تحریر : محمودالحق
ہر نئے سفر میں منظر آنکھوں میں سماتا ہے تو خیال ذہن میں کھلبلی مچاتا ہے ۔اور قلم کاغذ پہ لفظوں سے پھولوں کی ردا بچھاتا ہے ۔سوچ کے نت نئے باب وا ہوتے ہیں ۔جو نہیں کھل پاتے وہ تجسس میں جستجو کی آمیزش رنگ سے امتزاج سے نکھار پاتے ہیں ۔ حیات جاودانی کے جادو تو صدیوں سے چلتے آرہے ہیں ۔ کرشمہ سازی سے شعبدہ بازی تک کے مراحل بآ سانی عبور کر لئے گئے ۔جو ان سے بچ گئے وہ ملمع سازی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔فطرت آدمیت تغیر و تبدل کے فطری عوامل سے جلا پانے کی کوشش میں بہک کر بھٹکنے کی صلاحیت سے مالامال ہو گئی ۔لفظوں کی بساط میں ہر لفظ اپنے گھر میں پیادہ سے وزیر تک کے اختیار کے استعمال میں رکاوٹ و بندش تحفظ کا پابند رہتا ہے ۔جانثار تنہا آگے نہیں بڑھتے ۔بلکہ ایک کے بعد ایک راستہ کھلنے کا انتظار کرتے ہیں ۔کہ کہیں منزل تک پہنچنے کی جلدی میں اپنا گھر ہی نہ چھوٹ جائے ۔
آغاز سفر اور انجام سفر تو پل بھر کا ہے ۔ مگردوران سفر ایک طویل دورانیہ کی صبرصعوبت و برداشت کا تسلسل ہے ۔اکیلے منزل تک بڑھنے والے گھر سے دور نکل جائیں تو پہلے تحفظ پھر راستہ کھو دیتے ہیں ۔امید روشنی کی کرن بنی فاصلے کم ہونے کی نوید دیتے ہیں ۔مگر قریب پہنچ نہیں پاتے ۔اتنا دور نکل جاتے ہیں کہ ایک آس اور ایک یاس بن جاتی ہے ۔زندگی کا کھیل آنکھ مچولی نہیں کہ ایک چھپ جائے تو ڈھونڈتے رہو ۔یہ منظر اور نظر کی محبت کا کھیل ہے ۔ نظر جب پانے کی خواہش پالیتی ہے ۔تو منظرمنظورنظر ہو جاتے ہیں اور نظر میں بس جاتے ہیں۔ اوجھل روشنی ہوتی ہے منظر اندھیرے میں بھی روشن رہتے ہیں ۔
زندگی گزارنے کا ڈھنگ تو الگ الگ ہو سکتا ۔مگرجینے کا نہیں ۔ جینا جان سے ہے تو زندگی زمین سے وابستہ ہے ۔آنکھ کا دیکھنا دو طرح سے فوکس کیا جاتا ہے دور و نزدیک۔ نظر کی یہ صفت روح سے ہے ۔جسم جامد ہے تحریک زمین سے لیتا ہے ۔چاند پر روح آزاد تو جسم مشین میں قید رہتا ہے ۔اللہ تعالی نے جسم کو زمین کی قید سے آزادی کے لئے صبر و شکر ، استقامت اور عبادت کا پروانہ تھما دیا ۔زندگی اپنے احسانوں کا بدلہ خود چکا دیتی ہے ۔خوشیاں مہک میں تو غم کانٹوں سے لبریز ہیں ۔
روشنیوں میں راہ پانے والے اندھیروں سے چھپتے ہیں ۔روشنی کے جگنو دن میں خود چلتے تو اندھیرے میں راہ دیکھاتے ہیں ۔ اندھیروں میں رہنے والے خود کو شاہ گلستان سمجھتے ہیں ۔تنہائی میں ہو کا عالم انہیں اپنی کامیابی و کامرانی کے اعلان کا نقارہ سنائی دیتا ہے ۔وہ روشنیوں سے اتنی دور جا چکے ہوتے ہیں کہ اندھیرے انہیں سنگی ساتھی معلوم ہوتے ہیں ۔ہوس و حرص کی آگ میں جل کرشاہ گلستان سمجھنے والے روشنیوں سے چھپے اندھے دکھائی دیتے ہیں ۔
قرآن و سنت اندھیروں میں روشنی سے اجالا لانے کا ذریعہ ہے ۔اب بھی کوئی اندھیرے میں رہنا چاہتا ہے تو ایسی عقل پہ ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔
ہر نئے سفر میں منظر آنکھوں میں سماتا ہے تو خیال ذہن میں کھلبلی مچاتا ہے ۔اور قلم کاغذ پہ لفظوں سے پھولوں کی ردا بچھاتا ہے ۔سوچ کے نت نئے باب وا ہوتے ہیں ۔جو نہیں کھل پاتے وہ تجسس میں جستجو کی آمیزش رنگ سے امتزاج سے نکھار پاتے ہیں ۔ حیات جاودانی کے جادو تو صدیوں سے چلتے آرہے ہیں ۔ کرشمہ سازی سے شعبدہ بازی تک کے مراحل بآ سانی عبور کر لئے گئے ۔جو ان سے بچ گئے وہ ملمع سازی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔فطرت آدمیت تغیر و تبدل کے فطری عوامل سے جلا پانے کی کوشش میں بہک کر بھٹکنے کی صلاحیت سے مالامال ہو گئی ۔لفظوں کی بساط میں ہر لفظ اپنے گھر میں پیادہ سے وزیر تک کے اختیار کے استعمال میں رکاوٹ و بندش تحفظ کا پابند رہتا ہے ۔جانثار تنہا آگے نہیں بڑھتے ۔بلکہ ایک کے بعد ایک راستہ کھلنے کا انتظار کرتے ہیں ۔کہ کہیں منزل تک پہنچنے کی جلدی میں اپنا گھر ہی نہ چھوٹ جائے ۔
آغاز سفر اور انجام سفر تو پل بھر کا ہے ۔ مگردوران سفر ایک طویل دورانیہ کی صبرصعوبت و برداشت کا تسلسل ہے ۔اکیلے منزل تک بڑھنے والے گھر سے دور نکل جائیں تو پہلے تحفظ پھر راستہ کھو دیتے ہیں ۔امید روشنی کی کرن بنی فاصلے کم ہونے کی نوید دیتے ہیں ۔مگر قریب پہنچ نہیں پاتے ۔اتنا دور نکل جاتے ہیں کہ ایک آس اور ایک یاس بن جاتی ہے ۔زندگی کا کھیل آنکھ مچولی نہیں کہ ایک چھپ جائے تو ڈھونڈتے رہو ۔یہ منظر اور نظر کی محبت کا کھیل ہے ۔ نظر جب پانے کی خواہش پالیتی ہے ۔تو منظرمنظورنظر ہو جاتے ہیں اور نظر میں بس جاتے ہیں۔ اوجھل روشنی ہوتی ہے منظر اندھیرے میں بھی روشن رہتے ہیں ۔
زندگی گزارنے کا ڈھنگ تو الگ الگ ہو سکتا ۔مگرجینے کا نہیں ۔ جینا جان سے ہے تو زندگی زمین سے وابستہ ہے ۔آنکھ کا دیکھنا دو طرح سے فوکس کیا جاتا ہے دور و نزدیک۔ نظر کی یہ صفت روح سے ہے ۔جسم جامد ہے تحریک زمین سے لیتا ہے ۔چاند پر روح آزاد تو جسم مشین میں قید رہتا ہے ۔اللہ تعالی نے جسم کو زمین کی قید سے آزادی کے لئے صبر و شکر ، استقامت اور عبادت کا پروانہ تھما دیا ۔زندگی اپنے احسانوں کا بدلہ خود چکا دیتی ہے ۔خوشیاں مہک میں تو غم کانٹوں سے لبریز ہیں ۔
روشنیوں میں راہ پانے والے اندھیروں سے چھپتے ہیں ۔روشنی کے جگنو دن میں خود چلتے تو اندھیرے میں راہ دیکھاتے ہیں ۔ اندھیروں میں رہنے والے خود کو شاہ گلستان سمجھتے ہیں ۔تنہائی میں ہو کا عالم انہیں اپنی کامیابی و کامرانی کے اعلان کا نقارہ سنائی دیتا ہے ۔وہ روشنیوں سے اتنی دور جا چکے ہوتے ہیں کہ اندھیرے انہیں سنگی ساتھی معلوم ہوتے ہیں ۔ہوس و حرص کی آگ میں جل کرشاہ گلستان سمجھنے والے روشنیوں سے چھپے اندھے دکھائی دیتے ہیں ۔
قرآن و سنت اندھیروں میں روشنی سے اجالا لانے کا ذریعہ ہے ۔اب بھی کوئی اندھیرے میں رہنا چاہتا ہے تو ایسی عقل پہ ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔