Monday, May 31, 2010

اندھیروں میں روشنی سے اجالا

10 comments
تحریر : محمودالحق

ہر نئے سفر میں منظر آنکھوں میں سماتا ہے تو خیال ذہن میں کھلبلی مچاتا ہے ۔اور قلم کاغذ پہ لفظوں سے پھولوں کی ردا بچھاتا ہے ۔سوچ کے نت نئے باب وا ہوتے ہیں ۔جو نہیں کھل پاتے وہ تجسس میں جستجو کی آمیزش رنگ سے امتزاج سے نکھار پاتے ہیں ۔ حیات جاودانی کے جادو تو صدیوں سے چلتے آرہے ہیں ۔ کرشمہ سازی سے شعبدہ بازی تک کے مراحل بآ سانی عبور کر لئے گئے ۔جو ان سے بچ گئے وہ ملمع سازی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔فطرت آدمیت تغیر و تبدل کے فطری عوامل سے جلا پانے کی کوشش میں بہک کر بھٹکنے کی صلاحیت سے مالامال ہو گئی ۔لفظوں کی بساط میں ہر لفظ اپنے گھر میں پیادہ سے وزیر تک کے اختیار کے استعمال میں رکاوٹ و بندش تحفظ کا پابند رہتا ہے ۔جانثار تنہا آگے نہیں بڑھتے ۔بلکہ ایک کے بعد ایک راستہ کھلنے کا انتظار کرتے ہیں ۔کہ کہیں منزل تک پہنچنے کی جلدی میں اپنا گھر ہی نہ چھوٹ جائے ۔

آغاز سفر اور انجام سفر تو پل بھر کا ہے ۔ مگردوران سفر ایک طویل دورانیہ کی صبرصعوبت و برداشت کا تسلسل ہے ۔اکیلے منزل تک بڑھنے والے گھر سے دور نکل جائیں تو پہلے تحفظ پھر راستہ کھو دیتے ہیں ۔امید روشنی کی کرن بنی فاصلے کم ہونے کی نوید دیتے ہیں ۔مگر قریب پہنچ نہیں پاتے ۔اتنا دور نکل جاتے ہیں کہ ایک آس اور ایک یاس بن جاتی ہے ۔زندگی کا کھیل آنکھ مچولی نہیں کہ ایک چھپ جائے تو ڈھونڈتے رہو ۔یہ منظر اور نظر کی محبت کا کھیل ہے ۔ نظر جب پانے کی خواہش پالیتی ہے ۔تو منظرمنظورنظر ہو جاتے ہیں اور نظر میں بس جاتے ہیں۔ اوجھل روشنی ہوتی ہے منظر اندھیرے میں بھی روشن رہتے ہیں ۔
زندگی گزارنے کا ڈھنگ تو الگ الگ ہو سکتا ۔مگرجینے کا نہیں ۔ جینا جان سے ہے تو زندگی زمین سے وابستہ ہے ۔آنکھ کا دیکھنا دو طرح سے فوکس کیا جاتا ہے دور و نزدیک۔ نظر کی یہ صفت روح سے ہے ۔جسم جامد ہے تحریک زمین سے لیتا ہے ۔چاند پر روح آزاد تو جسم مشین میں قید رہتا ہے ۔اللہ تعالی نے جسم کو زمین کی قید سے آزادی کے لئے صبر و شکر ، استقامت اور عبادت کا پروانہ تھما دیا ۔زندگی اپنے احسانوں کا بدلہ خود چکا دیتی ہے ۔خوشیاں مہک میں تو غم کانٹوں سے لبریز ہیں ۔
روشنیوں میں راہ پانے والے اندھیروں سے چھپتے ہیں ۔روشنی کے جگنو دن میں خود چلتے تو اندھیرے میں راہ دیکھاتے ہیں ۔ اندھیروں میں رہنے والے خود کو شاہ گلستان سمجھتے ہیں ۔تنہائی میں ہو کا عالم انہیں اپنی کامیابی و کامرانی کے اعلان کا نقارہ سنائی دیتا ہے ۔وہ روشنیوں سے اتنی دور جا چکے ہوتے ہیں کہ اندھیرے انہیں سنگی ساتھی معلوم ہوتے ہیں ۔ہوس و حرص کی آگ میں جل کرشاہ گلستان سمجھنے والے روشنیوں سے چھپے اندھے دکھائی دیتے ہیں ۔
قرآن و سنت اندھیروں میں روشنی سے اجالا لانے کا ذریعہ ہے ۔اب بھی کوئی اندھیرے میں رہنا چاہتا ہے تو ایسی عقل پہ ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

Sunday, May 30, 2010

جینا جان سے زندگی

9 comments
تحریر ! محمودالحق

جب میں نے لکھنا شروع نہیں کیا تھا تب کسی اردو ویب سائٹ سے شناسائی بھی نہیں تھی ۔صرف معاشرے میں ایک فرد کی حیثیت سے تماشائی کا روپ دھارے ہوئے تھے ۔وقت نے اس بات کا احساس دلایا کہ ہم تو صرف تماشا تھے ۔تھپکیوں سے ہی خوشی میں لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔
اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کرنے والے تحسین کی سولی پہ چڑھاتے رہے ۔ جسے حسن اخلاق سمجھتے رہے وہ دراصل حالات کی نزاکت میں فرار کا محفوظ راستہ تھا ۔ان کے جانے کی قدموں کی چاپ تھپکیوں کی تھپ تھپ میں سنائی ہی نہ دے پائی ۔

گھر میں پیاز کی تہیں کٹنے سے ہر آنکھ اشکبار ہوتی تو کئی بار دیکھ چکے ہیں ۔خلوص کے چہرے سے بناوٹ کی تہیں اترنے لگیں تو صرف اپنی آنکھیں ہی چبھن سے اشکبار ہو جاتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک آستینوں سے خنجر نکل آتے ہیں ۔اور اخلاص کے پہلو میں گھونپتے چلےجاتے ہیں ۔
بہت دیر کی مہرباں سمجھاتے سمجھاتے ۔ سمجھ تو وہ باپ بھی نہ پایا ہو گا ۔جب خوشی خوشی بیٹے کا خط کھول کر پڑھتے ہوئے آنکھیں پتھرا گئیں ہوں گی ۔ کہ آج وہ ایک ناکام انسان کے ساتھ ساتھ ناکام باپ بھی ہے ۔جو بچوں کو تعلیمی میدان میں مالی و اخلاقی مدد کے باوجود انھیں معاشی ترقی میں سیڑھی کا کردار ادا نہیں کر پایا ۔اس کا سفارش کی بجائے قابلیت کو معیار سمجھنا کامیاب والدین کی صف سے نکلنے کا سبب ہو گیا ۔کتنی آسانی سے انسان ( خاص طور پر مسلمان جسے والدین کی خدمت کا حکم اللہ تبارک تعالی نے بار بار دیا ہے ) دوسروں پر انگلی اٹھا کر اپنے بچوں کی انگریزی دانی کو ہی معیار بنا کر والدین کو مورد الزام ٹھہرا دیں ۔کہ وہ ان کے لئے کچھ نہ کر سکے ۔چودہ سولہ جماعتیں کرا دینا ہی تو والدین کی ذمہ داری نہیں ہوتی ۔معاشی طور پر مضبوط بنیادوں کا استوار کرنا بھی والدین کا فرض اولین قرار دے دیا جاتا ہے ۔
جس معاشرے کی بنیاد ایک ہاتھ دو تو ایک ہاتھ لو پر ہو تو وہاں ناکام و کامیاب کی بحث نا قابل عمل ہے ۔صرف ڈراموں اور فلموں میں تین گھنٹوں میں شیطان صفت کردار تائب ہو کر انسانی معراج پر پہنچ جاتے ہیں ۔مگر جیتے جاگتے پل گنتے گنتے زندگی میں بال سفید تو بینائی کمزور ہو جاتی ہے ۔مگر غرض و مفاد کے بت روز اول ہی کی طرح بناؤ سنگھار کئے پجاریوں کے سر پہ سوار رہتے ہیں ۔اور تا حیات تغیر و تبدل کے اثرات سے محفوظ ہی نہیں رہتے بلکہ جامد سوچ و افکار پر گہری چوٹ رکھتے ہیں ۔
کسی اخلاقی اصول پر معاشرتی ہم آہنگی پیدا ہونے کے امکانات محدود ہوتے ہیں ۔مگر مفاد حصول میں ہم آہنگی ہم نوالہ ہم پیالہ سے بھی بڑھ کر بغلگیر ہو جاتی ہے ۔اب ایسے ہم نواؤں سے خیر خواہی کی توقع عبث ہے ۔
لکھنا قلم سے ہو تو قلمی دوستی سے آگے نہیں بڑھ پاتی ۔مگر قلب سے لکھنا قلبی تعلق تک وسیع ہے ۔آنکھوں سے دیکھنا صفحات پر اترتا چلا جائے تو نشتر بن کر زخم دیتا ہے ۔ قلب سے جو اترے تو خنجر بن جاتا ہے ۔جو گھاؤ کی پیوندکاری میں اکثیر ہوتا ہے ۔زخم کے گھاؤ گہرے نہ ہوں تو لکھنا بھی سفینہء نہ ہو ۔شکوہ ذات سے ہو تو شکن تک نہ ہو ۔
مگر جہاں شکایات کے انبار ہوں ۔ وہاں عنایات انتظار میں رہتی ہیں ۔خواہشات کے بازار میں تو الزامات کی بھرمار ہوتی ہے ۔دو ہاتھوں میں دو اور سے چار تو ہو سکتے ہیں ۔ مگر قسمت کے کھیل میں جیت سے ہمکنار نہیں ۔جو کھونے کے خوف سے پہلے سے جمع سنبھالنے میں آنکھیں بند اور ہاتھ باندھ لیتے ہیں ۔دینے والے کے انعامات سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں ۔
بارش کے برسنے میں بادلوں کے شکرگزار ہیں ۔سمندر کی تہہ سے اٹھنے والے بخارات انھیں بےثمر ہیں ۔
جینا جان سے انھیں زندگی ہے ۔ ایک امام سےبھی بڑھتی نہیں آگے ان کی زندگی ہے ۔

Friday, May 28, 2010

دغا انسان سے اٹھ میرا وفا ایماں گیا

0 comments
دغا انسان سے اٹھ میرا وفا ایماں گیا
ظاہر سیرت فرشتہ اندر دیکھا ہو حیراں گیا

نام خدا سے ہے جنکو ملتا مقام عزت جہاں
قلب سیاہ سے جلتا دیا خود اپنے پہ قرباں گیا


نام سے شہرت نہیں تو در سے گھر نہیں
جو خود کو نہیں بھولا دور اس سے لا مکاں گیا

ایک جسم و جاں میں رکھتے دو الگ فریب روپ ہیں
سوکھے پھول ہیں سب نام رکھا گلستاں گیا

خوش قسمت ہیں گل و گلزار عداوت خار رکھتے ہیں
ہم بشر عظیم کا ہاتھ اپنے ہی گریباں گیا

میرا فرش ملک ادنی تیرا عرش فلک عظیم
حاکمیت فرعون نہ رہی مگر چھوڑ نفرت نشاں گیا

اسلاف اسلام تو ہے مجھے سفینہ محبت مقام مصطفے
زمام رفعت مقام میں کھوتا بھٹکا انساں گیا


خندہ جبین / محمودالحق

Thursday, May 27, 2010

یادداشت کھو جانے والی بیماری الزائیمر کی علامات

11 comments
آج سے چند سال پیشتر پاکستان میں بہت کم لوگ الزائیمر کے متعلق جانتے تھے۔سیمینار منعقد کئے جاتے رہے تاکہ عوام میں بیماری کے بارے شعور بیدار ہو ۔ یادداشت کھونے والی بیماری جو رفتہ رفتہ انسان کو اپنے بس سے باہر کر دیتی ہے ۔ غیر محسوس طریقے سے دماغ کے خلئے آہستہ آہستہ جسم کے اعضاء کو آزاد ی کے پروانے تھماتے چلے جاتے ہیں ۔اورصرف وہی اعضاء کام سرانجام دیتے رہتے ہیں ۔ جو دماغ کے تابع نہیں ہوتے ۔ورنہ تو ایک کے بعد ایک بغاوت کرتا چلا جاتا ہے ۔خودمختاری کے اعلان کے بعد وجود کو زندہ جسم کی بجائے گوشت کا لوتھڑا بنا دیتا ہے ۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یاداشت کی کمی اور یاداشت کے خاتمے کی بیماری ”الزائیمر“ میں دماغ کی گہرائی میں حصہ لینے والے خلیوں الیکٹرانک الیکڑوڈ کے ذریعے متحرک کر کے دماغ میں”نیورون گروتھ“ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن 1994میں اسی بیماری کا شکار ہوئے اور 2004 میں دس سال اس بیماری سے لڑتے لڑتے دنیا سے چلے گئے ۔مگر اس بیماری سے نجات نہیں پا سکے ۔تحقیق سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے نیند میں خلل سے اس بیماری کی علامات یادداشت میں کمی سے شروع ہو جاتا ہے ۔

لیکن اس وقت میں اس بیماری کے علاج یا تحقیق کے متعلق سیمیناروں کا احوال بیان نہیں کرنے جارہا ۔ بلکہ یہ بتانے جارہا ہوں کہ یہ بیماری اپنی ابتدائی حالت میں کون کون سی علامات ظاہر کرتی ہے ۔ اور اس کا آغاز کس طرح ہوتا ہے ۔ غیر محسوس انداز میں کہ ساتھ رہنے والے بھی اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ایک انسان اپنی زندگی بھول رہا ہے ۔
مرکزی حکومت (دماغ) سے ایک کے بعد ایک ریاست (اعضاء) آزادی کا اعلان بغاوت کر رہے ہیں ۔ انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ زندگی کے ان تنگ و تاریک راستوں میں داخل ہو رہا ہے ۔ جہاں وہ خود اور اس کے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔الزائیمر کا آغاز جیسا کہ ابتدائی تحقیق سے سامنے آئی ہے کہ ذہنی دباؤ اس کا بنیادی سبب ہے ۔ شروع میں مریض کی یادداشت ایک مختصر وقت کے لئے ختم ہو جاتی ہے جیسے وہ اپنے گھر کے افراد میں سے چند ایک کو پہچان نہیں پاتا اور کبھی کبھار جوانی کے ایام دور کے واقعات اور تعلق والے اسے یاد آتے بلکہ سامنے بیٹھے محسوس ہوتے ہیں ۔
گھر سے باہر سیر کے لئے جائیں تو اچانک وہ اپنے گھر کی شناخت بھول جاتے ہیں ۔ گھر کے سامنے کھڑے اپنا گھر تلاش کرتے ہیں ۔ پھر اسی تلاش میں ایک گلی سے دوسری میں جاتے جاتے گھر سے دور نکل جاتے ہیں ۔ اور جب انہیں یادداشت واپس آتی ہے تو اس وقت تک اپنے گھر سے بہت دور نکل چکے ہوتے ہیں ۔ گھر کی پہچان تو واپس آ جاتی ہے مگر اب گھر سامنے نہیں رہتا ۔
کھانا کھا چکنے کے بعد بھی انہیں اس بات کا خیال ہوتا ہے کہ انہوں نے ابھی کھانا نہیں کھایا ۔انہیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ وہ کھانا کھا چکے ہیں ۔دن و رات کا فرق ختم ہو جاتا ہے آدھی رات کو سالوں پہلے چھوڑا گیا دفتر اچانک یاد آجاتا ہے اور تیار ہو کر اندھیرے میں دفتر جانے کی تیاری میں گھر سے باہر جانے کی ضد کرتے ہیں ۔
آہستہ آہستہ یادداشت کھونے کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے ۔اور دیر تک اپنے حال سے جدا ہو جاتے ہیں ۔ماضی پرانے ریکارڈ کی طرح نکل کر سامنے آ جاتا ہے ۔اردو انگلش لکھنے پڑھنے والی آنکھیں لفظوں سے شناسائی کھو دیتی ہیں ۔ مریض سمجھتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہو چکی ہے مگر دراصل دماغ کے وہ خلئے جس میں الفاظ کا ڈیٹا سٹور رہتا ہے صاف ہو جاتا ہے ۔
پاخانہ پیشاب کے لئے باتھ روم تک پہنچ نہیں پاتے اور راستے میں ہی کپڑے خراب ہو جاتے ہیں کبھی بستر پر تو کبھی کسی فرش پر ۔ مریض سمجھ نہیں پاتا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑنے کا فن بھول جاتے ہیں ۔ روٹی کا نوالہ بنانے کی ترکیب یاد نہیں رہتی ۔ چمچ کو ہاتھ سے پکڑنا بھول جاتے ہیں ۔
بنیادی طور پر انگلیاں دماغ سے آزادی کا بغل بجا دیتی ہیں ۔اور لکڑی کے سہارے سے بھی لا تعلق ہو جاتی ہیں ۔کئی سال یہی معمولات زندگی رہتی ہے ۔ اگر کبھی دست کی شکایت سے کمزوری یا نقاہت ہو جائے تو ایک دو دن بستر پر رہ جائیں تو پھر پاؤں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں رہتا ۔ بچے کی طرح لڑکھڑا کر گر جاتے ہیں ۔ زیادہ تر وقت اپنے حوش وحواس میں نہیں رہتے ۔ چند لمحوں کے لئے یادداشت لوٹ کر آتی ہے ۔ اور مریض صرف بستر تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے ۔
کھلی آنکھیں اور سانس لیتی ہوا صرف زندگی کی علامت رہ جاتی ہے۔ یہ زندگی مہینوں نہیں سالوں پر محیط ہے ۔ ایک ایک پل مریض جس تکلیف سے گزرتا ہے بیان سے باہر ہے ۔اس بیماری کا دورانیہ آغاز کے بعد15 سے 20 سال تک بھی رہ سکتا ہے ۔
یہ بیماری زیادہ تر بوڑھے لوگوں میں دیکھنے میں آئی ہے مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ 50 کی عمر کے افراد جو شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہے وہ بھی اس بیماری کا شکار ہوئے ۔ترقی یافتہ ممالک میں تو الزائیمر کا مرض کافی پرانا ہے ۔ اور وہ سال و سال سے اس کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مگر فی الحال کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔
مگر اس سے بچاؤ ممکن ہے کہ ڈپریشن اور سٹریس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی جائے ۔ اب ہمارے معاشرے میں یہ بیماری وبا کی طرح پھیل رہی ہے ۔جوں جوں معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ رشتوں میں محبت اور ہمدردی کے جزبات کم ہوتے جارہے ہیں ۔ خاص طور پر معاشی ، خاندانی اور معاشرتی مسائل سے پریشانیاں بڑھی ہیں ۔کہیں دولت کی تقسیم سے تو کہیں رشتوں کے لین دین سے آپس میں ناچاتیاں پیدا ہوتی ہیں ۔زیادہ تر وہی لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جو گھل گھل کر جیتے ہیں ۔دل کی بات کسی سے نہیں کہتے ۔ غم دکھ کسی ہمدرد سے بانٹتے نہیں بلکہ خود سے برداشت کرنے اور کڑھتے رہنے سے دماغ میں شریانیں سکڑتی چلی جاتی ہیں ۔ جب یہ بیماری سامنے آتی ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے ۔
اپنے ارد گرد ماحول کا جائزہ لیں کہیں ہمارا اپنا کوئی پیارا تو برداشت کی قوت کو آزماتے آزماتے زندگی تو نہیں بھول رہا ۔
اللہ تعالی ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور صحت و تندرستی سے زندگی گزارنے کےڈھنگ پرعمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


نوٹ ! اگر بیماری کی تفصیلات میں چلا جاتا تو مضمون طوالت اختیار کر لیتا۔ بیماری کے متعلق جو کچھ لکھا میرا ذاتی تجربہ ہے ۔ میرے والد محترم 14 سال اس بیماری کا شکار رہے اللہ تبارک تعالی کا شکر ہے میری جوانی ان کی خدمت میں گزری

طارق راحیل کے اس تبصرہ کے بعد نوٹ لکھنا ضروری سمجھا ۔
لگتا ہے فلم گجنی دیکھ کر اثر لے لیا ہے جناب نے)۔)

فنا و بقا

3 comments
تحریر : محمودالحق
زندگی سانس سے زندہ ہے اور پل سے رواں رہتی ہے ۔سانس تبھی محسوس کئے جاتے ہیں ۔جب پل اپنی روانی چھوڑ دیں ۔دیکھنے میں جو زندگی ہے وہ اس کی وجہ سے ہے جو اصل ہے ۔ وہ ساتھ ہوتے ہوئے بھی محسوس نہیں کیا جاتا ۔ سانس کے گننے اور انتظار میں شائد روانی رک جائے ۔اپنی دھڑکنیں دوسروں کو تو سنائی دیتی ہیں ۔اگر خود کا وجود سنائی دے جائے تو برداشت نہ کر پائیں ۔لہو رگوں میں دوڑتا رہے ۔ طعام سے انہظام تک ، خون کے بہاؤ سے اخراج تناؤ تک ۔کوئی بھی احساس بھاری پن کا احساس نہیں دلاتا ۔اور یہ سانس کی وجہ سے ہے ۔جو ہمیں ہر بوجھ کی اذیت سے بچا کر رکھتا ہے ۔جس کے اپنے احساس سے ہم بھاری پن کا شکار نہیں ہوتے ۔زندگی کے پل جسم سے تو جدا رہتے ہیں ۔مگر
کبھی خود تو کبھی جواز پیدا کر کے جسم ہی کو احساس سے تختہ مشق بناتے ہیں۔طاقت کا توازن بگڑنے سے کبھی کبھار کمزور بھی طاقتور پر بھاری ہو جاتے ہیں ۔جسمانی قوت کو تو آخر کار گھائل ہونا ہی ہوتا ہے ۔مگر سانسوں سے پیدا کی گئی طاقت روح میں سرایت کر جاتی ہے ۔جو فنا کی ملزومیت سے ہمکنار رہتی ہے ۔اور آخری سانس تک زندگی کے لئے جنگ و جدل میں برسرپیکار رہتی ہے۔ زندگی کوپانے کے احساس لمس دلاتی ہر شے دلپزیر ہوتی ہے ۔دلپسندی سے زندگی گداز نما تو ہے مگر روح محو پرواز نہیں رہتی بلکہ فناپرداز ہے ۔پر آسائش گداز بستر ہو یا آرام دہ سفر چند پل کے بعد وہی بدن اکتاہٹ و مجبوری میں بدل جاتا ہے ۔جسم کی ضرورتیں پل پل بدلتی ہیں ۔کبھی پسند و نا پسند میں تو کبھی خوشی و غم کے کھونے اورپانے میں ۔پانے کی خواہش ایک لمبے پل کی محتاج ہے مگر پا کر خوشی کی چند پل سے زیادہ نہیں۔کھونے کا خوف چند پل کا ہے مگر کھونے کا درد ایک لمبے عرصے تک رہتا ہے ۔جو سانسوں کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں وہی اپنے ہوتے ہیں ۔جو پل کا ساتھ نبھاتے ہیں وہ پل میں جدا ہو جاتے ہیں ۔اپنا پن دکھانے سے نہیں محسوس کرنے سے ہوتا ہے ۔جو یہ احساس نہیں دلا پاتے کہ وہ اپنے ہیں ۔ ان کا ساتھ چلنا ہوا کی مانند ہے ۔جس سے لہریں کناروں سے لمس پاتی ہیں اور اسی پل جدا ہو جاتی ہیں ۔کنارے ہر نئی لہر کی آس میں پھر انتظار میں قید ہو جاتے ہیں ۔
لیکن پھول احساس سے مزین ہوتے ہیں ۔بھنوروں کو بلاتے ہیں صرف لمس ہی نہیں خوشبو بھرا رس بھی دیتے ہیں ۔لیکن پھر بھی بھنورے اور پھول کی قسمت میں فنا لکھا ہے ۔مگر لہر اور کنارے کی طرح صدیوں تک آبادرہنا نہیں ۔لاثانی وہ ہے جو لہن و لسان میں رہے اور لافانی جو قطرہ سے فنا ہو مگر قلب سے جس کی بقا ہو ۔ کنارے لہروں کی نظر میں لاثانی ہیں مگر لافانی نہیں ۔
زندگی کو فنا ہے مگر موت کو بقا ہے ۔بقاپانے والی موت کبھی لوٹ کر زندگی کی طرف نہیں آتی۔مگر زندگی پانے والی ہر شےء کو فنا ہے ۔چاہیے تو وہی جس میں ہمیشہ کی بقا ہو ۔لیکن چاہتے ہیں وہ جس میں ہمیشہ کی فنا ہو۔
آج ہم جن کے پیچھے ہیں کچھ راستہ کے بعد ہم سے جدا ہو جائینگے ۔ ان کے راستے ان کو ان کی منزل کی طرف لے جائیں گے۔اور ہمارے راستے ہمیں اپنی منزل کی طرف ۔ایک لمحے کے لئے تو ان سے اپنائیت کا اظہار ہوتا ہے ۔مگر جلد ہی جب وہ راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو ہم کسی اور کے پیچھے اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں ۔ہمارا سفر ایک ہے اور منزل بھی ایک ہوتی ہے مگر مسافر روز الگ الگ ہیں ۔منزلیں سب کی بظاہر تو ایک ہیں راستے بھی بظاہر ایک ۔ مگر وہ فنا کے راستے ہیں اسی لئے تو ایک ہیں ۔بقا جلنا پسند نہیں کرتا فنا میں دلکشی ہے ۔قلب فنا میں ڈوبے گا تو بقا میں ابھرے گا ۔جب خواہش بقا ہو جائے اور عمل فنا ہو جائیں تو جستجو و ارادے بقا نہیں پاتے ۔فنا ہو جاتے ہیں ۔عمل بقا کے لئے ہو تو اس کی فنا میں بقا ہے ۔
زندگی کا فلسفہ کہیں حیاتیات ہے تو کہیں عمرانیات ۔مگر مذہب زندگی کو دو طرح سے بیان کرتا ہے ۔ ایک اس کی فنائ صفت اور دوسری بقائ ۔اور اگر غور کیا جائے تو زندگی کی اسی صفت فنا سے ہی اس کی بقا نظر آتی ہے ۔ہم نے زندگی کی صفت فنا کو ارض فنا سے منسلک کر رکھا ہے ۔اس لئے تو ہم بقا کے راز کو نہیں جان پاتے۔
عالم فناہے تو علم بقا ہے ۔عامل فناہے تو عمل بقا ہے ۔جسم فناہے تو روح بقا ہے ۔زخم فنا ہے تو درد بقا ہے ۔دوا فنا ہے تو اثر بقا ہے ۔محبوب فنا ہے تو محبت بقا ہے ۔ماں فنا ہے تو مامتا بقا ہے ۔
زندگی بادلوں کی مانند چلتی ہے ۔بارش کی مانند روتی ہے ۔پہاڑوں کی مانند جمتی ہے۔ ٹیلوں کی مانند گھستی ہے ۔روشنی سے کھلتی ہے تو اندھیروں سے ڈرتی ہے ۔کھیلوں سے بہلتی ہے تو پھولوں سے مہکتی ہے ۔یہ پل میں فدا ہے پل میں جدا ہے ۔یہ ہاتھوں سے پھسلتی ہے ۔ پاؤں سے ڈگمگاتی ہے تو آنکھوں سے ڈبڈباتی ہے ۔ یہ ہونٹوں سے مسکراتی تو رخساروں سےشرماتی ہے ۔اُٹھتی نگاہ ِ آسمان تو نظر فنا ہے ۔ جھکتا سر سجدہ میں قلب بقا ہے ۔

فنا و بقا

4 comments
تحریر : محمودالحق
زندگی سانس سے زندہ ہے اور پل سے رواں رہتی ہے ۔سانس تبھی محسوس کئے جاتے ہیں ۔جب پل اپنی روانی چھوڑ دیں ۔دیکھنے میں جو زندگی ہے وہ اس کی وجہ سے ہے جو اصل ہے ۔ وہ ساتھ ہوتے ہوئے بھی محسوس نہیں کیا جاتا ۔ سانس کے گننے اور انتظار میں شائد روانی رک جائے ۔اپنی دھڑکنیں دوسروں کو تو سنائی دیتی ہیں ۔اگر خود کا وجود سنائی دے جائے تو برداشت نہ کر پائیں ۔لہو رگوں میں دوڑتا رہے ۔ طعام سے انہظام تک ، خون کے بہاؤ سے اخراج تناؤ تک ۔کوئی بھی احساس بھاری پن کا احساس نہیں دلاتا ۔اور یہ سانس کی وجہ سے ہے ۔جو ہمیں ہر بوجھ کی اذیت سے بچا کر رکھتا ہے ۔جس کے اپنے احساس سے ہم بھاری پن کا شکار نہیں ہوتے ۔زندگی کے پل جسم سے تو جدا رہتے ہیں ۔مگر
کبھی خود تو کبھی جواز پیدا کر کے جسم ہی کو احساس سے تختہ مشق بناتے ہیں۔طاقت کا توازن بگڑنے سے کبھی کبھار کمزور بھی طاقتور پر بھاری ہو جاتے ہیں ۔جسمانی قوت کو تو آخر کار گھائل ہونا ہی ہوتا ہے ۔مگر سانسوں سے پیدا کی گئی طاقت روح میں سرایت کر جاتی ہے ۔جو فنا کی ملزومیت سے ہمکنار رہتی ہے ۔اور آخری سانس تک زندگی کے لئے جنگ و جدل میں برسرپیکار رہتی ہے۔ زندگی کوپانے کے احساس لمس دلاتی ہر شے دلپزیر ہوتی ہے ۔دلپسندی سے زندگی گداز نما تو ہے مگر روح محو پرواز نہیں رہتی بلکہ فناپرداز ہے ۔پر آسائش گداز بستر ہو یا آرام دہ سفر چند پل کے بعد وہی بدن اکتاہٹ و مجبوری میں بدل جاتا ہے ۔جسم کی ضرورتیں پل پل بدلتی ہیں ۔کبھی پسند و نا پسند میں تو کبھی خوشی و غم کے کھونے اورپانے میں ۔پانے کی خواہش ایک لمبے پل کی محتاج ہے مگر پا کر خوشی کی چند پل سے زیادہ نہیں۔کھونے کا خوف چند پل کا ہے مگر کھونے کا درد ایک لمبے عرصے تک رہتا ہے ۔جو سانسوں کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں وہی اپنے ہوتے ہیں ۔جو پل کا ساتھ نبھاتے ہیں وہ پل میں جدا ہو جاتے ہیں ۔اپنا پن دکھانے سے نہیں محسوس کرنے سے ہوتا ہے ۔جو یہ احساس نہیں دلا پاتے کہ وہ اپنے ہیں ۔ ان کا ساتھ چلنا ہوا کی مانند ہے ۔جس سے لہریں کناروں سے لمس پاتی ہیں اور اسی پل جدا ہو جاتی ہیں ۔کنارے ہر نئی لہر کی آس میں پھر انتظار میں قید ہو جاتے ہیں ۔
لیکن پھول احساس سے مزین ہوتے ہیں ۔بھنوروں کو بلاتے ہیں صرف لمس ہی نہیں خوشبو بھرا رس بھی دیتے ہیں ۔لیکن پھر بھی بھنورے اور پھول کی قسمت میں فنا لکھا ہے ۔مگر لہر اور کنارے کی طرح صدیوں تک آبادرہنا نہیں ۔لاثانی وہ ہے جو لہن و لسان میں رہے اور لافانی جو قطرہ سے فنا ہو مگر قلب سے جس کی بقا ہو ۔ کنارے لہروں کی نظر میں لاثانی ہیں مگر لافانی نہیں ۔
زندگی کو فنا ہے مگر موت کو بقا ہے ۔بقاپانے والی موت کبھی لوٹ کر زندگی کی طرف نہیں آتی۔مگر زندگی پانے والی ہر شےء کو فنا ہے ۔چاہیے تو وہی جس میں ہمیشہ کی بقا ہو ۔لیکن چاہتے ہیں وہ جس میں ہمیشہ کی فنا ہو۔
آج ہم جن کے پیچھے ہیں کچھ راستہ کے بعد ہم سے جدا ہو جائینگے ۔ ان کے راستے ان کو ان کی منزل کی طرف لے جائیں گے۔اور ہمارے راستے ہمیں اپنی منزل کی طرف ۔ایک لمحے کے لئے تو ان سے اپنائیت کا اظہار ہوتا ہے ۔مگر جلد ہی جب وہ راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو ہم کسی اور کے پیچھے اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں ۔ہمارا سفر ایک ہے اور منزل بھی ایک ہوتی ہے مگر مسافر روز الگ الگ ہیں ۔منزلیں سب کی بظاہر تو ایک ہیں راستے بھی بظاہر ایک ۔ مگر وہ فنا کے راستے ہیں اسی لئے تو ایک ہیں ۔بقا جلنا پسند نہیں کرتا فنا میں دلکشی ہے ۔قلب فنا میں ڈوبے گا تو بقا میں ابھرے گا ۔جب خواہش بقا ہو جائے اور عمل فنا ہو جائیں تو جستجو و ارادے بقا نہیں پاتے ۔فنا ہو جاتے ہیں ۔عمل بقا کے لئے ہو تو اس کی فنا میں بقا ہے ۔
زندگی کا فلسفہ کہیں حیاتیات ہے تو کہیں عمرانیات ۔مگر مذہب زندگی کو دو طرح سے بیان کرتا ہے ۔ ایک اس کی فنائ صفت اور دوسری بقائ ۔اور اگر غور کیا جائے تو زندگی کی اسی صفت فنا سے ہی اس کی بقا نظر آتی ہے ۔ہم نے زندگی کی صفت فنا کو ارض فنا سے منسلک کر رکھا ہے ۔اس لئے تو ہم بقا کے راز کو نہیں جان پاتے۔
عالم فناہے تو علم بقا ہے ۔عامل فناہے تو عمل بقا ہے ۔جسم فناہے تو روح بقا ہے ۔زخم فنا ہے تو درد بقا ہے ۔دوا فنا ہے تو اثر بقا ہے ۔محبوب فنا ہے تو محبت بقا ہے ۔ماں فنا ہے تو مامتا بقا ہے ۔
زندگی بادلوں کی مانند چلتی ہے ۔بارش کی مانند روتی ہے ۔پہاڑوں کی مانند جمتی ہے۔ ٹیلوں کی مانند گھستی ہے ۔روشنی سے کھلتی ہے تو اندھیروں سے ڈرتی ہے ۔کھیلوں سے بہلتی ہے تو پھولوں سے مہکتی ہے ۔یہ پل میں فدا ہے پل میں جدا ہے ۔یہ ہاتھوں سے پھسلتی ہے ۔ پاؤں سے ڈگمگاتی ہے تو آنکھوں سے ڈبڈباتی ہے ۔ یہ ہونٹوں سے مسکراتی تو رخساروں سےشرماتی ہے ۔اُٹھتی نگاہ ِ آسمان تو نظر فنا ہے ۔ جھکتا سر سجدہ میں قلب بقا ہے ۔

Tuesday, May 25, 2010

انٹر نیٹ کی دنیا آہنگ انگیز

1 comments
عجب آہنگ تھا جس نے جگایا بھی سلایا بھی
کہ دل تو جاگ اٹھا آنکھوں میں غفلت نیند کی چھائی

کچھ عجب نہیں کہ لکھنا چاہیں اور کاغذ قلم سیاہی سے سیاہ بھی ہو ۔ مگر دیکھنے میں سفید ہی رہ جائے اگرپڑھنے والے کو تحریر کم غصہ زیادہ محسوس ہو ۔ لفظوں میں طنز کے نشتر نظروں میں چبھنے لگیں ۔کہیں کسی خیال میں دوسرے کی ہتک یا ذاتی عناد کی رنجش کا گمان ہو ۔ بندے تو اللہ کے ہیں مگر باشندےاس معاشرے کے ہیں جہاں زورآور کی زورآوری سے بچنے میں کمال مہارت حاصل کرنے میں زندگی کا ایک حصہ تجربات کی نظر ہو جاتا ہے ۔ جہاں کبھی خود میں ٹھیک ہوتے ہیں تو کبھی دوسرے غلط ہوتے ہیں ۔خود کا غلطی
پہ ہونا اور دوسرے کا حق پہ سمجھ میں آنا ایک مشکل کام ہے ۔ذہن یکطرفہ ٹریفک کی مانند مخالف جزبات کو عقل کی گلی میں گھسنے کی اجازت نہیں دیتا ۔جسے مقام نفرت پہ رکھ لیتا ہے تو نیکیاں گناہ کے پلڑے میں بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔دانش کی مٹھی میں پکڑا ترازو کا دوسرا پلڑا اپنے وزنی موقف سے بھاری رکھتا ہے ۔
ابھی تک ایسے انسانوں سے کم ہی شرف ملاقات حاصل ہوا جو کہنے میں وہی ہیں جو کرنے میں ۔آنکھ سے دیکھ کر بھی بات انہیں سمجھ سے باہر ہوتی ہے ۔دل میں اترنے کی نوبت تو کبھی آتی ہی نہیں ۔جان بوجھ کر بات آئی گئی کرتے ہیں ۔یا انجان بننے کا ڈھونگ رچاتے ہیں ۔
یہ باتیں پڑھنے سے نہیں بلکہ پالا پڑنے سے پلے پڑی ہیں ۔یہ آخری فقرہ لکھنے کی ضرورت لکھنے والوں کے عتاب سے بچنے کے لئے لکھی ہے ۔
دیکھنے میں ایک ہی طرح کے انسانوں میں ہر چیز میں ترتیب اور ڈھنگ، ہر بات میں نظم اور آہنگ مختلف ہی دیکھنے میں آتا ہے ۔چند ایک اپنی فطرت اور حالات کے دم پر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ۔جو کبھی انہیں قانون تو کبھی ضابطہ اخلاق کی پابندی میں قید کر دیتا ہے ۔مگر سوچ کی آزادی انہیں پابندی سے بغاوت پر آمادہ رکھتی ہے ۔اخلاقی ، مالی نقصان یا جسمانی تکلیف کا خیال ارادوں سے باز رکھنے میں اور ہم آہنگی پیدا کرنے کا سبب ہوتا ہے ۔
ترتیب اور ڈھنگ تو تبھی ہوگا جب پابندی کرانے والے اپنا اختیار استعمال کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ۔جہاں اختیار اپنی مرضی کا ہو تو آزادی پابندی کی قید میں کب تک رہے گی ۔ہم آہنگی کا ایک بنیادی نقطہ اصول نظم و ضبط ہے ۔ اگر یوں کہا جائے کہ دوسرے کے حق کو بھی تسلیم کیا جائے یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ برداشت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو ۔ اگر نہ بھی بھرا ہو مگر عدم برداشت سے خالی ضرور ہو تو سونے پہ سہاگہ نہ سہی سونے کے بنا بھی سدا سہاگن رہے گی۔
اب اگر یہ تسلیم کر ہی لیا جائے کہ عِلم عاجزی کے عَلم کی بجائےتکبر کے جھنڈے سے لہرایا جائے ۔تو سیاسی جھنڈوں کی تشہیری پرواز کی طرح جھوٹ کے انڈے کوے کے گھونسلے میں دینے سے کوا کاٹے گا نہیں۔ تو کیا کوئل کی طرح گنگنائے گا ۔نہ جانے کسی شاعر کو کیا سوجھی کہ جھوٹ کی سزا صرف کوے کے کاٹنے تک محدود کر دی ۔اگر کتے کے کاٹنے کا عندیہ دیتا تو شائد جھوٹ اب تک چھوٹ چکا ہوتا ۔اور ایسے اختیار کو پانے کے بعد کوا بھی ہنس کی چال نہ چلتا ۔
جہاں پابندی کی سزا کا خوف نہ ہو یا اگر کم ہو تو وہاں ترتیب ہو یانظم و ضبط فائدہ ہی کی حد تک اپنائی جاتی ہے ۔خاص کر قطعا نہ اپنانے میں جو مزا رہتا ہے ۔شاعر نے اسے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ گالیاں کھا کر بھی بے مزا نہ ہوئے ۔ اب اگر یہ دھمکی دی جاتی کہ کتنے بھاری ہیں تیرے ہاتھ کہ گالوں پر کھا کر بھی بے مزا نہ ہوئے۔ تو گالیاں نہ ہوتیں گلیوں میں سناٹا ہوتا ۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف جس مقصد کے لئے خوامخواہ اتنی لمبی تمہید باندھی صرف یہ خیال کر کے کہ ترتیب رہ جائے ۔ روز بروز تبدیل ہوتی انٹر نیٹ کی دنیا میں یہ بلاگرز کی دنیا بھی حیران کن نتائج دینے میں کتب، رسالہ جات ، اخبارات کے بعد تسلسل اور ربط سے تحریریں ارسال کرنے میں آگے بڑھ رہی ہے ۔بہت اچھا لکھنے والے اپنی تحریروں اور تبصرہ جات سے ایک دنیا کو پڑھنے پر مجبور کر رہے ہیں ۔بعض کڑھنے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں ۔ شکر ہے کہ میں ابھی تک ان دونوں کیٹیگری میں نہیں ہوں ۔اس کی بنیادی وجہ میرا اپنا مجبور ہونا ہے ۔پہلےزمانہ حالات کے ہاتھوں مجبور تھے ۔ اب زبان کمالات کی باتوں سے مجبور ہیں ۔
چند ماہ پہلے لکھنے کا آغاز ہوا ۔تو ڈرتے ڈرتے اردو فورم پر تحریر پوسٹ کرتا کہ نہ جانے کیسے تبصرے سے واسطہ پڑے ۔مگر اب جھجھک دور ہو چکی ہے ۔ برا سے برا بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ کوئی بری بات نہیں ۔ بلاگرز کی دنیا میں ایک بات جو بہت پسند آئی انتہا پسندی ہے ۔ جی ہاں لکھنے کی انتہا اور ایک دوسرے سے موضوعات کے حوالے سے بحث و تکرار میں بھی انتہا ۔
ہر فرد کا معاشرے میں رہنے کا اپنا انداز اور طریقہ کار ہے ۔ کچھ ہم خود سے تو کچھ اپنے مہربانوں سے نالاں ۔ کہیں ضروریات زندگی میں کمی بیشی برداشت کا مادہ بہا دیتی ہے تو کہیں رشتے ناطے احترام مجبوری کے بندھن ڈھیلے کر دیتے ہیں ۔جو خود دیکھتے ہیں دوسروں کو بھی وہی دکھانا چاہتے ہیں ۔ جس سے دھوکہ کھاتے ہیں دھوکے کو نہیں کوستے دھوکے باز کی کلاس لیتے ہیں ۔سیاستدان کے بیان کے لتے لیتے ہیں ۔ انداز سیاست کو برا نہیں کہتے ۔
کیونکہ شخص پر اعتراض زیادہ آسان اور یکطرفہ ہوتا ہے ۔ اور جانبداری پر منحصر ہوتا ہے ۔پڑھنے والا اسے لکھنے والے کا ذاتی مفاد و عناد سمجھتا ہے ۔ مگر حالات پیدا کرنے کی پاداش میں لکھنے کی صورت میں پڑھنے والے کو اپنے ارد گرد بے شمار مثالیں ملیں گی جو اپنے اندر اعتراضات کی وضاحت سے بھرپور ہوتی ہیں ۔
ہمارا لکھنا تحقیق نہیں تجسس ہے ۔ افسانہ نہیں حقیقت ہے ۔مجبوری نہیں شوق ہے ۔ لطافت نہیں صداقت ہے ۔ دل خوشی سے جھومتا نہیں حالات پہ افسوس کرتا ہے ۔کہیں کوستا ہے تو کہیں سوچتا ہے ۔کہیں غصہ ہے تو کہیں نفرت ۔ کہیں سیاست ہے تو کہیں عداوت ۔

Monday, May 24, 2010

پھولوں سے ہی تم نے اتنے درد سہہ لئے

4 comments
عرقِ عبادات سے گناہوں کو اپنے تم دھویا کرو
نازاں جو مقامِ دھن اپنے حال اُن کے تم رویا کرو


جل جل کر خاک پھونکوں سے بجھتے چراغ
مخمل شان میں عاجزی فقیری کو تم پرویا کرو



بھر بھر کے رحمتوں کو اَبر کیوں نہ بن جاؤں
جامِ تحسین کو مے خوش آب میں تم ڈبویا کرو


پھولوں سے ہی تم نے اتنے درد سہہ لئے
کانٹوں پہ اب محمود جی بھر تم سویا کرو




بر عنبرین / محمودالحق

Thursday, May 20, 2010

بلیک اینڈ وائٹ

3 comments
بچپن کی یادیں ذہن کےسینما پربلیک اینڈ وائٹ فلم کی طرح چلتی ہیں ۔جو کبھی بہ حالت مجبوری تو کبھی تفریح طبع کے لئے دیکھنے کا سبب ہوتی ہیں ۔ ایک زمانہ تھا ریڈیو پاکستان مقبول عام حصول معلومات کا زریعہ ہوتا تھا ۔ جب بوڑھے ریڈیو پر حکمرانوں کے عوام سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کا مژدہ سنتے ۔ اور ان کی طرف سے دئے گئے بیانات کو عوامی بھلائی کے منصوبوں کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ۔
نوجوان گلی محلے میں منڈلی جماتے اور منچلے اونچی آواز
میں ریڈیو پر گانے بجاتے ۔ جہاں نام اور شہر و گاؤں کے اتہ پتہ کے ساتھ گانے کی فرمائش کرنے والوں کا نام نشر کیا جاتا ۔
بچے زیادہ تر گلی محلوں اور پارکوں میں مختلف اقسام کے کھیلوں میں مصروف رہتے ۔مغرب کی آذان کے ساتھ ہی گھروں کو پرندوں کی طرح لوٹ جاتے ۔کبھی کسی خاص موقع پر محلے کے کسی گھر میں ٹی وی پر بلیک اینڈ وائٹ فلم کا شو چلتا ۔ کسی ایک گھر میں ٹی وی کے ہونے کی وجہ سے محلے کے لڑکے قطار میں نہایت ادب سے بیٹھ کر فلم بینی کا شوق پورا کرتے ۔ جب ہمارے گاؤں کی عورتیں اکھٹی بیٹھ کر بیٹی فلم میں معصوم جان پر مظالم کے سین دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں تھیں ۔ اس وقت تک شہر میں ہمارے محلے کی خواتین کے آنسو خشک ہو چکے تھے ۔
غرض سادہ بلیک اینڈ وائٹ زمانہ تھا ۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گہری کالی عینکوں سے اسے رنگین بناتے ۔سوتی کپڑے زیادہ استعمال میں رہتے ۔گھروں میں پٹھان خواتین گٹھڑیوں سے خوبصورت رنگوں کی جاپانی فلیٹ کھول کھول کر رکھتیں تو عورتیں کیا مرد بھی ہلکے رنگ اپنے لئے رکھ لیتے ۔ جو گرمیوں کے موسم میں پہننے سے پسینے کو پاؤں تک بہانے میں مددگار ہوتے ۔
کیا خوب زمانہ تھا نہ لباس میں بناوٹ و تصنع اور نہ ہی مزاج میں ۔پورا گھرانہ عزت و آبرو کی شال میں لپٹا ہوتا ۔ گھروں میں اچانک مہمان آ جانے پر چینی آٹا ہمسائیوں سے بھی مانگ لیا جاتا ۔اور زیادہ مہمانوں کی آمد پر بستر چارپائیوں کو بھی زیر استعمال لایا جاتا تھا ۔اس سے کسی کی خودداری پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ اور نہ گھر گھر اپنی دریا دلی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا ۔بلکہ محبت و اخلاص کی لڑی میں سب ہی پروئے ہوئے ہوتے تھے ۔
حالات اتنی تیزی سے کروٹ بدل رہا ہے کہ ابھی پہلی سلوٹ دور نہیں ہوتی کہ نئی سلوٹیں پڑ جاتی ہیں ۔
بلیک اینڈوائٹ ہر شے کو اتنی تیزی میں رنگین بنایا گیا کہ آنکھیں خود میں ہی رنگین ہو گئیں ۔کسی چشمہ کو پہننے کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ایک ہی طرح دکھنے والے چکا چوند روشنیوں میں رنگ برنگ کے نظر آنے لگے ۔جہاں مجبوریوں اور ضرورتوں کو سفید پوشی میں لپیٹ دیا گیا ۔ دریا دلی کے قصے ختم ہو گئے ۔تکبر و غرور کے میناروں پر احسان چڑھا دیئے گئے ۔ زکواۃ و خیرات کی ادائیگی بھی احسان عظیم ہو گیا ۔
کتابوں کے سرورق سے لے کر ٹی وی ڈراموں تک رنگینی کوبڑھایا گیا ۔آنکھیں فطرتی حسن سے نا مانوس ہو گئیں ۔رنگوں کے نت نئے امتزاج سے ہر نیا رنگ پہلے رنگوں کو دھندلاتا چلا گیا ۔قدرتی مناظر کو تصویر کشی سے ایسی جاذبیت سے سجایا جا تا ہے کہ آنکھ سے دیکھنے میں وہ دلکشی نہیں رکھتا ۔ کتاب میں چاہے ادب کی بے ادبی کی گئی ہو ۔ مگر ٹائیٹل کی خوبصورتی سے اسے شاہکار بنا دیا جاتا ہے ۔ جیسے شخصیت کا چھوٹا پن واسکٹ یا کوٹ سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
اچھے اچھے خاندانی لوگ رنگین دور کی بدولت گانا بجانے کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر براجمان ہیں ۔کہیں گلوکار تو کہیں فنکار کہلائے جاتے ہیں ۔بلیک اینڈ وائٹ دور میں یہی کام کرنے والے قومیت کی پہچان کے درجے پر تھے ۔ صرف اپنی برادری میں یا چند ایک قدردانوں میں ہی عزت و تکریم پاتے ۔
بلیک اینڈ وائٹ معاشرے میں برے کردار انگلیوں پر گنے جاتے تھے ۔ اب ہر گھر میں رنگین ٹی وی ریموٹ کنٹرول سے جتنے چینل بدل سکیں جمع کر کے پورے معاشرے میں موجود ٹی وی سے ضرب دینے سے تعداد حاصل کی جا سکتی ہے ۔ جو پہلے صرف اپنے جیسوں میں ہی بسیرا کرتے تھے اب ہر گھر میں نفس ِشیطان کی طرح جھوٹ کا پلندہ پھیلائے پھرتے ہیں ۔
بھلا ہو وزارت بجلی کا 12 سے 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ سے قوم اس عذاب سے چھٹکارہ حاصل کر پائی ۔ وگرنہ توبہ توبہ کرتے اکثر لوگ کسی اور نام سے پکارے جاتے ۔ جیسے پڑھے لکھے اہل افراد بے روزگاری کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں اور جعلی ڈگریوں والے ان کی قسمت کے فیصلے کا اختیار لئے اسمبلیوں سے جعلی ڈگری کی وجہ سے نا اہل ہو کر پھر بغیر ڈگری کے اسمبلی میں جہالت کی ڈگڈگی بجانے پہنچ چکے ہیں اور مزید پہنچنے کی آس میں مرے جا رہے ہیں ۔جیتنے والے 55 ، 55 ہزار ووٹوں سے عوامی نمائندگی کا حق پانے پر بغلیں بجا رہے ہیں ۔
قوم ملال میں نہیں غلطیاں سدھارنے کا موقعے پہ موقع دینے پر تلی ہوئی ہے ۔ جب تک کہ لیڈر نہ سدھر جائیں یا خود نہ بگڑ جائیں ۔

Sunday, May 16, 2010

حدود و قیود

3 comments
تحریر : محمودالحق
بدن پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے اور زمین پاؤں سے کھسکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ جب قدم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں مقابلے پر اتر آتے ہیں ۔ پہلی بار جب سائیکل کے پیڈل پر پاؤں رکھ کر توازن قائم کیا تو دو پہیے دو پاؤں سے بہت زور آور محسوس ہوئے۔ مگر رفتہ رفتہ وہ بھی ایک رفتار کے بعد میری ہی توانائی کے استعمال پر اُتر آئے ۔گاڑی چلانے کے شوق سے زمین پاؤں تلے نکلنے کے نئے فن سے آشنا ہوئے ۔ نت نئے تجربات کے شوق میں ٹرین اور پھر جہاز تک کے سفر سے زمین پاؤں کے نیچے سے نکلنے میں جسمانی توانائی کے ضیائع سے آزاد ہو گئی ۔ ہاتھوں کے بل رینگنے
سے لے کر ہواؤں میں اُڑنے تک کے سفر سے زندگی کی کامیابی کی چوٹیاں تو سر کرتے چلے گئے۔اور بدن پاؤں کے ہرجائی پن سے مٹی کی محبت سے محروم ہو گیا ۔آسمان کی بلندیوں تک جانے سے پہلے سفر کی دعا سے آغاز کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ ہم ہمیشہ ہوا میں رہنے کا تصور نہیں کر سکتے ۔ ہوا میں اُڑنے والے بھی ایک وقت تک ہی وہاں رہ سکتے ہیں ۔اتنا ایندھن بچا کر رکھتے ہیں کہ لوٹ سکیں ۔توانائی ضائع ہو جائے تو اُترتے نہیں گرتے ہیں ۔حدودمیں رہنا آسان بھی اور محفوظ بھی ۔
حدودو قیود چاہے معاشرتی اقدار میں ہوں یا ملکوں کی سرحدوں میں ۔ بلا اجازت داخلے کی صورت میں خوف میں جکڑے رہتے ہیں ۔دوسرے کا گھر دیوار سے جھانکنے میں بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے ۔اپنی دیوار پھلانگنے سے پہلے جان لینا ضروری ہے کہ وہ اپنی حدود میں ہی رہتا ہے ۔جھانکنا اور دیوار پھلانگنا حدود سے نکلنے کے مترادف ہے ۔
خیالات کی سرحدیں چاہے کتنی ہی کیوں نہ پھلانگ لی جائیں پانے کے لئے ۔مگر کھونے کا ڈر ہمیشہ ساتھ رہتا ہے ۔زمین اپنے خاندان کائنات نظام شمسی میں حدود و قیود کی پابندی میں ہے ۔پھر انسان کی حدود کیا ہیں ۔زمین پہ چلنا ، پانی پہ تیرنا یا ہوا میں اُڑنا ۔ اشرفالمخلوقات ہونے کے ناطے اتنا حق تو ملا ہے اسے ۔ اپنی سوچ اور ہمت سے آگے بڑھتا ہے ایک حد تک۔انسان کی سوچ کی آزادی میں ہی اس کی قیود ہیں ۔دیکھتی آنکھیں ، سنتے کان ، بولتی زبان اور ہلتے ہاتھ فطری راستوں پہ رہیں تو ٹھیک ۔وگرنہ آزمائش کی سختی میں پورا وجود ہی سزاوار ہو جاتا ہے ۔اگر انسان اپنی راہوں سے بھٹک جائے تو موجب فتنہ و فساد ہو تا ہے ۔
حقوق ملکیت جتنی آزادی دیتے ہیں ۔ حقوق آدمیت اُتنی ہی بندشیں عائد کرتی ہے ۔ راست اقدام عمل، بغض باطل اور کینہ غافل سے بچنے میں ممدو معاون ہوتے ہیں ۔جن باتوں سے اجنبی رہنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے ۔وہی اپنا پن کھونے پر آنسوؤں سے اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں ۔اجنبی اجنبیوں سے انسیت رکھتے ہیں ۔انسان مزاج سے ایک دوسرے کے قریب رہتا ہے فطرت سے نہیں ۔فطرت کے تقاضے حالات سے پیدا نہیں ہوتے ۔بلکہ خیالات میں رقص خواہش پہ نچھاور ہوتے ہیں ۔الفاظ سے جادو سر چڑھ کر نہیں بولتا ۔الفاظ کی بناوٹ اور شاہستگی بوجھل سوچ کو آزادی لہر ارجمند کر دے تو آزادی فطرت پہ رہ کر اختیار کی جائے تو نعمت ہے ۔اگر حدودو قیود سے آزاد ہو تو بے راہ روی ہے ۔ جو عمر کی ہر دہائی میں مختلف رنگ رکھتی ہے ۔جوانی میں بڑھاپا سوچنا گوارا نہیں ۔ اور بڑھاپے میں جوانی نا گوار ہے ۔خوشیاں پل بھر میں جدا ہو جاتی ہیں ۔مگر لطیف احساس تنہائی کے پہرے میں دیپ نہیں جلاتا ۔
دکھ تکلیف میں چاہے شدت کم ہو مگر یہ ہم سفر بڑا طویل ہوتا ہے ۔غم گساری کے ساتھی مسافر جلد راستے میں اُترتے جاتے ہیں ۔تنہا سفر طے کرنے میں بہت طویل ہوتا ہے ۔پابندیاں بیماری میں پرہیز کی مانند عارضی طور پر تکلیف دہ تو ہوتی ہیں ۔ مگر توانائی بحال کرنے میں معاون و مددگار ہوتی ہیں ۔بد پرہیزی لطف دوبالا کر دیتی ہے ۔ مگراثرات جان پر بھی آ سکتے ہیں ۔تخیل انسان رینگنے سے اُڑنے تک کے مراحل کا محتاج نہیں ۔جب چاہا جہاں چاہا قصد سفر باندھ لیا ۔ توانائی کے ضیائع کا خوف نہیں ۔ اس لئے واپس لوٹنے کی بھی جلدی نہیں ہوتی ۔ ہوا کے گھوڑے پر تا حیات سوار رہ سکتا ہے ۔
اسی لئے معاشرہ مذہب کی حدود وقیود کا پابند رکھا گیا ہے ۔جو اُڑان تخیل کو پابند کرتا ہے ۔ اور توانائی کو بچا کر رکھنے کا عندیہ دیتا ہے ۔تاکہ واپس لوٹنے میں گرنے کی ضرب سے محفوظ رہا جا سکے ۔آزادی کلچر میں پیدا ہوتی تبدیلیوں کا مظہر ہے ۔ جو بیماری میں بد پر ہیزی کی مانند پنپتی ہیں ۔لطف اُٹھانے کے لئے ہی انہیں قبول کیا جاتا ہے ۔مگر دیکھنے والے اس کے اثرات و انجام سے بے خبر نہیں ہوتے ۔ظاہری حالت کی مقبولیت انھیں قبولیت پر آمادہ کرتی ہے ۔
بے ہنگم ساز کی طرح انسانی ہجوم سے ہنگامہ برپا ہے ۔ دور سے کان صرف ایک شور سن پاتے ہیں ۔جو مختلف زبانوں میں ادا کئے گئے الفاظ نہ سمجھ آنے والی ایک ہوائی ساز میں بدل جاتے ہیں ۔ زندگی اتنی تیز رفتاری سے گزر جاتی ہے ۔کہ آوازیں کبھی سمجھ کر اور کبھی انجان بن کر پاس سے گزر جاتی ہیں ۔آزادی کا یہ روپ مانوسیت نہیں رکھتا ۔ بھیڑ میں صرف قریب سے گزرنے والے کلامِ ہم زبان سے اپنائیت محسوس کرتا ہے ۔وگرنہ سوچ خود سے ہی مانوس زبان میں ہم کلام ہوتی ہے ۔کامیاب زندگی کا مقام جو سمجھ بیٹھے ہیں وہ خوشحال تو ہیں مگر خوش باش نہیں ۔بامراد تو ہیں مگر با نصیب نہیں ۔قسمت اور نصیب محنت سے ٹکراتا ہے ۔کبھی پیشانی پہ لکھی تقدیر تو کبھی عقل کی تدبیر جانتا ہے ۔ خون پسینہ بہا کر جو حاصل کرتا ہے ۔ ہاتھ کی میل سمجھ لیتا ہے ۔جسے ہاتھ کی لکیروں سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔اور ہاتھوں ہی کے بل خواہش کو منزل کا نشان بنا لیتا ہے ۔
منزل امید کا چراغ ہے ۔ بجھنے پر نشان بنتی ہے ۔منزلیں خواہشوں کی ہوتی ہیں ۔زندگی تو ایک کھلا میدان ہے جہاں سب ہی ایک دوسرے کے سامنے رہتے اور گزرتے ہیں ۔کیونکہ ان کے آنے کا انداز ایک اور جانے کا بھی وہی ایک۔ منزل تو پھر ایک ہوئی صرف ۔ راستے الگ الگ ہیں ۔کوئی کانٹوں جھاڑیوں کا راستہ اختیار کرتا ہے کوئی میدانوں کا تو کوئی ریگستانوں کا ۔
طویل راستوں سے جو عاجز ہوتے ہیں وہ شارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں ۔منزل پالیں تو ٹھیک ورنہ سفر کی صعوبتوں سے انجام عبرت کے نشان میں بدل جاتے ہیں ۔جو منزل تک پہنچنے کے لئے ہاتھ کی لکیروں کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔نہیں بھولنا چاہئے وہی ہاتھ روزانہ ان کے گلے اور گریبان تک آسانی سے جاتے ہیں ۔اس لئے معافی مانگنے سے عاجز ہیں ۔ہاتھ کھلی آزادی پاکر ہی گریبان پھاڑتے ہیں ۔
اگر آزادی اصول وضوابط میں حدودو قیود کے اندر رہے تو آباد ورنہ برباد ہے۔

Friday, May 14, 2010

زنجیرِ عدل کی گونج سوزِ گدا میں ہوں

0 comments
زنجیرِ عدل کی گونج سوزِ گدا میں ہوں
رک جا تو سمے دردِ پکار کی صدا میں ہوں


مایوسی میں رہتی فنا صبر کی ادا میں ہوں
پھولوں کی فطرت کہتی مہک ردا میں ہوں

امید و بیم کا ٹوٹا ستارہء جدا میں ہوں
آئی عرش سے آواز ٹھہر تیرا خدا میں ہوں




بر عنبرین / محمودالحق

رات کی تنہائی سے بھٹکتا رہے

0 comments
دن کے اجالوں میں رات کی تنہائی سے بھٹکتا رہے
ابرِ رحمت بنے برسات قطرہ قطرہ ٹپکتا رہے


جامِ حیات بھر بھر کے ساقی تجھ سے اچھلتا رہے
تعشق سے بینا در بدر کی ٹھوکر سے بھٹکتا رہے

آتاقلب میں قرار یاد میں جب بھی دھڑکتا رہے
پھول بھی مہکار گلستان غنچہ بھی مہکتا رہے

محبوب عشق بھی چاہ بھی سوختہ جان کھٹکتا رہے
نبیؐ کے نام سے ہے اجالا دہر بھی چمکتا رہے



بر عنبرین / محمودالحق

Tuesday, May 11, 2010

میرے گھر کے بادل گرج کر گزر گئے

0 comments
میرے گھر کے بادل گرج کر گزر گئے
تیرے گھر کے بادل برس کر بکھر گئے

میری شاخِ شجر کے پتے اتر گئے
تیرے پھول بھی کھل کر نکھر گئے


میری مٹی میں فراقِ ہجر گئے
مہک بنی ہوا تیری جدھر گئے

بھولِ آنکھ میں میری اشکِ تر گئے
آنسو بھی تیرے بن اَبر گئے

میری کھلتی کلی سے بھی ثمر گئے
تیرے گرتے بیج بھی بن شجر گئے

پیالہ میرے میں بھر وہ زہر گئے
کشکول تیرے میں ڈال اثر گئے

خاکِ سکوت میں خوف ٹھہر گئے
روحِ رواں میں تیرے مد و جزر گئے

میرے عشق میں بینا بھی تو نظر گئے
تیرے حسن کے تارے بن اطہر گئے

شکوہ نہیں رہ اب عزر گئے
رحمت سے بھی اب ہو احمر گئے

دبیز تہہ بھی اب بن راہ گزر گئے
رکتے شب میں دن میں سفر گئے

دل لگی رکھی تو چلے دلبر گئے
نظر سے جو چوکے تو قلب میں نشتر گئے

ڈھونڈھتے ہم انہیں نہ جانے کدھر گئے
کچھ اِدھر تو کچھ رہ اُدھر گئے

نفرت نشاں رہ اب بشر گئے
شاھین کے دوست بن کبوتر گئے

بچاتے نہیں جو جل شرر گئے
قلم سے جب نکلے تو بن نشر گئے

کبود انعام سے بھی وہ مکر گئے
سانس لینے میں ہی وہ سجدہ شکر گئے

نام لینے سے جن کے جھک سر گئے
سجدہ میں ہی ان کے ہو بلند فخر گئے



بر عنبرین / محمودالحق

Friday, May 7, 2010

سبب کیا ہے

3 comments
تحریر : محمودالحق
دیکھنے میں جو ایک رنگ نظر آتے ہیں۔ اپنی الگ الگ فطرت رکھتے ہیں۔ کوئی اگر سرد موسم کا عادی ، تو کسی کو گرم مرطوب ہوا مطلوب ہے۔ کوئی نرم مٹی میں سینچنا پسند کرتا ہے۔ تو کبھی کسی کو سنگلاخ چٹانوں کے سینے میں جم جانا فخر کا باعث ہو تا ہے ۔ہر بڑھتی شاخ میں جو نشہ ہے۔ وہ جڑ کی بدولت ہے۔ جو خاموشی سے سخت زمین ہو یا پتھر انہیں چیر کو رکھ دیتی ہے۔ ٹکر لینے کی اس کی وہی فطرت شاخوں اور ان پر لگے پتوں کو زندگی کی خوشیاں خوشبو سے بھری دیتے ہیں ۔ ہر آنکھ پھول پسند کرتی ہے۔ پنکھڑی کی نازکی پہ
فدا ہو جاتی ہے۔خوشبو سے مسحور ہونا اسے بے خودی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مگر آنکھ وہ نہیں دیکھ پاتی جس وجہ سے یہ سب ہے۔ قہقہے تو نظر آتے ہیں مگر سبب معلوم نہیں ہوتے ۔ آنسو بھی نظر آتے ہیں مگر درد کا احساس محسوس نہیں ہوتا ۔ سونے کی خوبصورتی اسکے ڈھلنے میں ہے ۔ہیرا تراش کے بعد ہی ہیرا بنتا ہے ۔ بادل برسے بنا گزر جائے تو زمین بنجر ہو جاتی ہے ۔ہوا ہی پرندے کو توازن قائم رکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ غرض کائنات قدرت میں ہر شے چاہے جاندار ہو یا بے جان ایک راستہ بند ہو تو دوسرے میں کھل جاتے ہیں ۔
مگر ایک جاندار ایسا بھی ہے جو کھلے راستوں سے بند اور اندھیری گلیوں میں داخلے کا خواہش مند رہتا ہے ۔جڑوں کو اپنی آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹ سمجھ کر اس سے جدا ہونے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ جب وہ نئی شاخ کوجنم دیتی ہے تو وہ خود جڑ بن جاتی ہے۔ مکافات عمل کا ایک ایسا لا متناہی سلسلہ جو پہاڑوں کی طرح نہیں ۔کہ ایک پہاڑ کی زمین پہ دوسرے کی چوٹی ہے۔ بلکہ کمزور ایک ہی طرح دکھنے والے ٹیلوں کی لمبی قطاریں۔ جو فاصلے فاصلے پر یاس و نا امیدی کی تصویر بنے۔ وقت کے بے رحم تھپیڑوں سے اپنے آپ کو بچانے کی قدرت نہیں رکھتے ۔اسی درد کے احساس میں گھلنے اور گھسنے کے عمل کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
سب جہان بتائی گئی نشانیوں سے بھرا پڑا ہے ۔فطرت کو صرف دیکھا جاتا ہے اور فتنہ کی آبیاری کرکے پروان چڑھایا جاتا ہے ۔گندم کا دانہ کھانا ہی تو نہیں جنت سے نکلنے کا باعث ہوا ۔بنی آدم میں تجسس فتنہ کا سبب ہو جاتا ہے ۔ عقل کی کسوٹی پر تجسس تو رکھا جا سکتا ہے مگر سبب نہیں ۔زمین اپنے محور میں دن رات کا چکر ۱۶۰۰ میل فی گھنٹہ سے طے کرتی ہے ہر موسم سے گزرنے کے لئے ایک لاکھ دس ہزار میل فی گھنٹہ سے بھاگ رہی ہےایک دائرے میں۔ مہتاب چھپنے چھپانے کی اٹھکیلیوں میں مصروف ہے ۔ مگر سبب معلوم نہیں۔
سورج سے آنکھیں چار اور ستاروں پہ کمند ڈالنے کی باتیں تو ہو سکتی ہیں ۔ لیکن یہ تو سوچ کر ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ کہ اس سے آگے تو جہان اور بھی ہیں ۔ ایسا بھی ایک ستارہ ہے۔ جو کئی ہزار زمینیں اپنے اندر سمونے کی قدرت رکھتا ہے۔ اور ایک دن میں جو جسم سو میل قدموں پہ طے نہ کر سکے ۔اُڑ بھی جائے تو زمین کے گرد گھوم کر واپس پلٹ نہ سکے۔ اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے مگر سبب نہیں جان سکتا ۔
ہر روشن ہالہ ہی مرکزیت کا حامل ہے۔ موسی علیہ اسلام پہ جو کوہِ طور پہ جلوہ گر ہوا وہ چمکتی روشنی بھی نور ہی کی جھلک تھی ۔آنکھ میں بھی نور ہے جو روشن آفتاب کو اور اس کے روشن ستاروں پہ اس کا عکس دیکھتے ہیں ۔
آنکھ کی روشنی سے محروم کاغذ پہ لکیریں کھینچ کر نقش و نگار تو بنا سکتا ہے مگر کسی بھی احساس سے خالی ۔ جیسے کاغذ ی پھول دیکھنے میں تو اصلی دکھائی دیتے ہیں ۔مگر خوشبو سے خالی۔ جیسے دوڑنے اور اُڑنے والے سبھی نہ تو گھوڑے بن سکتے ہیں اور نہ ہی عقاب۔ لیکن پھر بھی ان پر اتنا فخر کہ دم نکلنے سے رہ جائے۔
گھر تک کوئی چھوڑنے چلا آئے تو شکریہ میں زبان نہیں تھکتی۔ مگر جو دے کر احسان نہیں جتاتا اور واپس لے جانےکا بھی عندیہ دیتا ہے اس کے لئے سبب ڈھونڈتے ہیں۔

Thursday, May 6, 2010

گر تو برا نہ مانے

3 comments

محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کا فارمولا دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں سے ہمیشہ ہی سچائی کا منہ بولتا ثبوت رہا ہے ۔ لیکن جدید دنیا نے ان دو میں ایک تیسرا عنصر بھی شامل کر دیا ہے ۔جسے سیاست کے نام سے جانا جاتا ہے ۔جہاں یونین کونسل کی سیاست سے لیکر بین الاقوامی تعلقات میں سب جائز ہے کی طرز پر کہیں جمہوریت تو کہیں ڈکٹیٹر شپ کی شکل میں عوام الناس پر رقابت اور دشمنی کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے ۔
محبت اور جنگ میں سب جائز تبھی ہوتا ہے جب وہ کسی
اصول و ضابطے کی بجائے داؤ پیچ پر اختیار کی جاتی ہے ۔اور مد مقابل کے ساتھ کھلی محبت یا نفرت ۔ جنگ یا امن کےوعدے یا سمجھوتے رقم ہوتے ہیں ۔
لیکن سیاست میں بھی سب جائز ہوتا ہے ۔ مگر مد مقابل کوئی رقیب یا فریق نہیں ہوتے ۔ بلکہ غریب ہوتے ہیں ۔وہ ان کا حصہ بقدر جُثَّہ ہوتے ہیں ۔جیسے محبت میں چاہت کا جنون ،جنگ میں جیتنے کا ۔سیاست میں جنون تو ہوتا ہے مگر نشہ و سرور کا ۔محبت آہ گری ،جنگ سپاہ گری کی محتاج ہوتی ہے۔اور سیاست کو رسہ گیری کہہ لیں یا شیشہ گری دونوں ہی چلیں گے۔کیونکہ ایک دھونس دھاندلی سے نشہ لیتے ہیں تو دوسرے شیشہ گری کے کمالات سے شیشے میں اتارتے ہیں ۔رہ جاتے ہیں پیچھے بیچارے غریب جو شکر سے ہی شکار ہو جاتے ہیں ۔غریب جن کے پیچھے ہوتا ہے وہ وقت سے بہت آگے چلتے ہیں ۔کسی کو روٹی روزی کے لالے ہیں ۔ گھر ان کے اندھیرے ، محنت سے پاؤں میں چھالے ہیں ۔کہنے کو وہ بھی جیالے یا متوالے ہیں ۔پروانے اس لئے نہیں کہا جاتا کہ مرنا ان کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے ۔ سیاست کے کھیل میں لاشیں تو چاہئے مگر زندہ ۔جو دیکھتی اور سنتی تو ہوں مگر بولنے سے معزور ہوں ۔
جنگ میں ڈو اورڈائی ، محبت میں یُو اور آئی ،سیاست میں لو اور ہائی ہوتا ہے ۔ان سب میں ایک فارمولا اپنے لئے تو دوسرا مد مقابل کے لئے ہوتا ہے ۔ مگر اصول کہیں نہیں ہوتا ۔
منیاری کی دوکان اصولوں پر رہ کر چلائی جائے تو بیٹے غلہ سےچوری چکاری سے باز نہیں رہتے ۔سیاست بھی اب کھیل نہیں منیاری کی نہ سہی دوکانداری ضرور ہے ۔جہاں اصول اپنائیں تو بیٹے باپ سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں ۔وراثت اب منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد میں نہیں سیاسی قول و قرار کی بھی ہے ۔اٹھارویں آئینی ترمیم میں سیاسی پارٹیوں میں الیکشن نہ کروانا اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ دوکان کے غلہ کی طرح سیاسی قیادت پر صرف اولاد کا حق ہی سمجھا جاتا ہے ۔غریب تو سبز باغ سے پیٹ بھر لیتا ہے مگر سیاستدان کی اولاد پارٹی قیادت ہاتھ آئے مرغ کی طرح ٹانگ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ۔
جو مرغ کی بانگ سے صبح کا آغاز کرتے تھے ۔انھیں گانوں کی لوری پہ لگا دیا گیا ۔ گہری نیند سے اُٹھنا اتنا ہی مشکل جتنا مرغ کا اپنی ٹانگ چھڑوانا ۔ نہ ٹانگ چھوٹے نہ میاں بانگ دے اور نہ ہی نئی صبح کا آغاز ہو ۔اب تو کان وہی سنتے ہیں جو سنایا جاتا ہے ۔آنکھیں وہی دیکھتی ہیں جو دیکھایا جاتا ہے ۔سمجھ اتنی رہ گئی ہے جتنا سمجھایا جاتا ہے ۔
باپ کی جوتی بیٹے کے پاؤں میں پوری آجائے تو ڈانٹنے سمجھانے میں احتیاط کی جاتی تھی۔ مگر اب جوتیوں میں دال بٹتی ہے ۔ بنتی بات بگڑ جائے تو افسوس سے ہاتھ ملا جاتا تھا ۔اب بگڑی بات جب تک نشر نہ ہو ۔ہاتھ میں کھجلی رہتی ہے ۔
محبت سے لے کر سیاست تک، جنگ سے لے کر امن تک ٹانگ پکڑنے سے بڑھ کر کھینچنے تک جا پہنچے ہیں ۔اپنے ہاتھ شائد کچھ نہ آئے لیکن دوسرے کے ہاتھ میں بیساکھی تو ضرور جائے گی ۔پھر اگر میاں کی بانگ سے جاگ بھی جائیں تو
 بیساکھی سے سنبھلنے سنبھالنے میں اگلی صبح پھر نئی بانگ کا وقت آ پہنچے گا ۔

تحریر : محمودالحق

Wednesday, May 5, 2010

تنہا رہتا میں خلق جہان تو اچھا تھا

0 comments
تنہا رہتا میں خلق جہان تو اچھا تھا
رکھتا ان سے میں تعلق زبان تو اچھا تھا

میرا گھر مجھ کو پہلے ہی بیگانہ کر چکا
آباد رہو میرا آشیانہ ویران تو اچھا تھا


باد اُمنگ

رہتی دنیا تک ہیں آباد پیغام حی علی الصلواۃ

6 comments
رہتی دنیا تک ہیں آباد پیغام حی علی الصلواۃ
گونج کون و مَکاں بالِیدَگی حی علی الفلاح

قوم وطن سے تو ملت اسلامیہ سے علم بلند
وعدہ اس کا سچا إذا جاء نصر الله والفتح


انتشار ملت میں پوشیدہ زوال قوم کی تقدیر امنگ
دن پہ جن کے ہو طاری رات کی سپیدئ سحر صبح

گرہن آفتاب سے چھپتے ہلال پہ زور جبر ایام
ہوئے خود سے جدا چاہتے مقام مبلغ مصباح

انجم خود محتاج انتظار اطہر نور دل فگار
روح قرآن سینوں میں جنکے ڈھلا وہ قد افلح



باد اُمنگ / محمودالحق

Tuesday, May 4, 2010

آسمان اس کا انوار اس کا نظارہ کس لئے

0 comments
آسمان اس کا انوار اس کا نظارہ کس لئے
لہر اس کی طوفان اس کا کنارہ کس لئے

محبت میں ہو کینہ سنگ ہو سینہ تو زمانہ کس کا
کم ہو جینا سنگدار ہو مینہ الفتِ انگارہ کس لئے


درد ہو مستی، سکھ میں تنگدسی پھر بہکاوہ کس کا
لپٹتی بھی خاک مٹتی بھی رہتا چاند ستارہ کس لئے

کلی مہکار تو گلاب فناء انتظار میں بستا راہ کس کا
جستجوء جہاں میں تو شوقِ انساں ہے پھر سہارہ کس لئے

مفہومِ کلام ایک عبادت پیغام بھی ایک پھر قلمِ نقطہ کس کا
کس محبوب کے شیدائی چاہتے جو پزیرائی پھر گہوارہ کس لئے


بر عنبرین / محمودالحق