی سے بھول جاتا کہ ہمارا ایک دوسرے سے کوئی رشتہ بھی ہے۔میں شائد اتنے سال ان سے دور رہ کر آئی ڈوناٹ کئیر  کی گردان سنتے سنتے کانوں کی حد تک بہرہ ہو چکا تھا۔ لیکن حقیقت حق تو اپنے سحر سے جدا ہونے نہیں دیتی تھی۔
کرسیاں ایک مخصوص انداز میں روزانہ میرے ارد گرد سجا دی جاتی ۔ایک کرسی پر براجمان ہو جاتا جہاں سے آسمان اور زمین  کا ملن مجھے صاف دکھائی دیتا۔   زندگی کے طویل معمولات میں یہ شامل تھا کہ سورج میرے سر کے بالکل اوپر سے گزر کر سامنے غروب ہوتا تو دن لمبے راتیں چھوٹی اور دھوپ کی شدت ہوتی۔ لیکن جب  سورج میرے سامنے دن بدن  بائیں طرف  جھکتا جھکتا غروب ہوتا تو دن چھوٹے اور راتیں  بڑی ہوتی اور دھوپ سے لذت ملتی۔
اس روز دھوپ شدت کی تھی ایک کے علاوہ تمام کرسیاں خالی تھیں ۔نہ جانے اسے کیا سوجھی میرے ساتھ والی کرسی پر وہ آ بیٹھا۔ وہ کبھی بھی میرے برابر نہیں بیٹھا تھا۔ لیکن آج اسے  کیا ہوا کہ میری بغل والی کرسی پر بیٹھا دائیں پاؤں کو دو تین بار اُٹھا کر نیچے رکھ دیا۔ پھر بڑی بے اعتنائی سے کرسی سے اُتر کر زمین پر جا بیٹھا۔ انہیں میرے سامنے زمین پر بیٹھنے کی عادت تھی۔میری خواہش تھی کہ وہ میرے ساتھ بیٹھیں مگر وہ مجھ سے خوف کھاتے تھے شائد۔ ان کے خوف کو میں نے دور کرنے کی کوشش کم ہی کی تھی۔
میں نے اپنے خاص آدمی کو آواز دی۔
اختر ! دیکھو اسے جو ابھی میرے پاس سے زمین پر جا بیٹھا ہے ۔ کیا تکلیف ہے اسے جو اپنا  پاؤں مجھے دکھا کر چلتا بنا۔وہ میری بات سمجھ چکا تھا کہ معاملہ سنجیدہ ہے تبھی تو میں نے حقیقت جاننے کے لئے اسے بلایا ہے۔ پاؤں کو غور سے دیکھنے  کے بعد  اس نے کہا کہ پاؤں سوجا ہوا ہے ۔ تکلیف سے زمین پر رکھنا مشکل ہو رہا ہے اسے۔میری اُلجھن دور ہو چکی تھی  کہ ان سب میں سے صرف اسے ہی میرے برابر بیٹھنے کی ہمت کس بات نے دی تھی۔ درد اور تکلیف نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ ایسا کام کر جائے جو اس سے پہلے کبھی  اس کے بڑوں نے بھی نہ کیا ہو۔
لیکن مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس جگہ میں ہی اس کا مالک ہوں جو اس کے درد کا مداوا کر سکتا ہوں  تبھی تو اس نے مجھے  اپنا حال بیان کرنے  کے لئے اشارے سے کام لیا۔
میں  نے دوسری بار اختر کو سخت  زبان میں کہا کہ غور سے دیکھ کر بتاؤ اس کے پاؤں میں سوجن کیوں ہے۔کچھ دیر ادھر اُدھر سے دیکھ کر بولا کہ صاحب لگتا ہے کہ اس کے پاؤں میں ایک کالا دھاگہ بری طرح سے لپٹا ہوا ہے۔

میں معاملہ کی اصل تہہ تک پہنچ گیا ۔ دھاگے نے پاؤں کو اس بری طرح سے لپیٹا ہوا تھا کہ 
وہ بے زبان کبوتر مجھے درد کا حال بتانے کرسی پر چڑھ آیا تھا۔میں نے اختر کو ایک سو کبوتروں میں اسے پہچان رکھنے کو کہا کہ جیسے ہی وہ اپنے کمرے میں داخل ہو اسے پکڑ کر میرے پاس لاؤ ۔ یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا وہ  اسی لمحے اُڑ کر کمرے کے اندر جا بیٹھا۔ اختر اسے وہاں سے پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ میں نے پہلے اسے پیار سے تھپتھپایا پھر آہستہ آہستہ پاؤں میں لپٹے کالے دھاگے کو الگ کر دیا اور اس کے پاؤں کو ہولے ہولے مساج کیا ۔جب وہ میرے ہاتھ سے اُڑ کر زمین پر بیٹھا تو پاؤں زمین پر رکھنے میں مشکل کا شکار نہیں تھا۔ انسانوں سے  رغبت اور دلگیری کی عادت نے مجھے ایک پرندے کی نظر میں معتبر کر دیا۔ اس نے مجھے اس قابل جانا کہ میں اس کے درد کی دوا  بن گیا۔